امجد نذیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانی عزاب ہے کہ ثواب، فی الحال یہ سیلاب ہے ۔ اتنا بڑا سیلاب جو کسی دوصد سالہ عورت نے بھی اپنی آنکھوں سے نہ کبھ دیکھا ھو گا اور نہ کانوں سے سنا ہو گا – اطلا عات مطابق کچھ مُحتاط اندازے سلسلہ کوہ سیلیمان کی اوسط سالانہ آب رسانی سے حالیہ ہفتوں میں ہی کوئی 500 گُنا زیادہ بارشیں ہونا بتا رہے ہیں، غرقابی اُچھالوں سے ابھی تک تقریبا” 10 لاکھ لوگ براہ راست یا بالراست متاثرہ ہیں تقریبا” 300 دیہات بشمول مکانات تہہ و بالا ہو چکے ہیں اورہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے مال مویشی پانی کی موت مر چکے ہی ۔ مُلک بھر میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 650 تک جا پہنچی ہے جسمیں اموات کا ذیادہ خدشہ بلوچستان اور سرائیکی علاقوں میں ہی ہے ۔ صادق آباد میں ایک ہی کشتی الٹنے سے پچاس سے ذیادہ افراد (ذیادہ تر عورتیں اور بچے) دریا بُرد ہو گئے ہیں – افراء تفری کے اِس عالم میں فی الوقت نقصانات کا درست ترین اندازہ لگانا کافی مشکل ہے – لیکن متفرق رپورٹوں اور تصاویر سے بربادی کا سکییل دل دہلا دینے والا دِکھائی دیتا ہے – !
گزشتہ سے پیوستہ روز تونسہ بیراج سے کم بیش 5 لاکھ 57 ہزار، گڈو سے3 لاکھ 45 ہزار 700 ، سکھر بیراج سے3 لاکھ 44 ہزار کیوسک اور کوٹری سے 19 لاکھ 8 ہزار8 سو کیوسک پانی گزراء، جس نے گزشتہ برسوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ اِسوقت، وھووا، منگروٹھہ، مانکا، تونسہ شریف، وڈور، خان گڑھ سے لے کر فاضل پور، راجن پور، روجھان اور رحیم یارخان تک پچادھ اور دمان کے تمام کے تمام دیہی اور جزوی طور پر شہری علاقے، دریا اُنڈیلتے بادلوں اور اور کوہستان سلیمان کی پھینکی ہوئی جَل، چَھل اور اَجل کے عتاب میں گرفتار ہیں – ذیادہ تر علاقوں سے بجلی غائب ہے، لاوڈ سپیکر خاموش ہیں اور موبائل فون مُردہ ہو چکے ہیں ۔ اگلے دو تین روز میں مشرقی بلوچستان، جنوب مغربی سرائیکی ریجن اور شمالی سندھ میں ابھی مزید بارشوں اور نتیجتہ” مزید آفات کا خطرہ ہے ۔ تین چار ہفتوں سے یہ سلسلہ جاری ہونیکے باوجود این ڈی ایم اے، میونسپلٹی، پبلک ہیلتھ، اور محکمہ آبپاشی و آب رسانی کیطرف سے خاطر خواہ تیاری نہیں کی گئی اور تازہ ترین صورت حال بھی بے یقینی کے گرداب میں پھنس چکی ہے ۔
زیادہ دوُر کی بات نہیں ہے کہ روُد کوہی کے پانیوں سے نامیاتی اور غذا بخش فصلیں، سبزیاں، کماد، کپاس، چاول اور دالوں کی فصلیں وافر مقدار میں اُگا کِھلا کرتی تھیں ۔ کیونکہ روُد کوہی کا پانی معدنی اجزائ اور قدرتی ذرخیزی سے مالا مال ہوتا ہے ۔ سبزیوں اور اجناس کے علاوہ یہاں کھمبی کی ایک قسم وائٹ ٹرفل، جسے مقامی زبان میں بھوئیں ڈَٹا کہتے ہیں، عام اُگا کرتی تھی ۔ آج بھی یورپی دنیا میں یہ مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے ۔ لیکن اَب اسی روُد کوہی کی شرشراتی آوازیں جو کبھی کسانوں کی تسکین و مسرت کا باعث تھیں اب گڑ گڑاہٹ، خوف و ہراس اور "بچو بھاگو” کا استعارا بن چُکی ہے ۔ بشمول دوسری وجوہات کے اِسکے فِطری اور آبائی راستے مسدود کرنا بھی ایک بڑا سبب ہے "پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے” کے مصداق پھر لہریں گھروں، مکانوں، فصلوں اور باغات پر چڑھ نہیں آئینگی تو کہاں جا ئینگی؟
اَشد ضروری ہے کہ چاروں ضلعوں، یعنی ڈیرہ غازیخان، راجنپور، لیہ اور مظفر گڑھ کو آفت زدہ قرار دے کر ہنگاامی امداد شروع کیجائے ۔ مگر ہنگامی تعاون تو درکنار وہاں صوبائی حکومت اور پی ڈی ایم اے شاید نام کو بھی نظر نہیں آتے ۔ نام نہاد جنوبی پنجاب سیکرٹرئیٹ کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ ہی اختیارات ۔ جبکہ وہاں راشن، پینے کا پانی، ریلف کیمپ وغیرہ کی انتہائی ضرورت ہے ۔ سیاستدان اپنے بنگلوں میں دبکے بیٹھے ہیں یا ریاستی غلام گردشوں کے چکر لگا رہے ہیں ۔ فقط مقامی افراد، سماجی اور فلاحی تنظیمیں اور کچھ مخیر حضرات ممکنہ دوڑ دھوپ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر سندھ حکومت نے فی متاثرہ خاندان سات لاکھ روپوں اور بلوچستان نے پانچ لاکھ روپوں کا اعلان کیا ہے تو سرائیکی وسیب کے متاثرین کو 50،000 فی خاندان کی امداد کا اعلان کیوں؟ اور وہ بھی ملے نہ ملے ۔
مگر سچ یہ ہے کہ امداد اگر مل بھی جائے تویہ سیاست کاروں کے ووٹ آور کاروبار کا آلہِ کار بن چکی ہے – حالانکہ یہ پیسے انہی کے ٹیکسوں سے ادا کیا جاتا ہے ۔ حد یہ ہے موجودہ وزیر اعلی کیخلاف جب غفلت شعاری کے کارن ڈیرہ غازیخان میں لوگوں نے احتجاج کیا تو اُنکے خلاف مقدمات دراج کرا دیے گئے – وہاں تو جا دھمکے مگر صوبائی اسمبلی میں موصوف کو ڈوبتے تیرتے سرائیکی وسیب پر بات کرنیکی پیاس محسوس نہ ہوئی – جبکہ سابق وزیر اعلیٰ تصاویر کشی کیلئے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آجا رہے ہیں ۔ کُچھ شک نہیں کہ اقتدار کی چاپلوس ہوس سے تل وطنی، جاگیردار سیاستدانوں کی آنکھوں کا پانی عرصہ ہوا مرچکا ہے ۔ شاید یہ سب کچھ بدلنا سرائیکی خطے کے اپنے این ایف سی ایوارڈ، اپنے اِرساء مُعاہدے، اپنے ایس ڈی ایم اے اور سب سے بڑھ کر اپنے صوبے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور پھر میڈیا کا حال یہ ہے کہ انہیں نان ایشوز اور سکینڈلز کی خوش بیانیوں سے فرصت ملے تو وہ ایشوز کی طرف آئیں ۔ بس تین منٹ کی خبروں اور موسمی احوال کا یومیہ اِحسان جاری ہے ۔
ہولناک سیلاب زدگیوں کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلیمانی کوہ و دمن سے بہنے والی وہی رُود کوہیاں جو محض تین دہائیاں پہلے خوشحالی کی نوید ہوا کرتی تھیں یکایک سونامی اوصاف طوفانِ نوح کا باعث کیسے بن گئیں؟ وہی حیات بخش دریا، ندی نالے اور اورٹوبے ٹیلے جو کھیتوں کیلئے چاندی سونا تھے ۔ مُنہ کھولے اپنے ہی اربابِ کِشت و کُہن کو ہڑپ کرنے کے درپئے کیوں ہو گئے؟ یہ سب اگر اپنی منصوبہ سازیوں یا کج فہمیوں پر نظر ثانی کا اشارہ نہیں کرتے تو کوئی نسطُوردامُوس یا جمشید نوشیروان آکر ہمیں نہیں سمجھائے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے – نتیجتا” ہم ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور کثیر قومی کمپنیوں کی ڈالرائی آنکھوں سے ہی اپنے دریاوں، کھیت کھلیانوں اور بند بیراجوں اور ہیڈ ورکس کو دیکھتے اور اِستعمال کرتے رہیں گے اور پھر کسی غیر معمولی صورتِ حال میں ایک بار پھربھی، خدانخواستہ، یہی دیکھیں گے جو آج دیکھ رہے ہیں –
حقیقت یہ ہے کہ کچھی کینال، چشمہ رائٹ بینک کینال، اِنڈس ہائی وے، سیمنٹ فیکٹریاں، ذاتی اثاثے، رود کوہی کو راہ دیے بغیر ریلوے لائینیں، کرش مشینیں، ڈمپر، پہاڑ خوردگی، زمین بُردگی، بے ہنگم آباد کاری، غیر دانشمندانہ ترقیاتی سکیمیں، آباد کاری اور سب سے بڑھ کر رود کوہی کے قدرتی نظام کو شعوری یا لاشعوری طور پر سمجھے بغیر نہریں نکالنا ایسی سابقہ، موجودہ اور آئندہ آنے والی برساتی بربادیوں کا پیش خیمہ بنتے رہیں گے ۔ پانی کے راستے، موگے، کھالے، نالے اور نکاسیاں بند کرنے سے اگرپھیلتے اور سکڑتے ہوئے رود کوہی کے دریا بپھریں اور گَرجیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے ۔ زمینی حقائق سے بالا تر، لوکائی تجربے سے ماوراء اور فطری بہاؤ مُخالف ندیاں بنانا اور دستاویزی کاروائیاں زمین پرآکر فقط کاروائی ہی ثابت ہوتی ہیں ۔ بہت پانی پلوں کے نیچے سے اور اب اوپر سے بھی بہی چکا ہے ، اب بھی وقت ہے کہ ریاستی ادارے اپنا ترقیاتی ذہن اور زاویہ درست سمت میں رکھیں ۔ ناممکن العمل نہریں یا ہاتھیوں کی مانند چنگھاڑتے ہوئے پانیوں کو باندھنے کی بجائے سلیمانی دریاوں کے لئے راستے ہموار کریں اور منصفانہ طریقے سے پانی تقسیم کریں تاکہ لوگوں کیلئے وہ زحمت کی بجائے رحمت کی موج بن سکیں – جیسا کہ ماضی میں تھا ۔
مثال کے طور پر سنگھڑ، وھووا، وڈور اور مِٹھاوں جیسی تاریخی اور طُوفانی رودکوہیوں کے کیچمنٹ ایریاز کی پرواہ کئے بغیر چشمہ کینال یا فیکٹریاں، بلڈنگیں اور مکانات بنا کر واٹر ویز کو روکنا یا کسی ایک ڈرین میں لا ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے ۔ دو دہائیاں قبل جب چشمہ رائٹ بینک کینال بنائی گئی تو اِسکی منصوبہ سازی اور پیش بینی دونوں میں ٹیکنیکل مسائل تھے ۔ رود کوہیوں کے لئے جو کراس ویز، سُپر پاس اور اَنڈر پاس بنائے گئے وہ یا تو بہت تنگ تھے، یا بہت اونچے یا پھر ایسے مقامات پر جہاں رود کوہی عرصہ ہوا اپنا راستہ بدل گئی تھی – پھر یہی غلطی یا دانستا” انجمن باہمی افادہ گیری یعنی واپڈا بیوروکریسی اور حکومت پنجاب نے کچھی کینال میں دُہرایا ۔ چشمہ رائٹ بینک کینال تو کسی حد تک تونسہ سے بالائی شمالی علاقہ جات کی زراعت اور مال مویشی کیلئے سود مَند تھی مگر کچھی کینال کے ہیڈ ورکس اپنے آغاز اور افتتاح سے پہلے ہی مٹی کے تودوں سے بھر چکے ہیں ۔ تونسہ بیراج سے شروع ہو کر 500 کلو میٹر کی طویل مسافت کے بعد یہ نہر کسطرح بلوچستان کو فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ ہیڈ ورکس اور دامن میں بندش کی حد تک سِلٹیشن عام فہم بات تھی مگر واپڈا کو سمجھ نہ آئی ” بلکہ شاید آئی ہی تو تھی کیونکہ مقصد عوامی فائدہ تھا ہی نہیں بلکہ مال کھانا ہی تھا ” – 30 ارب کی خطیر رقم سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ 100 ارب روپوں کے تخمینے تک پہنچ چکا ہے پھر بھی اِسمیں صرف 400 ۔ 500 کیوسک سے زیادہ پانی گزرنے کے امکانات نہیں ہیں – اور اِس چُلو بھر پانی سے کتنے ہزار ایکڑ زمیں سیراب ہو گی؟ لیکن فی الحال درج بالا دونوں منصوبوں نے بارشوں اور رود کوہیوں سے ساز باز کرکے تمام دمانی شہروں کو کھڑے اور بہتے پانی میں ڈبو دیا ہے –
مراد یہ ہے کہ تونسہ شریف سے لے کر روجھاں تک گویا 300 ۔ 350 کلو میٹر کی ایک سے زیادہ دیواریں (جنہیں بند، نہروں، صنعتوں اور سڑکوں کا نام دیا جا تا ہے) کوہ سلیمان اور رود کوہی کے راستے میں کھڑی کر دی گئ ہیں ۔ مٹی کی دیواریں چاہے جتنی بھی اونچی اور مضبوط ہوں پانی کے منہ زور بھوت اُسے پلک جھپکتے میں زمین پر پٹخ سکتے ہیں اور مقامی خدشات کے مُطابق پچھلے ہفتے ایسا ہی ہوا ہے – سب سے بڑھ کر یہ کہ رود کوہی منوں ٹنوں مٹی اور پتھروں کے بہاو، لگاؤ اور کٹاؤ کیوجہ سے اپنا راستہ ہر آنے والے سیلاب میں بناتی بلدلتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے – درج بالا میکانزم کو سمجھے بغیر کینال بندی کو اگر احمقانہ انجنیرنگ نہ کہا جائے تو اور کونسا نام دیا جائے ۔ جبیں بوس پانی اگر نہروں، سڑکوں، عمارتوں، پٹڑیوں، بندوں اور پشتوں کو پھلانگ کر بھی دریا سے بغل گیرنہ ہو سکے ۔ جو اسکا آبائی راستہ ہے تو وہ بستیوں قصبوں میں جل تَھل ایک نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا ؟ دراٰیں اثنا سیلاب کو آفاقی کم اور ماہرین ساختہ زیادہ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا –
ٹاون پلاننگ اور ریگولیشن نام کو نہیں ہے ۔ جہاں دل چاہے، جس راہ اور جس سطح پر دل چاہے ایک انگریزی نام سوچ کر ماڈل کالونی بنا ڈالئے ۔ آخر قدرتی بہاؤ موافق چھوٹے آبی ذخیرے کیوں نہیں بنائے جاتے جنکا بندوبست اور صفائی دونوں آسان ہیں اور اگر کوئی سوال اٹھائے تو وہ ترقی دشمن قرار دیا جاتا ہے؟ لازمی ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ تشکیل دیتے سمے کوہ سلیمان کے قدموں اور دَمان کی وادویوں کا فاصلہ مدِ نظر رکھا جانا چاہیے کیونکہ رود کوہیوں کی قوت اور رفتار سامنے بیس تیس میل کا فاصلہ چند ساعتوں سے ذیادہ نہیں ہے ۔ دراصل کم علمی کم اور ریاستی بیوروکریسی، کمشن مافیاء، کرپشن اور ڈیسکان، نیسپاک، اور ایف ڈبلیو او جیسے اداروں کے منافع بخش کِک بَیکس پراجیکٹس کا عمل دخل ذیادہ ہے ۔ اور یہ جو دوبارا رود کوہی پر ڈیم وَیم کی باتیں ہو رہی ہیں یہ ایک بار پھر اُسی میگا انجنیؑرنگ کا ماڈل ہے جسکا اُتھل پُتھل ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا ڈیم رود کوہی کے ایک مَٹ اور ہزاروں من سَنگریز دھارے کی مار ہے اور پھر تباہ کاریاں پہلے سے بھی کئی چند ۔ اگر خلوصِ نیت ہے تو پانی کی پسپائی کے بعد پہلا کام رود کوہیوں کے اسلافی راستوں کی بحالی اور تعمییر ہونا چاہئے – اگر ایسا نہ ہوا تو کچھ ہی سالوں بعد کوئی اور دَل بادل ایک بار پھر پانی کے گُرز لے کر معصوم لوگوں پر آن حملہ آور ہو گا ۔
بلا شبہ کچھ اسباب موسمی تغیرات کے بھی ہیں کیونکہ 1976 میں سنگھڑ رود کوہی میں 125،000 کیوسک پانی بڑا سیلاب تصور کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ ہفتے لگ بھگ 150،000 کیوسک پانی سنگھڑ سے گزرا ۔ اِسی طرح وھووا رود کوہی میں 1977 میں 90000 کیوسک پانی کا ریلا بڑا سیلاب سمجھا گیا تھا جبکہ حال ہی میں 260،000 کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے ۔ روائتی طور پر ماہرینِ موسمیات سپر فلڈ کا دورانیہ چالیس سے پچاس سال تک رکھتے ہیں ۔ تازہ ریکارڈز کے مطابق اِسکا دورانیہ گھٹ رہا ہے اور برسات کی مقدار بڑھ رہی ہے ۔ جو موسماتی تغیر کا اشاریہ ہے ۔ ایسا نہ بھی ہو تب بھی انفرائ سٹرکچر کا انسان دوست اور ماحول دوست ہونا از حد ضروری ہے –
بہر حال ثابت یہ ہوتا ہے کہ اس نوعیت کا حادثہ جسقدر بھی آسمانی دکھائی دے ایسی مہا تباہ کاریوں کے اسباب انفراء سٹرکچر کی عدم دستیابی یا غلط تعمیر، غلط منصوبہ سازی، بروقت اطلاعات کی عم فراہمی، فوری امداد اور انخلاء سے غفلت وغیرہ میں چُھپے ہوئے ہوتے ہیں ۔ علاوہ اسکے مُقامی اور غیر مقامی جاگیر دار اور سرمایہ کار سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کا استحصالی، عوام مخالف اور فریبانہ رویہ بھی شامل ہوتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خُشک سالہ، اَکال نگری اور جنگلات سے خالی کوہ سلیمان کے دامن میں غیر معمولی بارشیں، غیر معمولی ہریالی اور غیرمعمولی پیداوار اور خوشحالی کا باعث بنتیں مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کیونکہ اَبکی بار برسات میں خداوندِ کریم کا کم اور اپنے آدمیوں کا ہاتھ زیادہ رہا ہے ۔ مگری یہ پوتھی کون کھولے؟ حُکمران ایک دوسرے کو غدار اور فنکار ثابت کرنے، یومیہ تقریر مداریوں اور کسی گامے گوگی کے آنے نہ آنے کی بحث سے فارغ ہونگے تو سیلاب میں ڈوبتے ہُمکتے مکانوں اور انسانوں کی طرف نگاہ کریں گے –
۔ اوپر سے سیلاب ہو یا زلزلہ اللہ کے عزاب کی عجیب و غریب گردان شروع ہو جاتی ہے ۔ کوئی پوچھنے والا ہے کہ مفلوک الحال مخلوق، معصوم بچوں، عورتوں، مال مویشی اور چرند پرند نے کونسے ایسے کبیرہ گناہ کئے ہوتے ہیں کہ صرف اُن پر ہی اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے مگر اشرافیہ کے بنگلوں، کوٹھیوں، پلازوں اور لاجز پر رحمتیں برستی رہتی ہیں ۔ دراصل یہ بھی سیاسی اشرافیہ کا پھیلایا ہو پراپیگنڈا ہی ہوتا ہے تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے، کوئی اُنکو ذمہ دار نہ ٹھہرائے ۔
***
ںوٹ : راقم الحروف اس مضون میں سوشل میڈیا پر فراہم کردہ معلومات اور تصاویر کیلئے اپنے دوستوں مشتاق گاڈی، انجینیر مرتضٰی حسن، حیدر جاوید سید، ذلفقار لنڈ، فضل لنڈ، سندھو واس، احسن واگھا، میاں زبیر احمد، شہزاد لغاری، آصف احمدانی، اشو لال، محترمہ شازیہ عابد اور بہت سے دوسرے دوستوں کا مشکور ہے –
***
اے وی پڑھو:
تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر
چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر
گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر
گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر
سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر