فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاپر پر شاپر بانٹتے جائیے کہ شاپر وہ خاص آئٹم ہے جو آندھی کے ساتھ بہت اونچا اڑنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا جبکہ اسکی دوسری لاجواب خوبی ووٹ اور ووٹر کی طرح بے وزن ہونا مانی جاتی ہے۔سائنس اسکی باقی ماندہ خوبیوں پر تحقیق میں غرق ہے مگر سائنس کو کیا معلوم کہ یہاں ایک پسماندہ علاقے میں شاپر کو لے کر بہت بڑے بڑے نام پیدا ہو چکے ہیں اور یہ نام اس قدر نامور ہو چکے ہیں کہ شاپر بنانے والی کمپنیوں نے ان مہا پرشوں کے لیے خصوصی پیکجز متعارف کرواۓ ہیں۔۔۔۔۔
ایک شور و غوغا برپا ہے، ہٹو بچو کی صدائیں ہیں ، گاڑیوں کے چھنگاڑتے انجن ہیں ، دھول اڑاتی گاڑیاں ہیں ، گاڑیوں کے پائیدان ہیں، پائیدانوں پر کیچڑ ہے ،کیچڑ میں پھنسے شاپر ہیں اور شاپر نشانی ہیں کہ شاپروں کے ساتھ شاپر تقسیم آن پہنچے ہیں۔یادش بخیر کوئٹہ میں ایک چوک ہوا کرتا تھا پانی تقسیم کے نام سے۔اس چوک کی وجہِ شہرت اسکی نزدیکی میں قائم بدنامِ زمانہ قلی کیمپ تھا جہاں سیاسی کارکنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔اسی تشدد کا نشانہ باباۓ بلوچستان میر غوث بخش بزنجو بھی بنے۔اتفاق کہئیے یا بد بختی کہ گیارہ اگست بزنجو صاحب کی برسی کا دن ہے اور اسی دن کے آگے پیچھے بزنجو صاحب کے گمگشتہ وسابقہ وطن کے علاقے میں قیصرانی قبیلہ کے ہاں شاپر تقسیمی اپنے عروج پر ہے۔
ایک صاحب نے بغرض ووٹ قوم کو بھکاری بنانے کا سوچا تو دوسرے کو لگا کہیں میں اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جاؤں ۔ابھی پہلے اور دوسرے کا مقابلہ چل ہی رہا تھا کہ تیسرے کو لگا کہ دوڑو کہیں دیر نہ ہو جاۓ۔بس یہی وہ لمحہ تھا کہ تینوں نے اپنی اپنی دیگیں بشمول “ چمچوں” کے دوڑانا شروع کر دیں۔تقسیم کنندگان کی راہ میں کیا ریت، کیا پہاڑ اور کیا دریا آے مگر یہ مجاہد دھرتی کا سینہ چیر کر شاپر تقسیمی کے مقدس فریضے کو نھباتے ہوۓ آگے بڑھے اور پھر بڑھتے ہی گۓ۔
کوئ مقابلہ سا مقابلہ نظر آتا ہےجیسے شاپر تقسیمی کے آخر میں کوئ تقریب ہو گی جہاں دنیا بھر سے مندوب پدھاریں گے۔پھر وہاں دنیا کا سب سے بڑا مہا پُرش آۓ گا جو بڑے شاپر تقسیم کے گلے میں ہار ڈالے گا، چھوٹے شاپر تقسیم کو پھول اور گلدستے پیش کیے جائیں گے اور سب سے چھوٹے شاپر تقسیم کی فقط حوصلہ افزائ کی جاۓ گی۔۔۔
ہمارے ان شاپر تقسیموں سے کوئ کارکردگی کی بابت پوچھ لے، سیاست کی تعریف کا استفسار کر لے، اپنے قابل فخر نہ سہی قابل رحم سیاسئ نظریے کے متعلق ہی کچھ بات کر لی جاۓ تو چہار جانب سانپ سونگھ جاۓ گا۔ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ شاپر کا فی کلو نرخ پوچھا جاۓ ، یہ پوچھا جاۓ کہ پاؤ والے شاپر میں گوشت بھرا بھرا دِکھتا ہے یا کلو والے میں، دھڑی سامان کی ہو تو پانچ کلو والا شاپر ڈبل کیا جاۓ یا نہیں، شاپر کو گرہ ایک لگائ جاۓ یا دو، “چِیڑی گنڈھ” بہتر رہے گی یا سادی، تو ہمارے پیارے پیارے شاپر تقسیم علم و ادب کے وہ دریا بہائیں گے کہ رہے نام اللّہ کا۔۔۔۔۔
او ہمارے شرارتی شاپر تقسیمو!
کچھ خیال کرو۔مانا کہ قیصرانی غریب ہیں اور آپکے کارن ہی ہیں مگر یاد رہے یہ علاقہ تعلیم یافتہ غریب ہے۔یہ جانتا ہے کہ خدمت خلق کے مقدس نام پر انکے ساتھ کونسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔یہ جانتا ہے کہ شاپر تقسیمی مدد نہیں بلکہ بد ترین استحصال ہے۔اسے معلوم ہے کہ یہ شاپر تقسیمی وہ دانا ہے جو بغرض ووٹ قوم کو پھینکا جا رہا ہے تاکہ ایک شاپر کی بابت ایک ووٹ ہی پکا کر لیا جاۓ۔۔۔
اس شاپر کی راہ تکنے والے اور گھنٹوں دیگ کے کھلنے کا انتظارکرنے والے کو آپ حضرات کی استعداد بارے جاننے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے کہ جب یہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ اُسکے ہاں لمپی سکن کی بیماری سے جانور مرے جا رہے ہیں اور ویکسین ندارد۔اسے نظر آتا ہے کہ اسکے لوگ کینسر سے مرتے جا رہے ہیں مگر ہسپتال غیرموجود۔اسے دِکھتا ہے کہ کوتانی کا پُل نہیں اور رن چاڑھی کی سڑک نہیں اور وہ کئ دنوں سے ان کی مانگ کر رہا ہے اور اس سارے منظرنامے میں تمام شاپر تقسیم غیر حاضر۔
تو مُختصر یہ کہ اتنے ہی آپ لوگ علاقے کے خیر خواہ ہیں تو وہ کام کریں جو کرنے کے ہیں اورکرنے کا کام کینسر ہسپتال کا قیام ہے۔اپنی خیر خواہی کا ثبوت دیجئیے اور کینسر ہسپتال بنوا کے دیجئیے حکومت و ریاست پاکستان سے۔اور اس بھول سے نکل آئیے کہ آپ جادو کریں گے اور شاپر سے ووٹ نکل آۓ گا۔نہ آپ جادوگر ہیں اور نہ قوم اسمبلی میں بیٹھی پانچویں جماعت کہ کرتب کے اختتام پر ہال تالیوں سے گونج اُٹھے گا۔
سیاست زندہ آباد
سیاست بزریع شاپر مردہ آباد
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی