اکمل خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب کا لفظ ہمارے کانوں میں پڑتا ہے تو فوراً ہمارے ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے، اس میں ہمیں چار سو پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔
گلی محلوں میں پانی سے محفوظ کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ پانی کے اندر ڈوبتے انسان اپنی زندگی کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ مکانوں کی چھتوں پر محصور نظر آتے ہیں اور سڑکوں پر گاڑیوں کی جگہ کشتیاں چلتی نظر آتی ہیں۔
اس سے کم منظر کو ہمارا ذہن سیلاب سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا اور ان ہی تصاویر اور ویڈیوز کی تلاش ہمیں اس سیلاب سے دور لے جاتی ہے جس کا سامنا پہاڑی علاقوں میں بسنے والوں کو کرنا پڑتا ہے۔
25 اگست کو کوہستان کی وادی دوبیر کے پانچ نوجوانوں کے سیلاب میں بہہ جانے کی خبریں سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونا شروع ہوئیں تو اس وقت تک پاکستانی ٹی وی چینلوں کی سکرین پر شاید سیلاب کی کوریج کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی تھی۔
اگلے دن جب سوات کے بڑے سیاحتی مقام کالام میں ایک ہوٹل کی عمارت کے گرنے کے مناظر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے تو یہ وہ لمحہ تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز کے لیے سیلاب بھی اہم ہوگیا۔
ماہرین ماحولیات اور موسمیات کے ماہرین کے مطابق اس سال جون میں ہی حکومتی سطح پر متعدد بار وارننگ جاری کی گئی تھی کہ ضلعی انتظامیہ سیلاب جیسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پیشگی انتظامات کر لیں۔
وسط جولائی سے شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے سے بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقے جب زیر آب آنے شروع ہوئے تو خیبر پختونخوا میں عمومی طور پر سیلاب کا امکان بھی نظر نہیں آرہا تھا۔
محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں اس سال 44 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ ضلع سوات کی چار تحصیلیں، بحرین، خوازہ خیلہ مٹہ اور مینگورہ براہ راست سیلاب کی زد میں آئیں۔ اس ضلعے میں سب سے زیادہ نشانہ بننے والی تحصیل بحرین کی آبادی 248474 افراد پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ 2899 مربع کلومیٹر ہے۔ اس تحصیل میں کل مکانات کی تعداد 29975 ہے۔
تحصیل بحرین کی شہری آبادی 61,787 اور دیہات سے تعلق رکھنے والی آبادی کی تعداد 186,687 ہے۔ بری طرح متاثرہ ہونے والے علاقوں میں مدین بازار، تیرات، بشیگرام، چیل، بحرین بازار، کیدام، چم گڑھی، لائیکوٹ، پشمال، آریانی، کالام، اتروڑ، گبرال، مٹلتان، پلوگاہ کے علاقے شامل ہیں۔
ضلع سوات کے مختلف علاقوں میں 15 افراد ہلاک اور سینکڑوں مکان تباہ ہو گئے ہیں۔ حالیہ سیلابی ریلوں نے یونین کونسل اتروڑ، کالام، مٹلتان، چیل، کیدام، آریانی اورگبرال کی رابطہ سڑکوں اور پلوں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں مدین سے کالام تک 18 ارب روپے کی لاگت سے بنائی جانے والی قومی شاہراہ بھی جگہ جگہ سے پانی میں بہہ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں مدین سے کالام تک زمینی راستہ منقطع ہو گیا ہے اور ذرائع آمد و رفت محدود ہو گئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے گذشتہ تین روز میں مدین سے بحرین تک کا راستہ کھول دیا ہے۔
بحرین سے آگے بالائی علاقوں میں بجلی کی سہولت مقامی پن پجلی گھروں سے ہوتی تھی جو زیادہ تر سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ موبائل فون نیٹ ورک بھی کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے مسائل کا ادراک مشکل ہے۔ زیادہ تر دیہات میں پینے کے پانی کی سپلائی کو پلاسٹک کے پائپوں کے ذریعے سے ممکن بنایا گیا تھا۔ دور دراز چشموں سے آنے والے پائپوں کو بھی سیلاب نے متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
بالائی سوات کی مقامی آبادی کا روزگار سیاحت یا کھیتی باڑی سے جڑا ہوا ہے۔ حالیہ سیلاب نے ان سے یہ ذرائع آمدن بھی چھین لیے ہیں۔ جولائی سے اگست کے درمیان سوات کے بالائی علاقوں سے آلو، مٹر، ٹماٹر، بند گوبھی اور پیاز کی فصلیں اسلام آباد اور پشاور کی منڈیوں میں پہنچتی ہیں جس سے سوات کے زیادہ تر خاندان سارا سال گزر بسر کرتے ہیں۔ مرکزی اور رابطوں سڑکوں کی بحالی میں تاخیر ان علاقوں میں بسنے والوں کی مالی مشکلات میں اضافہ کر دے گی۔
پہاڑی علاقوں میں سیلاب میدانی علاقوں سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ تسلسل سے ہونے والی بارشوں، بادلوں یا گلیشیئر کے پھٹنے سے پیدا ہونے والا سیلاب بہت تیزی سے بلندی سے نچلے علاقوں کی طرف پھیلتا ہے۔ میدانی علاقوں کی نسبت پہاڑی علاقوں میں دریا کا پاٹ تنگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی طغیانی کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرتا جاتا ہے۔
دریا کے کنارے بنائے گئے ہوٹل، مکانات اور دیگر تجاوزات بھی دریا کے بہاؤ کو متاثر کرتے ہیں جس سے پانی کے پریشر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دریا پر بنائے گئے ناقص ڈیزائن کے پل بھی پانی کی طاقت میں اضافہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
تاہم پہاڑی علاقوں میں پانی کھڑا نہیں ہوتا اور میدانی علاقوں کے مقابلے میں پہاڑی علاقوں میں طغیانی جس تیزی سے بڑھتی ہے، اسی تیزی سے کم بھی ہو جاتی ہے۔
دریائے سوات میں آنے والے سیلاب کی شدت اور نقصانات کا احساس شاید اس وجہ سے بھی نہیں ہو پا رہا کہ میڈیا پر سوات کے حوالے سے زیادہ تر گفتگو ناجائز تجاوزات اور ہوٹلوں کے گر جانے سے متعلق ہے، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علاقے میں دن بدن بڑھتی شدید غذائی قلت کے بحران کو مرکزی نکتہ بنایا جاتا۔
انٹرنیٹ کی عدم فراہم کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی گفتگو کا مرکز چارسدہ اور نوشہرہ کے اضلاع ہیں۔ شاید ان اضلاع تک رسائی آسان ہے اور ہماری روایتی سستی اور تن آسانی بھی ہمیں سوات کے ان علاقوں تک پہنچنے میں حائل ہو رہی ہے۔ مختلف فلاحی تنظیمیں بھی مدین، خوازہ خیلہ اور مٹہ کے ان علاقوں تک محدود ہیں جہاں تک گاڑی کے ذریعے رسائی ممکن ہے۔
سیاسی قیادت اور انتظامیہ کی سیلاب کے حوالے سے گفتگو اور اقدامات کا بغور جائزہ لیں تو عمومی تاثر یہ ہے کہ شاید کالام میں صرف ایک ہوٹل گرا ہے اور باقی سب نارمل ہے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے وادی کالام، مٹلتان اور اتروڑ میں غذائی قلت شدید تر ہوتی جارہی ہے۔
ایک ہیلی کاپٹر میں دو لاکھ کے قریب آبادی والے علاقے، جن تک زمینی راستے سے پہنچنا ممکن نہیں ان کے لیے غذائی اشیا پہنچانا ناممکن ہے۔ بدقسمتی سے سیلاب سے پورا ملک متاثر ہوا ہے اور کالام چونکہ پہاڑ کے پیچھے ہے تو شاید آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق وہاں کے مسائل بھی ہماری ترجیح میں نہیں رہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ