محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیشتر پاکستانی فیملیز کی طرح ہمارے ہاں بھی ملا جلا سیاسی رجحان پایا جاتا ہے۔ میرے بڑے بھائی زبردست قسم کی ن لیگی ہیں اور خود کو فخریہ پٹواری کہتے ہیں کہ یہ تو اچھی خاصی اہمیت والی ملازمت ہے۔ ان کی اہلیہ اور ہماری بڑی بھابھی اس کے برعکس عمران خان کی زبردست حامی ہیں۔ مشکل ان کی اکلوتی صاحبزادی کے لئے ہے، اپنے بلند آہنگ اور شعلہ بار آنکھوں والے والد کے سامنے وہ ن لیگ کی طرف جھکائو ظاہر کرتی ہیں تو عدم موجودگی میں تحریک انصاف کے لئے لچک پیدا ہوجاتی ہے۔اس کی ایک وجہ شائد یہ بھی کہ آج کل بچیاں زیادہ تر غیر سیاسی ہی ہوتی ہیں اور گرما گرم سیاسی مباحث میں الجھنا انہیں پسند نہیں ہوتا۔ ہمارے گھر میں دلچسپ صورتحال ہے، میری پھوپھو(بے بے) جو ہمارے ساتھ رہتی ہیں، وہ نواز شریف کی پرجوش مداح ہیں اور کبھی مایوس ہوں تب وہ تمام سیاستدانوں کو لپیٹ میں لے کر صلواتیں سناتی ہیں، صرف آل شریف پر حملہ کرنا انہیں کبھی گوارا نہیں۔ میری یہ عادت ہے کہ بچوں میں اپنے سیاسی رجحانات یا پسند ناپسند کبھی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ سوال اٹھائیں اور خود سوچیں اور پھر اپنی آزادانہ رائے قائم کریں۔بڑے دونوں بیٹے کالج میں جا رہے ہیں ، اس لئے وہ مہنگائی سے بھی متاثر ہوتے اور قیمتیں بڑھنے، کم ہونے سے اپنی سیاسی رائے بناتے ہیں، کبھی عمران خان کے مخالف تو کبھی شہباز شریف کے ناقد بن جاتے ہیں۔ چھوٹا بیٹا جس کی عمر نو سال ہے، وہ البتہ عمران خان کا پرجوش مداح ہے اور خان صاحب کی تقریریں سننا پسند کرتا ہے۔ شائد اس نے ماں کا اثر زیادہ قبول کیا ، جو بڑی دلچسپی سے وہ چینلز دیکھنا پسند کرتی ہیں جو آج کل کیبل پر نہیں آ رہے۔ خاندان میں کئی عزیز ن لیگ کے حامی اور بعض تحریک انصاف کے سپورٹر ہیں۔ آج کل تقسیم ایسی ہوئی ہے کہ اکثر کزنز کی اپنی رائے کچھ اور جبکہ ان کی نوجوان اولاد عمران خان کے جلسوں میں پہنچ جاتی ہے۔ خیر یہ تو چلتا رہتا ہے۔ آج کل میں نے محسوس کیا کہ تحریک انصاف کے حامی رشتے دار بھی عمران خان کے رویے سے قدرے مایوس ، خفا اور دلبرداشتہ نظر آ رہے ہیں۔ تونسہ، ڈی جی خان، راجن پور، فاضل پور وغیرہ میں جو خوفناک تباہی سیلابی ریلوں نے مچائی ، اس کی تفصیل سوشل میڈیا سے جان کر ہر کوئی دکھی اور افسردہ ہے۔ پوری پوری بستیاں تباہ ہوگئیں، کچے مکانات نے تو خیر بہہ ہی جانا تھا، پکے مکانات بھی مسمار ہوگئے ۔ اس کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ لوگ دیکھتے اور ان کے دل بجھ جاتے ہیں۔ فنڈ ریزنگ کی مختلف کمپین چل رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی لوگوں کو مگر یہ سمجھ نہیں آرہی کہ عمران خان کیوں بنی گالہ میں نچنت بیٹھے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کیوں نہیں نکل رہے ؟ گزشتہ روز صبح ایک عزیزہ سے بات ہوئیں۔ وہ عمران خان کی زبردست حامی ہیں، پی ڈی ایم خاص کر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی شدید مخالف۔ یوں سمجھ لیں کہ عمران خان کو سیاسی نجات دہندہ کے طور پر دیکھتی اور پچھلے دس برسوں سے اس کی وکالت کرتی آئی ہیں۔ وہ خاصی دلبرداشتہ اور خفا تھیں۔ کہنے لگیں سوشل میڈیا پر سیلاب کی تباہ کاری کی تصاویر، فوٹیج دیکھے نہیں جاتے۔کہنے لگیں جنوبی پنجاب تباہ ہو چکا ہے۔ عمران خان وہاں کیوں نہیں جا رہے؟ عزیزہ کے مطابق عمران خان جیسے شخص کو سیلاب کی تباہ کاری پر بھرپور انداز میں فنڈریزنگ کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے ان کی ایک ساکھ اور اعتماد ہے۔ وہ اگر اکائونٹ بتا کر اپیل کریں تو اوورسیز پاکستانی بھی اربوں روپے بھیج دیں گے۔خان صاحب اپنے کارکنوں کو سیلاب زدہ علاقوں میں بھیجتے، خود وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ساتھ لیتے اور تونسہ، ڈی جی خان، راجن پور وغیرہ کا وزٹ کرتے۔ شدید مایوسی، خفگی اور برہمی سے وہ کہنے لگی،’’ ہمیں آل شریف اور آل زرداری سے کوئی امید اور توقع نہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی آنیاں جانیاں بطور وزیراعلیٰ بہت بار دیکھ چکے، ان کے لانگ بوٹ کی ڈرامائی کارکردگی بھی۔ عمران خان سے البتہ ہمیں توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔یقین نہیں آ رہا کہ عمران خان تو اس طرف معمولی سی توجہ بھی نہیں دے رہا۔ اس کا تمام تر زور شہباز گل اور حکومت کے خلاف جنگ لڑنے میں ہے۔ کیا خان کو علم نہیں کہ جنوبی پنجاب نے ابھی چند ہفتے قبل اس کے حق میں بھرپور مینڈیٹ دیا۔ اگر خان صاحب کے دل میں انسانیت کا درد نہیں جاگ رہا تو کم از کم اپنے ووٹ بینک کا ہی خیال رکھ لیں۔ ‘‘ میں نے اپنی عزیزہ سے وعدہ کیا کہ خان صاحب تک تو یہ بات نہیں پہنچا سکتا، مگر اس پرلکھوں گا ضرور،ممکن ہے پی ٹی آئی کے کارکن ہی اپنے لیڈر تک یہ بات پہنچا دیں۔ بعض اوقات لکھنے والے کسی فرضی کردار کو تخلیق کر کے اس حوالے سے لکھ دیتے ہیں، مگر یہ مکالمہ حقیقی ہے۔ جب اس پر فیس بک پوسٹ کی تو بے شمار انصافین افراد کے کمنٹس آئے، وہ بھی خان صاحب کی بے نیازی اور سردمہری پر دکھی تھے۔ مجھے اندازہ ہے کہ عمران خان اس وقت بڑی سیاسی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ حکومت نے شہباز گِل پر وار کر دراصل عمران خان کو ضرب لگائی ہے۔ خان صاحب کی یہ مجبوری ہے کہ وہ شہباز گِل کے ساتھ کھڑے ہوں اور استقامت دکھائیں۔ اس کے باوجود عمران خان کو یہ سوچنا چاہیے کہ سیلاب نے بہت زیادہ تباہ مچائی ہے۔ پنجاب کے کئی اضلاع بری طرح ہٹ ہوئے ہیں، پنجاب میں تحریک انصاف کی چار برسوں سے حکومت ہے، حمزہ شریف نے تو بمشکل دو تین ماہ ہی حکومت کی ، وہ بھی لولی لنگڑی۔ آج بھی پنجاب میں تحریک انصاف اور ق لیگ کی اتحادی حکومت ہے۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پہنچنا عمران خان کی بنیادی انسانی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے۔ یہ ان کے ووٹرز ہیں۔ تونسہ ، راجن پور، ڈی جی خان سے اراکین اسمبلی کی نوے فیصد تعداد تحریک انصاف کی ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل ڈی جی خان سے عمران خان کے امیدوار کو ووٹروں نے تیس ہزار ووٹ کے مارجن سے جتوایا۔ کیا اپنے ووٹروں، اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہ سلوک انہیں روا ہے ؟ویسے ایک سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ عمران خان کا انتخاب عثمان بزدار جس کا وہ علاقہ ہے، وہ کہاں غائب ہیں ؟ویسے اس کا جواب بھی عمران خان پر قرض ہے کہ بزدارکو وہی لائے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ اگر عمران خان اپنے کارکنوں کو لے کر جنوبی پنجاب کی طرف جانا چاہیں تو انہیں اسلام آباد پولیس روک سکے گی یا روکنا چاہے گی۔ عمران خان اگر ایک ویڈیو بیان جاری کریں، جس میں وہ کہیں کہ اپنی تمام سرگرمیوں اور سیاسی لڑائی کو وہ ایک ماہ کے لئے معطل کر کے اپنی پوری توانائی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں ، تو اس بیان کو بے پناہ پزیرائی ملے گی۔ خان صاحب تونسہ، راجن پور، ڈی جی خان کیمپ بنا کر بیٹھ جائیں، اپنے کارکنوں کو اکھٹا کریں، امدادی کام کی ترتیب بنائیں۔ وہ اگر وہاں پہنچیں گے تو تحریک انصاف کی پوری قیادت ساتھ ہوگی، وہ مختلف رہنمائوں کو ایک ایک تحصیل کی ذمہ داری دیں۔امدادی سامان، راشن کی اپیل کریں تو یقینی طور پر تین چار دنوں میں سامان کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ تحریک انصاف کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ سینکڑوں، ہزاروں دیگیں روزانہ پکوا کر متاثرین میں بانٹ سکے۔ احساس پروگرام کا تجربہ رکھنے والی محترمہ ثانیہ نشتر صاحبہ کو ذمہ داری سونپی جائے۔ ایک منظم انداز میں متاثرین کی تفصیل رجسٹرڈ کر کے انہیں مدد دی جا سکتی ہے۔ جن کے گھر تباہ ہوگئے، ان کے لئے مدد مانگی جائے ، بیرون ملک پاکستانی اپنا دل کھول دیں گے۔ انہیں صرف کسی قابل اعتماد شخص کی ضرورت ہے جو فنڈز احتیاط اور ایمان داری کے ساتھ خرچ کر سکے۔ عمران خان میں یہ تمام ہنر اور اس کا وسیع تجربہ موجود ہے۔ اگر خان صاحب کی مصلحت کی وجہ سے خود نہیں جا سکتے تو کم از کم اس پر بنی گالہ میں ایک مشاورتی اجلاس بلائیں۔ وہ سیاسی امور پر ایسے کئی اجلاس پچھلے چند دنوں میں کر چکے ہیں۔ اس اجلاس میں لائحہ عمل طے کیا جائے اور پھر خان صاحب ویڈیو پیغام جاری کریں، اپنی طرف سے پارٹی رہنمائوں کی ڈیوٹیاں لگائیں اور انہیں ذمہ داری سونپیں۔ جس شخص کو انہوں نے ساڑھے تین سال تک صوبے کا وزیراعلیٰ بنائے رکھا، اسے ہی انچار ج بنا دیں۔ عمران خان عثمان بزدار کی نامعلوم ، خفیہ صلاحیتوں کے بڑے قدردان ہیں۔ اچھا ہے کہ اس بہانے قوم کو بھی سردار بزدار کے ہنر اور قابلیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ کچھ بھی کریں، مگر عمران خان اس طرف توجہ ضرور کریں۔ ان کی بے نیازی، بے توجہی اور سیلاب زدگان سے منہ پھیرے رکھنا ناقابل فہم اور ناقابل توجیہہ ہے۔ ان کے حامیوں کو اس سے شدید مایوسی ہورہی ہے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ اقتدار کی خواہش ہے یا کچھ اور کہ وہ عمران خان جس نے2005 زلزلہ متاثرین اور 2010کے سیلاب متاثرین کے لئے بڑی مہم چلائی تھی، وہ اس بار گنگ کیوں بیٹھا ہے؟
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر