نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیلاب پر سیاست||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے ڈی جی خان کا دورہ کیا مگر مقامی نمائندے ان کو صحیح معنوں میں بریف نہ کر سکے ۔ چودھری پرویز الٰہی نے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک سے ملاقات کے دوران کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے تمام اداروں کو متحرک کر دیا ہے ۔ (ن) لیگ سیلاب پر سیاست کر رہی ہے ۔ چودھری پرویز الٰہی کا یہ کہنا درست ہے کہ سیلاب پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ وسیب میں متاثرین کی تعداد کروڑوں میں ہے ، کھربوں کا نقصان ہو چکا ہے ، متاثرین کی رہائش ،خوراک بڑے مسائل ہیں کہ متاثرین کے گھروں کے ساتھ گھر کا اسباب بھی سیلاب کی نذر ہو گیا ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریوں نے سر اُٹھا لیا ہے ۔ سیلاب سے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی ہلاک ہوئے اور جو جانور بچ گئے ان کیلئے چارہ تک میسر نہیں ۔ ان مسائل پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ سندھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سیلاب اور بارشوں سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 903سے تجاوز کر گئی ہے۔ گزشتہ روز کے سیلاب میں مزید سینکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔ دریائے سندھ اور چناب میں طغیانی آ گئی ہے ۔ سندھ حکومت نے نواب شاہ ائیرپورٹ بند کر دیا ہے ۔ متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف قطر گئے اور قطر نے پاکستان میں 3ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے ۔ اس اعلان کا تعلق معیشت کی بہتری سے تو ہو سکتا ہے جبکہ سیلاب متاثرین کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ 2010ء کے سیلاب میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سیلاب زدہ علاقوں کا خود دورہ کرنے کے ساتھ ایک اچھا کام یہ کیا کہ غیر ملکی سفیروں کو بھی سیلاب زدہ علاقوں میں لے آئے جس سے سیلاب متاثرین کو غیر ملکی امداد بھی حاصل ہوئی ۔ موجودہ سیلاب میں اس طرح کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ سیلاب زدہ علاقوں میں صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیں،وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزارت صحت اور عالمی ادارہ صحت کی طرف سے سندھ بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں طبی سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ۔ اس میں سرائیکی علاقے کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ پٹیل صاحب کو فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے سرائیکی وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کو بھی طبی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں ۔ سیلاب پر مسلسل لکھ رہا ہوں اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ (ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز کو سیلاب متاثرین یاد آئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بہت جلد سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں گی ۔ عمران خان بھولے ہوئے ۔ تاہم انہوں نے ہزارہ کے جلسہ میں ڈیرہ غازی خان ، راجن پور ، ڈی آئی خان اور ٹانک کا نام لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعلیٰ پختونخواہ کو ہدایت کہ کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔عمران خان کو خود وہاں موجود ہونا چاہیئے تھاکہ مذکورہ تمام علاقوں سے پی ٹی آئی بھر پور اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے ۔ وسیب کے لوگوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ پی ٹی آئی رہنما وزیرستان تو چلے جاتے ہیں مگر وسیب میں نہیں آتے ۔ مولانا فضل الرحمن بھی ڈی آئی خان ، ٹانک کے سیلاب متاثرین کے پاس نہیں پہنچے حالانکہ یہ ان کے حلقے ہیں۔ پہلی مرتبہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کی بے حسی واضح طور پر دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ وسیب کے بڑے بڑے سیاسی برج سیلاب متاثرین کو سہارا دینے کی بجائے ایک دوسرے کو گرانے پر لگے ہوئے ہیں ۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جاگیر دار ہمیشہ غریب کے ووٹوں سے برسر اقتدار ہوتے آرہے ہیں ۔ ان کی جاگیرداریاں اور تمنداریاں غریبوں کے بل بوتے پر ہیں ۔مگر آج تک کسی جاگیردار یا کسی تمندار نے اپنی جیب سے نہ تو کوئی ہسپتال بنوایا اور نہ ہی کوئی تعلیمی ادارہ ۔ حالانکہ لاہور میں گنگا رام ہسپتال ، گلاب دیوی ہسپتال ، دیال سنگھ کالج و دیگر ادارے ماڈل کے طور پر موجود ہیں ۔ہسپتال یا کالج بنانے کی توفیق تو اپنی جگہ رہی مگر دکھ اس بات کا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی کوئی حاتم سامنے نہیں آیا ۔ وسیب کے سب جاگیردار ، تمندار قارون اور فرعون بنے ہوئے ہیں ۔ ہم نے سینٹ ، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر دیکھا کہ خزانوں کے منہ کھل گئے تھے ۔ سیاستدان اربوں ، کھربوں روپے ارکان اسمبلی کی خریداری پر لٹا رہے تھے مگر کیا مجال کہ وہ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے کچھ خرچ کریں۔ حالانکہ یہ لوگ اتنے جاہل بھی نہیں ، ان کو پتہ ہے کہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے ، انسان خالی آیا تھا اور خالی ہاتھ چلا جائے گااگر کوئی چیز کام آئے گی تو وہ انسانیت کی خدمت اور اس کی نیکی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سیلاب متاثرین کیلئے سب سے بڑا مسئلہ آٹا اور خوراک ہے ۔ وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں میں گوداموں میں رکھی گئی گندم خراب ہوئی ہے ۔ البتہ ڈی جی خان ڈویژن کے جن علاقوں میں سیلاب نہیں آیا وہاں سے گندم ملتان و دیگر علاقوں کو منتقل کی جا رہی ہے ۔گندم کی منتقلی اور دوبارہ واپسی پر بھاری اخراجات آئیں گے ۔ یہی گندم سیلاب متاثرین کو ملنی چاہئے اور وسیب کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کے متاثرین کو بھی پنجاب حکومت گندم دے دے تو اس کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔ ایک طرف سیلاب ہے دوسری طرف مہنگائی ۔ ڈالر پھر اوپر جا رہا ہے اور بجلی کے نرخوں میں خوفناک اضافے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ 10روپے فی یونٹ اضافے کی سمری تیار کر لی گئی ہے ۔ ریلوے کا سٹرکچر تباہ ہو چکا ہے ۔ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سندھ بلوچستان کا زمینی رابطہ منقطع ہے ۔غربت اور بے روزگاری عام ہو چکی ہے۔حکومت غریبوں کے ٹیکسوں سے یوٹیلٹی سٹور کو سستا آٹا اور گھی مہیا کر رہی ہے مگر یوٹیلٹی سٹوروں پر غریب صبح سے شام تک لائنوں میں لگ کر کائونٹر تک پہنچا ہے تو ان کو یہ کہہ کر واپس کر دیا جاتا ہے کہ 5ہزار کی خریداری کرو گے تو سستا آٹا ملے گایہ غریب کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author