نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اور فاضل پور ڈوب گیا۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح وسیب میں بھی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیلاب سے مزید کئی بستیاں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ گزشتہ روز کے سیلاب میں سو افراد مزید ہلاک ہو گئے اور اس طرح سیلاب سے ملک بھر میں مرنے والوں کی تعداد 14 سو تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے دوران کہا ہے کہ متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے مگر ابھی تک تو یہ باتیں ہیںجبکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب بھی سیلاب کی صورت میں کوئی آفت آئے تو حکومت پہلے مرحلے میں جان بچانے کا کام سر انجام دیتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں متاثرین کی رہائش اور خوراک میں مدد اور تیسرا بحالی کا مرحلہ ہوتا ہے۔ حکومت پہلے دو مرحلے میں ناکام نظر آئی ہے۔ مشکل وقت میں متاثرین کو ہیلی کاپٹر مہیا نہیں ہو سکے اور کالام میں پانچ بھائی پانچ گھنٹے تک مدد کو پکارتے رہے یہ واقعہ دل دہلا دینے کیلئے کافی ہے۔ پرسوں تونسہ میں سیلاب متاثرین سے ملے اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ عجب بات یہ تھی کہ (ن) لیگ والوں کی طرف سے بڑے بڑے پینا فلیکس نظر آئے جن میں مریم نواز کو خوش آمدید کہا گیا تھا اور کل راجن پور کے سیلاب متاثرین سے ملنے گئے تو وہاں تونسہ سے بھی بڑے ہولڈنگ بورڈ نظر آئے جن میں مریم نواز کو خوش آمدید کہا گیا تھا۔ دکھ کی اس گھڑی میں استقبالی بینرز اپنی جگہ سوالیہ نشان ہونے کیساتھ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ پر آئیں تو انہوں نے بھی متاثرین کا صرف باتوں سے دل بہلایا اور کسی طرح کی مدد کا کوئی اعلان نہ کیا۔ سابق وزیرا عظم عمران خان نے دو گھنٹوں میں ساڑھے پانچ ارب سے زائد کا فنڈ اکٹھا کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ تقسیم میں تمام متاثرین کو یاد رکھتے ہیں ۔ جہانگیر ترین نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کیلئے ایک کروڑ روپے فنڈ کا اعلان کیا اُن کے اعلان پر تبصرے ہو رہے ہیںاگر اُن کو متاثرین سے ہمدردی تھی تو اس کا پہلا مستحق ان کا اپنا وسیب تھا۔ سیلاب سے راجن پور کا خوبصورت قصبہ فاضل پور پانی میں غرق ہوا اور بہت بڑا جانی و مالی و نقصان ہوا ہے۔ شہر میں اب بھی پانی موجود ہے مگر حکومت کی طرف سے امدادی کارروائیوں کا فقدان ہے البتہ انفرادی طور پر وہاں جا کر دیکھا کہ سرائیکی تنظیم ’’سوجھل دھرتی واس‘‘ کی طرف سے ایک خیمہ بستی آباد کی گئی ہے جہاں ہزاروں لوگ پناہ گزین ہیں۔ سوجھل دھرتی واس کے انجینئر شاہنواز خان مشوری اور عثمان کریم بھٹہ ایڈووکیٹ کی طرف سے ہزاروں افراد کے طعام و قیام کے انتظام کے ساتھ ساتھ مریضوں کے علاج کا بھی انتظام ہے۔ سینکڑوں سماجی ورکرز خدمت خلق میں مصروف نظر آئے۔ اس بستی میں شاہنواز گجر نامی نوجوان کا خیمہ بھی موجود تھا جس کا والد اکبر گجر اور ممانی صاحبہ سیلاب کی لہروں کی نذر ہو گئیں۔ ہم نے وہاں جا کر ان سے تعزیت کی اور وہ نوجوان جس کی عمر بمشکل چودہ پندرہ سال ہو گی، شدت غم سے پورا احوال بیان نہ کر سکا صرف اتنا کہا کہ ہمیں ابو نے ایک دن پہلے مویشی دے کر بھیج دیا تھا کہ تم چلو ہم آجائیں گے۔ جب شہر میں اچانک پانی داخل ہوا تو ہمارے گھر کے چھ افراد نے نکلنے کی کوشش کی مگر میرے ابو اور میری ممانی صاحبہ نہ نکل سکے اور تین چار دن بعد میتیں ملیں۔ ہم فرداً فرداً متاثرین کو پرسہ دے رہے تھے ۔ میرے ساتھ ڈیرہ غازیخان کی معروف سیاسی شخصیت سلیم ملک، سرائیکی رہنما صغیر احمدانی اور رضوان قلندری موجود تھے۔ ہم اپنے دوست ابرار خان دریشک اور خواجہ شاہد کے پاس اظہار ہمدردی کیلئے پہنچے اور ان سے سیلاب کا احوال پوچھا تو ابرار خان نے کہا کہ یہ حادثہ انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے پیش آیا۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو کیا بتائوں کہ جس دن سیلاب آیا قیامت کا منظر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فاضل پور شہر کی تاریخ میں کبھی سیلاب نہیں آیا تھا سب کو یقین تھا کہ اس مرتبہ بھی سیلاب شہر میں نہیں آئے گا مگر سیلاب آیا تو 1947ء کے واقعات یاد آگئے کہ کسی کو کسی کا علم نہ تھا، ہر طرف افراتفری تھی، چیخ و پکار تھی اور بچائو بچائو کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے انتظامیہ کی نا اہلی کی بات کی تو انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے دور میں اس علاقے کو ایک منصوبہ ملا جس کا مقصد رودکوہی کے سیلابی پانی کو دریا میں ڈالنا تھا۔ فاضل پور میں طیب ڈرین کا منصوبہ بنایا گیا ابتدائی طور پر اربوں روپے خرچ ہوئے مگر وہ منصوبہ مکمل نہ کیا گیا۔ جس کے باعث نقصان بہت زیادہ ہوا۔ ابرار خان نے کہا کہ ہم فاضل پور میں موجو د تھے ہم نے رودکوہی کے پانی کو آتے ہوئے ایسے دیکھا جیسے طوفان نوح آرہا ہو، سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور پھر تقریباً سات لاکھ کیوسک پانی میں فاضل پور ڈوب گیا۔ فاضل پور کے دورہ کے دوران ہم مہرے والا میں معروف سرائیکی شاعر اور سیاسی رہنما عاشق بزدار سے ملے اس موقع پر منور بزدار و دیگر موجود تھے۔ عاشق بزدار نے اس پر دکھ کا اظہار کیا کہ ہمارے سرائیکی ورکرز تو اپنی استعداد کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں شریک ہیں مگر وسیب کے سردار، تمندار، علماء و مشائخ کہاں ہیں؟ ابھی ہم فاضل پور ہی میں تھے کہ اطلاع ملی کہ حاجی پور کے بند ٹوٹنے سے بڑا شگاف بن گیا تھا مگر انتظامیہ نے کوئی کشتی وغیرہ مہیا نہ کی۔ لوگ رسی کی مدد سے راستہ عبور کرتے۔ ایک آدمی کا ہاتھ چھوٹا اور پانی میں ڈوب کر فوت ہو گیا۔ اسی علاقے میں دیوار گرنے سے ایک خاتون کے مرنے کے بارے میں بتایا گیا۔ لوگوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر راجن پور جمیل احمد جمیل کو عین اس وقت تبدیل کیا گیا جب وہ سیلاب سے بچائو کیلئے اقدامات کر رہے تھے۔ ان کا تبادلہ راجن پور کے سرداروں نے اس بناء پر کرایا کہ وہ ناجائز سفارش کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ موجودہ سیلاب میں وسیب کے کروڑوں غریب لوگ تباہ ہو چکے ہیں مگر خطے کے سرداروں اور بیورو کریسی کی لاٹری نکل آئی ہے۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author