نور الہدیٰ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک واقعہ سناتی ہوں
سنو!
ایک ڈرامہ کی شوٹنگ کے لیے مجھے کراچی میں قدیم حویلی چاہیے تھی۔ چینل کے دفتر کی طرف سے ملیر میں ایک قدیم فارم ہاؤس کا پتہ دیا گیا کہ وہاں ہمارے ہی چینل کے ڈرامے کی شوٹ مکمل ہو چکی تھی۔
اپنی ٹیم کے ساتھ لوکیشن پر پہنچی۔
ایک پرانا مگر ایکڑوں پر پھیلا ہوا اجاڑ فارم ہاؤس تھا، جسے حویلی بنایا جا سکتا تھا۔ فارم ہاؤس کے ایک طرف قطار کی صورت بوسیدہ سے سرونٹ کوارٹرز بنے ہوئے تھے، جن کے باہر کولہی (دلت ہندو) عورتیں، مرد اور بچے بیٹھے نظر آ رہے تھے، جو اس فارم ہاؤس کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔
فارم ہاؤس کا جو انچارج ہمیں لوکیشن دکھا رہا تھا وہ بھی کولہی تھا۔ یوں تو ہم اردو میں ہی بات کر رہے تھے مگر اس دوران اس نے فون پر مجھے سندھی میں بات کرتے ہوئے سن لیا تھا۔
جب واپس جانے کے لیے میں گاڑی میں بیٹھی تو اس نے قریب آ کر سندھی میں کہا کہ مجھے آپ سے علیحدگی میں ایک ضروری بات کہنی ہے۔
میرا خیال تھا کہ وہ معاوضے پر بات کرے گا۔
مگر وہ مجھے ایک بڑے سے خالی کمرے میں لے گیا اور کھڑکی کے طاق پر رکھے قرآن کے قریب لا کھڑا کیا۔ سرخ پوش میں لپٹا قرآن لکڑی کے رحل پر خالی کمرے میں تنہا رکھا تھا۔
کمرے میں قرآن کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا۔
کہنے لگا ”آپ سے پہلے جو لوگ یہاں شوٹنگ کر رہے تھے وہ اپنا سارا سامان اٹھا کر لے گئے، مگر یہ قرآن چھوڑ گئے۔ مہربانی کر کے یہ قرآن اپنے ساتھ لے جائیں۔ میں اسے چھو بھی نہیں سکتا“
میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ تھا، بس مسلمان جو اپنا سارا سامان لے گئے تھے مگر قرآن ہندو کی حفاظت میں چھوڑ گئے تھے ان پر سندھی میں ایک تلخ جملہ کہا اور قرآن رحل سمیت اٹھا کر گھر لے آئی۔ وہ قرآن اور رحل آج بھی میرے پاس ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر