فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قیصرانی وطن شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔دورافتادگی، پسماندگی اور رابطہ سڑکوں کا نہ ہونا جہاں ایک طرف دائمی عذاب ہے وہاں رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی ہے۔
کوئ زیادہ بات نہیں، بس ایک مختصر مطالبہ ۔
قیصر وطن کی جائز امداد کی جاۓ کہ ہم نے اس ریاست کے لیے اپنی استعداد سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں اور ہنوز ہم موت کے منہ میں رہتے ہوۓ قربان ہو رہے ہیں۔ہمیں ہمارے ہی محصول سے ہمارا جائزحق دیا جاۓ۔
ہماری تاریخ دریا برد ہونے چلی ہے ، ہماری تاریخ بچا لی جاۓ کہ ہم اپنا حال اور مستقبل آپکی خاطر داؤ پہ لگاۓ بیٹھے ہیں۔ہماری زمین پر یوم آزادی لہو رنگ کیوں ہو؟ ہماری زمین پر ہماری جان کی امان کو یقینی بنایا جاۓ کہ جہاں آپکے لیے آپکے اثاثہ جات کی بابت قیصر کوٹ اہم ہے وہیں قیصرانی بھی اہم ہونے چاہئے ہیں۔
احباب!
سیلاب سے متاثرہ تمام علاقے یقیناً قابل توجہ ہیں مگر اس وقت سب سے زیادہ تباہی قیصرانی قبائیلی علاقے میں ہوئ ہے۔سرکار کی وہی بے اعتنائ اور ہماری وہی التجائیں۔کوڑا لاہڑ، وہوا لاہڑ ، بڑکوئ لاہڑ اور دیگر چھوٹے بڑے لاہڑ بشمول لاہڑیاں اور پاڑوں میں کہیں اونچے اور کہیں درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔اس پسِ منظر میں مزید بارشوں کی بھی پشین گوئ ہے۔ہم اگلی تباہی سے کیسے نبرد آزما ہوں گے کہ ابھی ہم اپنی حالیہ تباہی کو رو رہے ہیں۔
مزید تباہی سے بچنے کو ضروری ہے کہ بروقت اقدامت اُٹھاۓ جائیں اور حالیہ تباہی کے تناظر میں سیلاب میں پھنسے قیصرانیوں کو فوراً امداد پہنچائ جاۓ کہ مال و اموال رخصت ہو چکا ہے بس پیچھے رونے کو لوگ رہ گۓ ہیں۔سوکڑ و منگڑوٹھہ میں ہوئ تباہی سے مکمل ہمدردی مگر اس وقت قیصرانی علاقے میں کسی بھی قسم کی رسائ نہ ہونے کے سبب تباہی کا اندازہ لگانا مشکل نظر آ رہا ہے اور امدادی ٹیموں سے بھی درخواست کہ سوکڑ اور منگڑوٹھہ کے ساتھ ساتھ چتر وٹہ کے علاقے کے لیے بھی کچھ اقدام ضرور کریں۔
میدان کے قیصرانی اپنے قیصرانی بھائیوں کے لیے میدان میں کب اتریں گے ؟جب پانی اتر جاۓ گا؟
قیصرانی علاقے کے کئ دیہات صفحہ ِ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔
پہاڑ سے اپنا تعلق صرف چھوٹی مکھی والی شہد، بٹیروں اور گربن تک محدود نہ کریں۔
میدان کے قیصرانی میدان میں اتریں اور پہاڑ کے قیصرانیوں کی مدد کو پہنچیں۔
قیصرانی علاقہ مدد مانگتا ہے
قیصرانی علاقہ توجہ مانگتا ہے
زیاد خان قیصرانی کل صبح سے اپنی سرکاری ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ اپنی اخلاقی، مذہبی اور قومی ڈیوٹی نھبانے میں مصروف ہیں۔مقامی آدمی اور مقامی فورس ہی نا ممکن کو ممکن بنانے کا جتن جانتی ہے۔
یاد رہے چتر وٹہ اور نیلور دف کی آبادیاں صفحہِ ہستی سے مٹ چکی ہیں اور پچھلے تین دنوں سے مقامی افراد کو خوراک و راشن بی ایم پی تھانہ چتر وٹہ فراہم کر رہا ہے اور آج پہلی کھیپ بھی بی ایم پی قیصرانی علاقہ کے سرکل آفیسر زیاد خان قیصرانی لے کر پہنچے ہیں۔
پولیٹیکل ایجنٹ اکرام ملک صاحب اور متعلقہ سرکاری حکام سے بھرپور اپیل ہے کہ اس ضمن میں مزید امداد بھی باہم پہنچائ جاۓ کہ نقصان وہ ہے جو نا قابل بیان ہے۔
یاد پڑتا ہے لشکریالہ معاملہ پر بھی یہی راستوں کی آزمائش تھی اور یہی زیاد خان تھے۔تب بھی سرخرو لوٹے تھے ، دعا ہے کہ اب بھی سرخروئ مقدر ہو گی۔
احباب!
بی ایم پی کو دعا میں یاد رکھئیے گا کہ یہ صرف قبائیلی علاقہ کی فورس نہیں یہ وہاں گی 1122 بھی ہے۔
چہار جانب تباہی، بربادی، بیچارگی، بے اعتنائ اور لاغرضے پن کی اطلاعات ہیں۔
کھیتران، قیصرانی، نوتک ، بزدار اور کھوسہ تمام علاقہ ایک تباہی دیکھنے کے بعد دوسری تباہی کے دہانے پر۔
کوئ ہے جو سوتییلی کے کان پر جا کر ہتھوڑے برساۓ کہ ہم بمع اپنی تاریخ، ثقافت اور حیات کے دریا بُرد ہونے چلے ہیں۔
دامان اور کوہ سلیمان سوال پوچھتا ہے بہرو۔
سرکار غائب ، انتظامیہ غائب، میڈیا غائب اور سب سے اہم سردار غائب۔
احباب!
اس لمحے امید کا دامن نہ چھوڑئیے گا کہ اب سواۓ امید کے کوئ نہیں جو ہمیں اس مشکل وقت سے نکال سکے۔
ہم اس مشکل سے نکلیں گے اور حساب لیں گے ان سے جو بہت بری طرح آشکار ہوۓ ہیں۔
تونسہ میں کم از کم ہماری یاداشت میں یہ پہلی تباہی ہے اور پہلی تباہی نے ہی نمائندوں کے چہروں سے دوہرا نقاب نوچ ڈالا ہے۔
یہ نمائندے ہیں؟
جو ایک گریڈ سترہ کے ملازم کے ساتھ سیلفی لے کر اٹھلاتے پھرتے کہ دیکھو کہ میں کون سا تیر مار لایا ہوں۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی