وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کے دن بھی کچھ ویسی ہی خبریں شائع ہوئی ہیں۔
’وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ سیاستداں فوج کو سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹیں۔‘
’پنجاب کے وزیرِ اعلی پرویز الہی نے لاہور میں آزادی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور عمران خان کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔‘
’ہرنائی میں دہشت گردوں سے مقابلے کے دوران دو فوجی جوان شہید ہو گئے۔‘
’فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ پاک فوج سوات اور دیر کے پہاڑوں میں مٹھی بھر مسلح افراد (طالبان) کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔‘
’سندھ ہائی کورٹ نے اے آر وائی چینل پر پابندی کے خلاف سرکاری نوٹس معطل کر دیا۔‘
’اسلام آباد میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے لاہوری گھروں پر چھاپے۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں مقیم رہنما گرفتاری کے خدشے کے سبب پنجاب کی حدود میں منتقل اور مسلم لیگ ن کے رہنما لاہور سے اسلام آباد منتقل۔ وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اگر ہماری نقل و حرکت کو پنجاب میں روکا گیا یا ہراساں کیا گیا تو صوبے میں گورنر راج بھی لگ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد پولیس کو بنی گالہ میں عمران خان کے گھر بھیجا گیا تو پھر لاہور میں شریفوں کی رائے ونڈ رہائش گاہ بھی پنجاب پولیس کے محاصرے میں ہو گی۔‘
اس آپا دھاپی کے بیچ میں بس یہ خبر ذرا الگ سی ہے کہ وزارت اقتصادیات نے اپنی ڈائمنڈ جوبلی رپورٹ میں پاکستان کے اقتصادی سفر کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی معیشت اس عرصے میں دنیا کی 40ویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔
قومی پیداوار کا حجم 1950میں تین ارب ڈالر تھا جو آج 383 ارب ڈالر ہو گیا ہے جبکہ فی کس آمدنی 86 ڈالر سے بڑھ کے 1800ڈالر تک جا پہنچی ہے۔
البتہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ 1950 میں ایک امریکی ڈالر سوا چار روپے کا تھا آج 220 روپے کا ہے اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تب پاکستان کے اس حصے کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی جو آج لگ بھگ 24 کروڑ ہے۔ اور رپورٹ میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ تب سکول کم تھے اس لیے زیادہ تر بچے ان پڑھ رہ گئے اور آج لاکھوں سکولوں اور مدارس کے باوجود پانچ برس کی عمر تک کے 60 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ اور جو پڑھ لکھ گئے ہیں وہ بھی سوچ رہے ہیں کہ کیا پڑھ لکھ گئے ہیں۔
البتہ اس ملک کے عام آدمی کی زندگی میں کم از کم اتنا فرق ضرور آیا کہ گورا راج بھورے راج (براؤن صاحب) سے بدل گیا۔ اختلافِ رائے کو نکیل ڈالنے کے لیے جہیز میں ملنے والے نوآبادیاتی قوانین اپنی جگہ برقرار ہیں مگر نظام کو اب نوآبادیاتی کے بجائے جمہوری کہا جاتا ہے۔ کچھ بال کی کھال نکالنے کے ماہر اسے جمہوری نوآبادیاتی نظام بھی کہتے ہیں۔
جو خاتون 75 برس پہلے گھر کے اندر اور باہر نسبتاً زیادہ محفوظ تھی آج اسی محترمہ کی نواسیاں اور پوتیاں عورت کے لیے دنیا کے چھٹے غیر محفوظ ملک میں زندگی گذارنے کے باوجود ان تمام شعبوں میں آگے آنے سے نہیں ڈر رہیں جو شعبے 75 برس قبل ان کی نانی دادی کے لیے شجرِ ممنوعہ تھے۔
75 برس پہلے پاکستان کا اپنا آئین نہ تھا۔ 75 برس میں ایک چھوڑ تین تین دیسی آئین بن گئے مگر نافذ کرنے والے بے لگامِ آئین ہی رہے۔
انگریز کے دور میں من کی بات کھل کے کہنے کی آزادی نہیں تھی۔ آج کہنے کے بعد کی آزادی کی ضمانت نہیں۔ (آج ضمانت کا عملی مطلب عدالت سے ملی ضمانت ہے)
75 برس پہلے جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری جاتی تھیں۔ آج کوئی سیاسی قیدی نہیں۔ اب غائب کر دینے یا ہو جانے کا چلن ہے۔ گرفتاری وہ لگژری ہے جو محض ’سافٹ وئیر اپ ڈیٹنگ‘ کے ضرورت مند مراعات یافتہ شہریوں کے لیے مختص ہے۔
75 برس پہلے انڈیا سب سے بڑا خطرہ تھا۔ آج سلامتی کی اندرونی صورتِ حال سب سے بڑا خطرہ بتایا جا رہا ہے۔
انڈین خطرے کا تو بظاہر ایٹم بم بنا کر سدِ باب کر لیا گیا مگر عدم برداشت، مذہبی جنونیت اور ریاستی اداروں کی آپسی لپاڈکی اور سماج کی اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں اقتصادی، سماجی، سیاسی و عقائدی تقسیم کا علاج ایٹم بم سے تو ممکن نہیں۔
جن نشتروں سے ان بنیادی جملہ امراض کا علاج ہونا تھا وہ تو خود بندر کے ہاتھ میں استرا ہو گئے۔
75 برس پہلے ساختہِ جناح مملکتِ خداداد میں پاکستانیوں کی اکثریت تھی۔ آج مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
بہت ضروری ہے کہ اس ملک میں ایک بار پھر ایک وعدہ بند ریاست پر اعتماد کرنے والے پاکستانیوں کی اکثریت ہو۔ ورنہ سوویں سالگرہ پر بھی یہی نعرہ لگتا رہے گا کہ ’ہم لے کے رہیں گے آزادی ، ہم چھین کے لیں گے آزادی۔‘
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر