دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جولائی میں ڈالر اچانک مہنگا ہونے کا ذمہ دار کون؟ || راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 15 تا 28 جولائی 2022 کے دوران انٹربینک میں ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 239 روپے 94 پیسے اور اوپن کرنسی مارکیٹ میں 245 روپے تک بڑھنے کی انکوائری کا امکان رد کر دیا ہے۔

ترجمان سٹیٹ بینک عابد قمر کا کہنا ہے کہ ان 14 دنوں میں مالیاتی و تجارتی شعبے میں ایسا کچھ غیر معمولی ہوا ہی نہیں کہ جس کی انکوائری کرائی جائے۔

(سٹیٹ بینک کے) ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح تبادلہ کے گذشتہ دوماہ کے دوران اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چھ جون 2022 کو (انٹر بینک میں) ڈالر 200 روپے کا تھا جو 14 جولائی کو 210 روپے تک پہنچا، 39 دنوں میں ڈالر روزانہ کی بنیاد پر اوپر نیچے جا رہا تھا۔ ایک دن ڈالر 202 روپے کا ہوا تو اگلے روز ایک روپیہ کم ہو کر 201 کا ہو گیا۔ اس کے برعکس 14 جولائی کے بعد ڈالر بڑھتا ہی چلا گیا اور 15 تا 28 جولائی کے دوران 210 روپے سے بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچا، یعنی 14 روز میں ڈالر 30 روپے 14 پیسے مہنگا ہوا۔

اہم بات یہ ہے کہ ان 14 روز میں کسی ایک دن بھی ڈالر کی قدر میں معمولی کمی بھی نہیں دیکھی گئی بلکہ اضافہ ہی اضافہ ہوتا رہا، اگر ایک روز ڈالر چار روپے مہنگا ہوا تو اگلے روز یکمشت چھ روپے بڑھ گیا۔ سٹیٹ بینک اکنامک ڈیٹا کی روشنی میں 15 تا 28 جولائی کے دوران ڈالر کی بڑھوتری کا رجحان دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ مارکیٹ فطری انداز میں چل رہی تھی اور مینوپولیشن نہیں ہو رہی تھی۔

سٹیٹ بینک

 قیام پاکستان کے بعد اتنے کم دورانیہ میں روپے کی قدر میں 14 فیصد کی بڑی گراوٹ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس تیزی سے 15 تا 28 جولائی 2022 کے دوران ڈالر مہنگا ہوا بالکل اسی تیزی کے ساتھ اگلے 17 روز ڈالر واپس 214 روپے پہ پہنچا بلکہ مزید نیچے آ رہا ہے۔

حکومت اور اقتصادی ماہرین کے موقف میں تضاد

پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران بڑے برآمد کنندگان نے تین سے چار ارب ڈالر کی برآمدات جان بوجھ کر کیش نہیں کروائیں کیونکہ سٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط ایکسپورٹرز کو برآمدات کیش کروانے کے لیے 120 دن کی چھوٹ دیتے ہیں۔ برآمد کنندگان اپنا سرمایہ بیرون ملک روک کر ڈالر مہنگا ہونے کا انتظار کرتے رہے تاکہ انہیں اچھا ریٹ مل سکے۔

ملک بوستان کا مزید بتانا ہے کہ دوسری جانب رواں مالی سال کے بجٹ میں برآمدات کو محدود کرنے کے لیے متعارف کروائے گئے اقدامات کے نتیجے میں سٹیٹ بینک نے جولائی میں بینک ایل سی کھلوانے کے لیے نئی شرائط عائد کیں تو درآمد کنندگان نے اس کا توڑ نکالتے ہوئے تقریباً دو ارب ڈالر کی درآمدات ایل سی کے بغیر کریڈٹ پہ منگوا لیں، اور بعد ازاں ادائیگی کے لیے انٹربینک اور اوپن کرنسی مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری شروع کر دی۔

نتیجتاً انٹربینک میں ڈالر 14 روز کے اندر 30 روپے 14 پیسے جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر 35 روپے مہنگا ہوا کیونکہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ کافی چھوٹی ہے، اگر چند ماہ کے دوران پانچ سے چھ ارب ڈالر نکال لیے جائیں تو بھونچال آ سکتا ہے۔

سابق وزیر خزانہ اور معروف اقتصادی ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا بھی 15 تا 28 جولائی 2022 کے دوران ڈالر کے بحران کو جہاں معاشی غیریقینی کا نتیجہ قرار سمجھتے ہیں وہاں وہ ایکسپورٹرز کو (ڈالر مہنگا ہونے کے انتظار میں) اپنی برآمدات بروقت کیش نہ کرانے پر بحران کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہو یہ رہا تھا کہ ایکسپورٹرز نے برآمدی بل بروقت کیش نہیں کرائے جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر ڈالر کی کمی ہو رہی تھی، دوسری جانب درآمدات کو کم کیا گیا تو تھوڑی بہت بہتری آئی تاہم یہ سلسلہ آگے بھی چلتا رہے گا۔‘

ایکسپورٹرز کی جانب سے اربوں ڈالر کی برآمدات جلد کیش نہ کرانے اور پاکستان ڈالر مہنگا ہونے کے انتظار میں زرمبادلہ تاخیر سے لانے کے معاملے پر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ ماہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھنے کی کئی ایک وجوہات ہیں، اس بارے میں معلوم نہیں کہ ایکسپورٹرز کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہوا۔‘

ایک سوال کے جواب میں وزیرخزانہ نے کہا کہ ’یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایکسپورٹرز نے برآمدات کے پیسے باہر رکوا دیے تھے۔‘

البتہ درآمدات کنندگان کو بینک ایل سی کھلوانے میں درپیش مشکلات کی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ تیل کے شعبے میں اور خاص طور پر بڑی ایل سیز کی کنفرمیشن نہیں ہو رہی تھی جس کی وجہ سے درآمد کنندگان کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

اس کے مقابلے میں ترجمان سٹیٹ بینک 15 تا 28 جولائی کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی غیرمعمولی گراوٹ کو سیاسی و معاشی غیریقینی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور اس حوالے سے متضاد اطلاعات، معیشت کا بحران اور سیاسی عدم استحکام ڈالر کے مہنگا ہونے کا سبب بنا۔

عابد قمر کا کہنا ہے کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ برآمد کنندگان نے ڈالر مہنگا ہونے کے انتظار میں بیرون ملک اپنے بل رکوا دیے ہوں کیونکہ اگر کوئی ایکسپورٹر 120 روز سے زیاد عرصے تک اپنی رقم نہیں لائے گا تو اس کو معلوم ہے کہ بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں آپ گذشتہ چند ماہ کے برآمدات کے اعداد و شمار دیکھیں تو اس میں کوئی بڑی گراوٹ نہیں ملتی، اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ اس وجہ سے کچھ ہوا ہو گا۔‘

مگر جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ کئی ایکسپورٹرز نے اپنی برآمدات کیش کرانے کے لیے 120 روز کی حد تو پار نہیں کی البتہ جان بوجھ کر 90 روز یا پھر سو روز کے بعد اپنی برآمدات کیش کروائیں اور زرمبادلہ پاکستان میں لائے تاکہ یہاں ڈالر زیادہ سے زیادہ مہنگا ہو جائے اور ان کو اچھا ریٹ مل سکے تو ترجمان سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ’بزنس مین اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، سٹیٹ بینک نے ایک حد مقرر کر دی کہ 120 روز کے اندر اپنی برآمدات کا زرمبادلہ پاکستان میں لائیں گے لیکن سٹیٹ بینک کسی کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتا کہ وہ سو دن یا 90 دن سے پہلے زرمبادلہ لے کر آئے۔

’فرض کریں اگر کچھ ایکسپورٹرز نے ڈالر مہنگا ہونے کے انتظار میں اپنا زرمبادلہ روک بھی لیا تو اب ان کو نقصان ہو رہا ہو گا کیونکہ اب تو ڈالر مسلسل گر رہا ہے۔ لہٰذا اس طرح کی مینی پولیشن وقتی طور پر تو چل سکتی ہے اور ہو سکتا ہے ہوئی بھی ہو، مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سارے ایکسپورٹر ایسا کر رہے تھے، کیونکہ اگر بڑی تعداد میں ایکسپورٹر اپنا سرمایہ باہر روک لیں گے تو برآمدات کے اعداد و شمار میں سب نظر آ جائے گا مگر ایسا کچھ ہوا ہی نہیں کہ جس کی وجہ سے یہ مسئلہ نظر آئے۔‘

روپے کی قدر میں جو گراوٹ آئی وہ ہمارے اقتصادی بحران کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر بڑھنے والی مہنگائی بھی اثر انداز ہو رہی ہے، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں کی کرنسیوں پر بھی دباؤ موجود ہے

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’سرمایہ دارانہ نظام میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کو جائز سمجھا جاتا ہے، جب کسی بھی جنس کی قلت پیدا ہو تو قیمتوں کو کم یا زیادہ کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ اگر میں کوئی چینی، آٹا یا چاول بیچتا ہوں اور مجھے توقع ہے کہ ایک ہفتے بعد اس کی زیادہ قیمت ملنے والی ہے تو میں آج کی بجائے ایک ہفتے بعد فروخت کروں گا، کیونکہ اشیا کی رسد روک دینے سے قیمت بڑھتی ہے۔ ڈالر کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے کیونکہ جو کرنسی کا کاروبار کرتے ہیں انہوں نے ڈالر فروخت کرنا بند کر دیا اور جب ڈالر کی مانگ بڑھی اور مارکیٹ میں ڈالر دستیاب نہیں تھا تو قیمت بڑھ گئی۔‘

کیا ڈالر کا بحران پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی؟

ترجمان سٹیٹ بینک کا 15 تا 28 جولائی کے دوران ڈالر کے اچانک 30 روپے تک مہنگا ہونے اور مبینہ طور پر کرنسی مارکیٹ کے مصنوعی اتار چڑھاؤ میں ملوث کرداروں کے خلاف اس سارے معاملے کی بطور ریگولیٹر تحقیقات کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے ابھی اس کی کوئی ضرورت ہے یا ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوئی ہو۔ البتہ مستقبل میں ایسا کچھ ہوا تو ضرور انکوائری کی جائے گی۔

ترجمان بتاتے ہیں کہ موجودہ دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں اکیلا پاکستانی روپیہ نہیں گرا بلکہ ڈالر کی قدر میں دیگر تمام کرنسیوں کے مقابلے میں تقریباً 12 فیصد بہتری آئی، 12 فیصد تو یہ ہو گیا جبکہ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں جو گراوٹ آئی وہ ہمارے اقتصادی بحران کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر بڑھنے والی مہنگائی بھی اثر انداز ہو رہی ہے، صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں کی کرنسیوں پر بھی دباؤ موجود ہے، ابھی سننے میں آ رہا ہے کہ بنگلہ دیش کی صورت حال کیا ہے، بھارتی روپے پر بھی دباؤ بڑھا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستانی روپے پر دباؤ کچھ زیادہ ہے لیکن کرنسی میں گراوٹ کے مسئلے کا دیگر تمام ممالک بھی سامنا کر رہے ہیں۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں کسی بھی جنس کی قیمت طلب و رسد کی بنیاد پر طے ہوتی ہے، جب ڈالر کی قلت ہو گی تو مہنگا ہو جائے گا، ’پاکستان کا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے کیونکہ ہم ہر سو ڈالر برآمدات کے مقابلے میں 225 ڈالر کی درآمدات کرتے ہیں جبکہ ہم قرضے لے کر تجارتی خسارہ پورا کرتے رہے ہیں۔

’اس مرتبہ قرضہ ملنے میں تاخیر ہوئی کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط کچھ ایسی تھیں، اس دوران مارکیٹ نے بھانپ لیا کہ اس مرتبہ ماضی کی طرح آسانی سے قرضہ ملنے والا نہیں، تو ڈالر مہنگا ہو گیا۔ مگر جب آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے لیے مذاکرات کامیاب ہونے کی اطلاعات آنے لگی تو آپ نے دیکھا کہ ڈالر نیچے آ رہا ہے۔‘

درآمد کنندگان کو بینک ایل سی کھلوانے میں درپیش مشکلات اور اربوں ڈالر کی درآمدات کریڈٹ پر کیے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں بھی ترجمان سٹیٹ بینک عابد قمر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا ہوا یا نہیں’۔ بینک ایل سی کھلوانے کی شکایات کافی پرانی بات ہے، وہ بھی تیل کی درآمد کے حوالے سے تھیں، مگر وہ ساری صورت حال تو ٹھیک ہو چکی تھی، تیل کی درآمد کے لیے ساری ایل سیز کی کنفرمیشن ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ بھی بقیہ ساری ایل سی کنفرم ہو رہی ہیں۔

’اس ضمن میں ابھی مزید کوئی شکایت موجود نہیں، البتہ ظاہر سی بات ہے کہ درآمدات کی اجازت کنٹرولڈ طریقے سے دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مشکلات تو موجود ہیں، کم از کم پچھلے دنوں ایسی کوئی شکایت نہیں ملی کہ بینک ایل سی کھلوانے میں درآمد کنندگان کو مشکل پپیش آ رہی ہو، اگر کسی ایک درآمد کنندہ کی بینک ایل سی کے حوالے سے کوئی شکایت ہو اور وہ بھی کسی ایک بینک کے ساتھ تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سب کو مشکل پیش آ رہی ہے۔

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی ڈالر مزید کتنا نیچے جائے گا یا اوپر آئے گا کیونکہ اس کا دارومدار مارکیٹ فورسز پر ہے۔ وہی فیصلہ کرتی ہیں، البتہ روپے کی قدر میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے

 ترجمان سٹیٹ بینک مزید کہتے ہیں کہ ان کا بینک کرنسی ایکسچینج کمپنیوں پر مستقل نظر رکھتا ہے اور یہ سلسلہ پہلے سے چل رہا تھا مگر جولائی میں ڈالر کے اچانک مہنگا ہونے کی مختلف وجوہات ہیں، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صرف ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر ڈالر مہنگا ہوا۔

’چار ایکسچینج کمپنیوں کی کچھ برانچیں تھیں جو کہ کچھ غلط کر رہی تھیں ان کے خلاف سٹیٹ بینک کی جانب سے ایکشن لیا گیا۔ مگر وہ پورے ملک کی مارکیٹ تو نہیں چلا رہے تھے۔ بلاشبہ سٹیٹ بینک ایکشن کا روپے قدر پر مثبت اثار پڑا ہے لیکن اس کے علاوہ کئی عوامل ہیں جو مثبت طور پر اثرانداز ہوئے۔‘

ترجمان سٹیٹ بینک کا مزید کہنا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی ڈالر مزید کتنا نیچے جائے گا یا اوپر آئے گا کیونکہ اس کا دارومدار مارکیٹ فورسز پر ہے۔ وہی فیصلہ کرتی ہیں، البتہ روپے کی قدر میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ کرنسی مارکیٹ میں پائے جانے والے عدم استحکام میں کافی کمی واقع ہو چکی ہے۔

’آئی ایم ایف پروگرام بھی بحالی کے راستے پر ہے، اس کے علاوہ جولائی میں تجاتی خسارے میں بھی کافی کمی ہوئی، جو معیشت کے لیے مثبت اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ درآمدات کو کنٹرول کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں درآمدات میں کم ہوئی ہیں۔ لہٰذا یہ تمام مثبت اشاریے ڈالر کے اتار چڑھاؤ پر اثر انداز ہو رہے ہیں اس کے نتیجے میں معاشی صورت حال میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’معاشی بحران کا قلیل مدتی حل یہی ہے کہ ہم اپنی درآمدات کم کریں، موجودہ حکومت نے بعض درآمدات پر پابندی لگائی بھی مگر حکومت پر ہر طرف سے دباؤ ہے۔ بقول ان کے درآمدات پر عائد قدغنیں ہٹانے کے لیے حکومت کو اندرونی و بیرونی دباؤ کا سامنا ہے، گذشتہ دنوں جرمنی کی حکومت نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے گاڑیوں کی درآمد پر جو پابندی لگائی گئی اس سے جرمنی کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں، علاوہ ازیں آئی ایم ایف نے بھی تشویش ظاہر کی کہ یہ پابندی اٹھائی جائے۔‘

ڈاکٹر قیصر نے انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت سے کہا ہے کہ آپ درآمدات برقرار رکھیں اگر خسارہ ہوا تو ہم قرضہ دیں گے۔ ماضی میں ہمارے اوپر دباؤ تھا کہ پاکستان بجلی بنانے کے لیے تھر کا کوئلہ استعمال نہ کرے، عالمی بینک نے اپنی فنانسنگ روک دی تھی لیکن روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد جرمنی، امریکہ اور فرانس سمیت سب نے کوئلے پر چلنے والے پاور پلانٹ چالو کر دیے جو بند ہو گئے تھے، کیونکہ انہیں روس سے گیس نہیں مل رہی لہٰذا اب کوئلے کا استعمال جائز ہو گیا ہے۔

کیا ڈالر مزید نیچے آئے گا؟

پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان کہتے ہیں کہ رواں ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کے بعد دوست ممالک کی فنانسنگ بھی شروع ہو جائے گی، نتیجتاً ڈالر 180 روپے تک آ سکتا ہے۔ لہٰذا جن لوگوں نے مہنگا ہونے کی امید پر ڈالر خرید کے رکھے ہوئے ہیں ان کو چاہیے کہ اپنے ڈالر ابھی فروخت کر دیں ورنہ ڈالر آنے والے دنوں میں مزید گرے گا۔

اس کے برعکس اقتصادی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’روپے کی قدر میں حالیہ بہتری عارضی ہے، اگر رواں ماہ کے دوران آئی ایم ایف کی قسط مل گئی تو ہو سکتا ہے ڈالر دس روپے مزید کم ہو کر 210 روپے پہ آ جائے مگر تین یا چھ مہینے کے بعد آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے لیے دوبارہ مذاکرات ہوں گے اور پھر نئی شرائط سامنے آئیں گی، جب تک ہم ان شرائط کو پورا نہیں کریں گے تو ڈالر پھر مہنگا ہو گا۔ جب تک ہم اپنا تجارتی خسارہ کم نہیں کریں گے روپیہ ہمیشہ دباؤ میں رہے گا۔‘

بشکریہ انڈیپنڈنٹ اردو

About The Author