اور پھر جب سیلاب کے پانی میں ایک چٹان پر کھڑے پانچ جوانوں کو پہلے کسی بچانے والے کا انتظار کرتے اور پھر پانی میں بہہ جاتے دیکھا تو ہم اپنے ہی سیاستدانوں پر برس پڑے کہ بس اب سیاست بند کرو اور سیلاب زدگان کی مدد کرو۔
محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک ایک چٹان پر کھڑے پانچ جوان ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے ڈوب نہیں گئے، جب تک ان کی ویڈیو بن کر ہمارے واٹس ایپ گروپ میں نہیں آئی ہم ذرا مصروف تھے۔
سیلاب چل پڑا تھا، لوگ مر رہے تھے، گھر تباہ ہو رہے تھے، مویشیوں کی لاشیں سڑکوں کنارے پڑی تھیں، سامان کی گھٹڑیاں سر پر لادے قافلے چل پڑے تھے، تیار فصلیں ڈوب چکی تھیں، پورے سال کے لیے ذخیرہ کیے گئے دانے پانی میں بہہ گئے تھے۔
سوکھے دریا، وہ دریا جن کے ہم نام بھی بھول چکے تھے، اپنے پرانے راستے سونگھتے ہوئے واپس آ رہے تھے اور دریا کے راستوں میں بنی آبادیاں ملیا میٹ کر رہے تھے۔
موسموں پر نظر رکھنے والے بتا رہے تھے کہ کراچی کی بارش طویل ہے اور تکلیف دہ بھی لیکن کراچی سے آگے بھی پاکستان ہے اور بہت بڑا ہے۔
پہاڑوں کی بارشوں سے جو سیلاب کے ریلے نکلے ہیں ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، سڑکیں ہیں، پل ہیں، کچے پکے گھر ہیں، کہیں پوری آبادیاں ہیں۔
یہ تباہی چپکے سے نہیں آئی، سب نشانیاں موجود تھیں لیکن ہم ذرا مصروف تھے۔
صرف عسکری ادارے ہی نہیں، صرف سیاستدان ہی نہیں، پولیس اور عدالتیں ہی نہیں، خبریں بیچنے والے اور انھیں خریدنے والے ہم سب مصروف تھے۔ ہم سب یہ جاننے کی کوشش میں تھے کہ شہباز گل کے کپڑے اتارے گئے یا نہیں، اس پر تشدد ہوا یا نہیں۔
میں نے شاید زندگی بھر ٹیلی ویژن پر اتنی دفعہ لفظ جنسی تشدد نہیں سنا جتنا سیلاب کے پہلے دنوں میں سنا۔
،تصویر کا ذریعہ RE
ہوا یا نہیں ہوا، کیسے ہوا، کس نے کیا، ثبوت دکھاؤ، میڈیکل چیک اپ کیوں نہیں کروایا، شرم ریاست کو آنی چاہیے یا شہباز گل کو، کسی پر بغاوت کا الزام لگاؤ (ہمیں تو باغی بھی ٹھیک نہیں ملے) اور وہ آگے سے جنسی تشدد کا الزام لگائے تو یہ ایک ہولناک خبر ہے جس کی ہیڈ لائن یقیناً بنتی ہے، لعن طعن بھی، بحث بھی۔
ہمارے دین میں بھی ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اسی طرح ایک شخص پر تشدد تمام شہریوں پر تشدد کے مترادف ہے۔ لیکن کون سے دین میں یہ لکھا ہے کہ ایک طرف طوفان نوح کی سی کیفیت ہو، انسانیت ڈوب رہی ہو، لوگ غراتے پانیوں میں اپنے بچے کھینچ کر نکالنے کی کوشش کر رہے ہوں اور ملک کے تمام پڑھے لکھے لوگ اس بحث میں مصروف ہوں کہ آج شہباز گل نے ناشتہ میں کیا کھایا۔
اور پھر جب سیلاب کے پانی میں ایک چٹان پر کھڑے پانچ جوانوں کو پہلے کسی بچانے والے کا انتظار کرتے اور پھر پانی میں بہہ جاتے دیکھا تو ہم اپنے ہی سیاستدانوں پر برس پڑے کہ بس اب سیاست بند کرو اور سیلاب زدگان کی مدد کرو۔
سیلاب زدگان کی مدد سے بڑا سیاسی کام اس وقت کوئی اور ہو نہیں سکتا تو سیاستدانوں سے کہنا چاہیے کہ بھائیو جم کے سیاست کرو، ہیٹ پہنو، لمبے بوٹ پہنو، کالے چشمے آنکھوں پر لگاؤ، غریب بچوں کے ساتھ فوٹو کھنچواؤ، ہیلی کاپٹر پر چکر لگاؤ، راشن کے ٹرک میں کھڑے ہو کر راشن کے تھیلے بانٹو اور پھر فوٹو کھنچواؤ جہاں سے پچھلے الیکشن میں ووٹ نہیں پڑے تھے ادھر بھی خیمے پہنچاؤ، خلقت کو اللہ کے عذاب سے مت ڈراؤ، وہ بھگت رہے ہیں خود اس خلقت کے عذاب سے ڈرو کہ تمھیں نہ بھگتنا پڑ جائے۔
سیاستدانوں کو، حکمرانوں کو جتنے طعنے دینے ہیں دے لو لیکن اردگرد نظر دوڑاؤ اس قیامت کے منظرنامے میں سب سے پہلے غائب ہونے والے ہمارے سیٹھ اور وہ کارپوریشنیں ہیں جو پاکستان سے صرف مال بنانا جانتے ہیں۔
کہاں ہیں وہ کمپنیاں جو ہمیں ہماری زمین سے پانی نکال کر بوتلوں میں بھر کر بیچتے ہیں، پھر سال کے سال کچھ گانے سنوا کر اور مشروب بیچتے ہیں۔
کہاں ہیں مٹی کو سونا بنانے والی کھادیں بیچنے والے، ہر غریب کی جیب میں ہاتھ ڈال کر آخری دس روپے نکالنے والی موبائل فون کمپنیاں، کدھر ہیں کاٹن کے ایکسپوٹر جو ہر تیسرے مہینے لاکھوں روپے کے اشتہار لگا کر کہتے ہیں ہم لٹ گئے، کدھر گئے وہ ہر حکومت کے لاڈلے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے والے جنھوں نے دریاؤں کے کنارے، سیلابی نالوں کے عین بیچ پلاٹ کاٹ دیے ہیں۔
اور کہاں ہیں ملک ریاض کے وہ جہاز جو ہر حکمران، ہر اپوزیشن لیڈر کی سواری کے لیے تیار رہتے ہیں۔ لیکن قدرتی آفت کے آتے ہی گراؤنڈ ہو جاتے ہیں۔
اگر ان سیٹھوں کے دل اتنے ہی کٹھور رہے تو ایک دن ان کی بادشاہتیں بھی سوات کے ہنی مون ہوٹل کی طرح منٹوں میں منہدم ہو جائیں گی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
About The Author Continue Reading
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر