وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساون اور بھادوں کو جدا کرتی لکیر کے یہی امس بھرے دن تھے۔ برساتی پانی کے چھوٹے بڑے جوہڑوں کے گرد فسادات کے جہنم سے بچ نکلنے والے بے گھر انسان ٹولیوں کی صورت ہیضے کی وبا میں جانیں دے رہے تھے۔ یہ آزادی نہیں، مفادات کی تقسیم کا تاوان تھا۔ یہ وہ آزادی نہیں تھی جس کا مطالبہ دادابھائی نورو جی نے 1886 میں کانگرس کے کلکتہ اجلاس میں کیا تھا۔ یہ وہ کامل آزادی نہیں تھی جس کا پرچم پنڈت جواہر لال نہرو نے 31 دسمبر 1929 کو لاہور میں دریائے راوی کے کنارے بلند کیا تھا۔ یہ وہ آزادی نہیں تھی جس کا خواب دیکھتے ہوئے گوکھلے، تلک، سریندر ناتھ بینر جی، محمد علی جناح اور لاجپت رائے نے اپنی جوانیاں صرف کی تھیں۔ یہ وہ آزادی نہیں تھی جس کے لئے بھگت سنگھ، اشفاق علی خان، سکھ دیو اور راج گورو نے موت کو گلے لگایا تھا۔ ہندوستان کی دستوری آزادی کی رسومات تو وائسرائے لنلتھگو نے 8 اگست 1940 کو بعد از جنگ ہندوستانیوں کے لئے وسیع تر اقتدار کی پیشکش ہی سے شروع کر دی تھی۔ قرارداد لاہور، کرپس مشن، ہندوستان چھوڑ دو، قحط بنگال اور کیبنٹ مشن تو راستے کے وہ بھاری پتھر تھے جو بیسویں صدی کی ابتدا میں برطانوی حکمرانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کی پالیسی کے تحت تاریخ کی شاہراہ پر لڑکھائے تھے اور مقامی سیاسی قیادت دستوری اختلافات پر سمجھوتے میں ناکام رہی تھی۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے آغاز پر برطانوی سلطنت کی آبادی بالترتیب 43 کروڑ اور 53 کروڑ نفوس تھی یعنی کل عالمی آبادی کا 25 فیصد۔ کسے معلوم تھا کہ 1948 میں برطانیہ یورپ کے شمال میں ساڑھے چار کروڑ آبادی کا ایک جزیرہ ہو گا۔ یہ محض دنیا کے ایک چوتھائی رقبے ہی پر قبضہ نہیں تھا، یہ وسائل پر ناجائز اجارہ تھا۔ نوآبادیاتی نظام کی ناانصافی پر دو بیانات ملاحظہ کیجئے۔ ہندوستان کی مکمل آزادی کی قرارداد اس جملے سے شروع ہوئی، ’ہندوستان پر برطانوی راج نے ہندوستان کے لوگوں کو ان کی آزادی ہی سے محروم نہیں کیا بلکہ اس بندوبست کی بنیاد عوام کے استحصال پر رکھی گئی ہے اور اس نے ہماری دھرتی کو معاشی، سیاسی، ثقافتی اور روحانی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ چنانچہ ہم برطانیہ سے مکمل آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں….‘ عین ممکن ہے کہ تاریخ کے طالب علموں کو اس جملے میں 33 سالہ تھامس جیفرسن کے تحریر کردہ امریکہ کے اعلان آزادی کا ابتدائیہ یاد آیا ہو، ’ہم ان سچائیوں کو بدیہی حقیقت سمجھتے ہیں کہ تمام انسان برابر تخلیق کیے گئے ہیں، نیز انہیں ان کے خالق کی طرف سے بعض ناقابل تنسیخ حقوق عطا کیے گئے ہیں، ان میں زندگی، آزادی اور خوشی کی تلاش شامل ہیں….‘
اگر آپ کو یہ حوالے کسی اور دنیا کی کہانی معلوم ہوں تو ایک ہم عصر سے ملتے ہیں۔ 1991 میں پیدا ہونے والےGeorge Mpanga کا آبائی تعلق یوگنڈا سے ہے تاہم وہ لندن میں پیدا ہوئے۔ George the Poet کے نام سے جانے والے جارج نے کم عمری ہی میں اپنی گائیکی، سیاسی شاعری اور سٹیج پرفارمنس سے ایسا نام پیدا کیا کہ 2019 میں انہیں 28 برس کی عمر میں برطانیہ کا اعلیٰ سول ایوارڈ MBE دینے کا اعلان کیا گیا لیکن جارج نے یوگنڈا میں نوآبادیاتی دور میں برطانوی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے یہ انعام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے الفاظ تھے، ’نوآبادیاتی برطانیہ نے دو سو برس تک میری دھرتی کے بچوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا، انہیں ان کے وسائل، حقوق اور شناخت سے محروم کیا۔ میں برطانیہ سے محبت کرتا ہوں لیکن ماضی کے ان مظالم کے پس منظر میں خود کو برٹش ایمپائر کا حصہ قرار نہیں دے سکتا۔‘ روح آزادی کی ترجمانی کرنے والے صدیوں اور نسلوں پر پھیلے ان حوالوں کا مقصد انشا پردازی نہیں، آزادی کا حقیقی مقصد بیان کرنا ہے۔ استخلاص وطن (Liberation)، جمہور کی حکمرانی (independence) اور شخصی آزادیاں (Individual freedoms) تین مختلف قانونی اور دستوری تصورات ہیں۔ ہم نے 75 برس قبل ایک منزل عبور کی تھی۔ آج خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے جمہور کی حکمرانی پر بلا مداخلت استحقاق منوا لیا؟ کیا ہم نے کم از کم جمہوریت کو متفقہ بندوبست حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا؟ صاحبو ابھی تو ہم میثاق جمہوریت پر ضلع جگت کی مشق فرماتے ہیں، ’ووٹ کی عزت‘ پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔
شہباز گل حتمی تجزیے میں ایک شہری ہی تو ہے اور ایسا شہری جو تعلیمی، سماجی اور سیاسی زاویوں سے اشرافیہ کا حصہ ہے۔ اگر قانون کی تحویل میں شہباز گل کے بارے میں ان گنت سوال اٹھ سکتے ہیں تو رواں برس مارچ میں اسلام آباد ہی کی ایک بیٹی (سندس) کے مبینہ وڈیو کیس میں اپنے بیان سے منحرف ہونے پر قومی ضمیر کیوں نہیں جاگا؟ رکن قومی اسمبلی علی وزیر دسمبر 2020 سے حراست میں ہیں؟ کسی دستوری ضمانت کا کوئی معنی باقی ہے؟ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاری ہماری خبروں میں نچلی ترجیح کیوں ہے؟ مسنگ پرسن کمیشن سے سوال کیوں نہیں کیا گیا کہ مبینہ طور پر بازیاب ہونے والے ہزاروں شہری کس چاہ یوسف سے برآمد ہوئے ہیں؟ پارلیمانی جمہوریت میں عدم اعتماد معمول کی کارروائی ہے۔ ہمارا ملک چھ ماہ سے بے یقینی کی سولی پر کیوں معلق ہے؟ اواخر نومبر اور آئندہ انتخابات کے انعقاد میں کیا تعلق ہے؟ ریفرنس دائر کرنے والا اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے تو قاضی فائز عیسیٰ کی آزمائش کیوں ختم نہیں ہوتی؟ آئی ایم ایف سے کچھ اوپر ایک ارب ڈالر کے قرض سے معیشت کا پہیا چل نکلے گا؟ تھانہ کوہسار کا حلقہ اختیار تو سلمان تاثیر کے لہو سے سرخ ہے، ملک بھر کے تھانوں میں ان گنت بے چہرہ شہریوں کی افتاد آزادی کے متن کا حصہ کیوں نہیں؟ اگر یہ سوال مشکل ہیں تو جان لیجیے کہ آزادی کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ آئیے ن م راشد سے رجوع کرتے ہیں۔
میرے بھی ہیں کچھ خواب….
وہ خواب ہیں آزادی کامل کے نئے خواب….
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینہ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب….
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر