فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بہت تیزی سے اس وطن پر اپنے ہونے کا آخری اخلاقی جواز بھی کھوتے جا رہے ہیں۔جس کے بچوں کو پانی آپ کی نا اہلی کی بابت اٹھا لے گیا، جس کی سال بھر کی کمائ دریا برد ہو گئ، جس کی عمر بھر کے اثاثے استمال کے قابل نہ رہے اور جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے اپنے بہہ گۓ ، آپ اس سے کیسے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ آپکے ہونے کو مسیحائ سمجھے گا؟
وہ دیکھتا ہے۔سن اور سمجھ سکتا ہے۔
اسے یاد ہے مری میں کیمرے لیے ایک بیلچہ فورس اُٹھی تھی برف کو سڑک پر سے ہٹانے کے لیے۔اس یاد ہے کہ اس نے وہ والی پوسٹ کئ بار پڑھی ہے جس میں لکھنے والا یہ باور کراتا ہے کہ یہ وہ ہیں جنکی گاڑیوں میں پٹرول کھبی ختم نہیں ہوا، انکی ایمبولینسز ہمیشہ تیار ملیں اور نجانے تعریف کے کونسے کونسے صیغے!
اسے یاد ہے کہ وہ سونا اگلنے والی زمین کا مالک ہے۔اس معلوم ہے کہ اس کے وطن سے چاندی و یورنیم نکالا جا رہا ہے۔اس علم ہے کہ وہ دفاع وطن کے نام پر کیے جانے والے تجربے کی سب سے بڑی قیمت کینسر کی صورت میں چکا رہا ہے۔اسے سب یاد ہے کیونکہ اسکے ہونے کا ہر جواز بشمول اخلاقی کے اس کے پاس موجود ہے۔
آپ کے پاس فقط اخلاقی ہے اور وہ آپ کھو رہے ہیں۔ہم فقیروں کی لغت میں “ رہے ہیں” وگرنہ یار لوگ کہتے ہیں کہ آپ کھو چکے ہیں۔سیلاب کی ہر کہانی اس قدر دلدوز ہے کہ خدا کی پناہ۔زمیں زادوں کی جڑت نہ ہوتی تو شاید اس نقصان کی شرح کئ گنا زیادہ ہوتی۔زمیں زادوں کو کم از کم جینے کی سہولت تو دو کہ وہ جہاں صدیاں پہلے تھے، آج بھی وہیں ہیں۔
ایک گھبرائ ہوئ جونک نے بھاگتے ہوۓ دوسری جونک سے کہا بھاگ ورنہ انسان تیرا خون پی جاۓ گا۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی