عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاقت کی اپنی زبان ہے جس کے الفاظ، انداز اور لہجہ قطعی مختلف۔ طاقت کے لیے نہ اقتدار چاہیے اور نہ ہی عنانِ مملکت۔۔۔ البتہ طاقت کے لیے اختیار ضروری ہے۔
ہم جس دور میں ہیں اور جس وقت میں کھڑے ہیں اس وقت کو ناپنے کا آلہ ایک ہی رُخ پر ہے اور طاقت کی لگامیں منھ زور گھوڑے کے سپرد۔
عمران خان اس وقت مقبولیت کے بام عروج پر ہیں اور اگر نہیں بھی تو محسوس کیوں ہو رہا ہے کہ مدمقابل میدان چھوڑ رہے ہیں۔ عمران خان کی سیاست نے سیاسی جماعتوں کو تقریباً یا تو دیوار سے لگا دیا ہے یا کم از کم اُنھیں لاجواب ضرور کر رکھا ہے۔
تحریک انصاف کی مدمقابل اب صرف اسٹیبلشمنٹ ہے اور اس کا احساس اور اندازہ طاقتور حلقوں کو بخوبی ہو چُکا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور بیانیے یا تو غیر متعلقہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں یا بے اثر۔۔۔ اُن کا حامی پیروکار اور خود عمران خان دیوتا جیسا روپ اختیار کر رہے ہیں۔
وجوہات عمران خان کا بیانیہ ہے یا کچھ اور۔۔۔ بہر حال عمران خان اقتدار سے باہر بھی مقتدر ہیں اور اختیار نہ ہوتے ہوئے بھی بااختیار۔ وہ طاقت کا مرکز بنتے چلے جا رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ رویہ مزید مطلق العنانیت کی جانب نہ لے جائے۔
معروف پنجابی صوفی شاعر بابا بلھے شاہ نے مغلوں کے کمزور دور کی عکاسی کچھ اس طرح سے کی:
بھیڈاں مار پلنگ کھپائے گرگاں بُرا احوال
چڑھ سہے شینہاں تے نچن لگے وڈی پئی دھمال
چوہیان کُن بلی دے کُترے ہو ہو کے خوشحال
یعنی بھیڑوں نے چیتے مار ڈالے، ظالم بھیڑیے کا بُرا حال ہے، خرگوش شیروں پر سواری کر کے دھمال ڈالتے ہوئے ناچ رہے ہیں اور چوہے خوش ہو کر بلی کے کان کاٹ رہے ہیں یعنی ہر بات اُلٹی ہو رہی ہے۔
آج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔ کل تک اسٹیبلشمنٹ کے ایک صفحے پر دھمال ڈالنے والے آج دانتوں سے صفحے اُدھیڑ رہے ہیں جبکہ طاقت کی راہداریوں میں پڑاؤ ڈالنے والے، زور آوروں کا راستہ روک رہے ہیں۔ مقبولیت کو سند بنا کر آئین اور قانون کے معنی بدلے جا رہے ہیں جبکہ آزادی اظہار کی آڑ میں دوسروں کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ آزادی کی حد دوسرے کی ناک سے پہلے ختم ہو جاتی ہے جبکہ یہاں مقبولیت کے لائسنس کے ساتھ ناک کاٹ کر ہاتھ میں رکھی جا رہی ہے۔ اہل علم کو اس پر بحث ضرور کرنی چاہیے کہ دھونس، زبردستی کو آزادی کا جواز فراہم کیا جائے یا نہیں؟
یاد رہے کہ نظام کو کسی غیر آئینی حادثے سے بچانے کے لیے فقط آئین کا ہی راستہ لیا جانا چاہیے۔
یہ سب کیوں ہوا اور کیسے ہوا اس پر بہت بار لکھا جا چُکا ہے مگر اب ہو گا کیا۔۔۔ کیونکہ عمران خان اب خود کو قانون، آئین، پارلیمنٹ، عدالت اور حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ بھی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔
باوجود اس کے کہ توشہ خانہ یا ممنوعہ فنڈنگ کیس اُن کی صداقت اور امانت پر کئی سوال اُٹھا چُکے ہیں، وہ خود کو نہ صرف قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں بلکہ عوامی مقبولیت کے ہتھیار کو انتشار کے لیے استعمال کرنے کا ہُنر بھی رکھتے ہیں اور اس کا طریقہ خود طاقت کے ایوانوں سے ہی اُنھیں سکھایا گیا ہے۔
کیا طاقت ہی طاقت سے بات کر سکتی ہے؟ عمران خان اس فارمولے پر عمل پیرا ہیں یہاں تک کہ طاقت کا مرکز اُن کے قدموں میں گر نہ جائے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ایسا ہونے نہیں دے گی۔ اس سے پہلے وہ کئی مراکز کو دہشت کا شکار بنا چُکے ہیں اور ہتھیار صرف دھونس اور ہٹ دھرمی ہے جس کا علاج فقط قانون اور آئین کے دائرے میں کارروائی سے ہی ممکن ہے۔
بوتل سے جن جیسے نکالا گیا تھا اُسی طرح جن کو واپس بوتل میں بند کیا جا رہا ہے۔ نظام کو ریورس گیئر لگایا گیا ہے لیکن نظریے اور بیانیے سے عاری سیاسی جماعتیں عوام سے دور بلکہ بہت دور ہیں۔
عوام کو انگیج کرنے کے لیے عمران خان کے نہ تو کوئی مدمقابل ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی رکھتا نظر آتا ہے۔ نوجوان سیاسی قیادت خود کو عوام سے منسلک نہیں کر پا رہی جبکہ بڑھتی مہنگائی عوام کو نظام سے متنفر کر رہی ہے۔
ایک طرف سیاسی جماعتوں کو عوام سے قریب کرنا ہو گا تو دوسری جانب نظریاتی سیاست کو فروغ دینا ہو گا ورنہ انتخابی میدان میں یکطرفہ مقابلے کے لیے تیار ہو جائیں۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر