نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری بیٹی کو فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجنے والے لوگ!||نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

نور الہدیٰ شاہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بیٹی کو مجھ سے اکثر ایک شکایت بہت ہی شدید طریقے سے رہی ہے۔

وہ یہ کہ اکثر میرے فیس بک پر موجود لوگ اسے فرینڈ ریکئسٹ بھیجتے ہیں۔ گو کہ چند خواتین یا لڑکیاں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں مگر ظاہر ہے کہ اسے مرد یا لڑکے زیادہ کھٹکتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ برے لگتے ہیں۔
کیونکہ خود دبئی میں رہتی ہے اس لیے آئے دن فرینڈ ریکوئیسٹ کا اسکرین شاٹ اور ایک بپھرا ہوا میسج آتا ہے کہ یہ دیکھیے۔ یہ آپ کے دوست اور فین!

جواب میں میں اسے ایک مسکراہٹ بھیج دیتی ہوں۔
پھر سوال آتا ہے کہ آپ اسے کتنا جانتی ہیں؟
میں کہتی ہوں کہ کوئی خاص نہیں۔
پوچھتی ہے کہ میں رجیکٹ کر دوں؟
میں کہتی ہوں کہ کر دو۔ اس کا آپشن تم رکھتی تو ہو!

اسے مجھ سے ایک اور شکایت رہتی تھی کہ آپ مجھے اپنی وال پر برتھ ڈے وش نہیں کرتیں۔ اس کی پچھلی برتھ ڈے پر میں نے اس کی تصویر لگا کر میسج لکھ دیا۔ بس پھر تو قیامت آ گئی۔ میسج آیا۔ دیکھیے۔ دیکھیے۔ آپ کے فیس بک پیج کے لوگ میرے حسن کی تعریف کر رہے ہیں۔

جواب میں میں نے اسے ایک قہقہہ بھیج دیا۔ جو کمنٹس مجھے قدرے بے تکلف لگے وہ میں نے ڈیلیٹ کر دیے باقی رہنے دیے۔ ہاں بہت سے لوگ میرے پیج پر میرے بھی فرینڈز نہیں تھے مگر میں ان کمنٹس کے لیے نا مناسب کا لفظ استعمال نہیں کروں گی۔

آہستہ آہستہ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے فرینڈز میرے فرینڈز بن جاتے ہیں اور میرے فرینڈز اس کے فرینڈز۔
مثلاﹰ عثمان غازی کی میں نے اس کے سامنے تعریف کی کہ وہ سیاسی بحث کرتے ہوئے کس تحمل سے لوگوں کے کمنٹس کے جواب دیتا ہے اور یہ تحمل اس عمر میں، میں نے اس نوجوان صحافی سے سیکھا ہے کہ بحث کا رویّہ کیا ہونا چاہیے!

ایکدم سے میری بیٹی کا سوال آیا کہ میں عثمان غازی کو ایڈ کرلوں؟
حالانکہ عثمان غازی کو نہ اس نے دیکھا تھا اور نہ میں نے۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ دونوں تو اتنے بے تکلف ہو چکے ہیں کہ بات عثمان کے لیے رشتہ تلاش کرنے پر آ پہنچی ہے!

میری بیٹی کا زیادہ غصہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جن لڑکوں کا تعلق سندھ کے چھوٹے شہروں سے ہوتا ہے۔ سندھی فیوڈل سماج کا ماحول اسے ان لوگوں سے ذرا زیادہ کانشس کر دیتا ہے۔

پچھلے دنوں کراچی آئی ہوئی تھی اور اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار کر رہی تھی۔ اس کا شوہر سن سن کر مسکرائے جا رہا تھا۔
میں نے اسے کہا۔ دیکھو۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک چوراہا ہے اور جب آپ چوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں تو آپ زمانے کو نہیں کہہ سکتے کہ آنکھیں بند کر لو۔ سوشل میڈیا دراصل آپ کی پرائیویٹ ڈائری نہیں بلکہ چوراہے پر آپ کی موجودگی کا اعلان ہے۔ اب تم کسی سے بات کرنا پسند نہ کرو اس اختیار کا آپشن موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو لوگ میرے پیج پر بار بار گھس آتے ہیں، خاص طور پر سندھ کے چھوٹے شہروں کے نوجوان، یہ دراصل مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ انھیں یہ غلط فہمی ہے کہ میں ان کے لیے آواز اُٹھانے والی رائٹر ہوں۔ میں بہرحال پبلک فگر ہوں۔ میں لکھوں چاہے اپنے ذاتی شوق میں، مگر شائع ہونے کے بعد میرا لکھا ہوا پبلک کے لیے ہے۔ میری ذات جب تک میرے اندر ہے، میری ہے۔ مگر جب سوشل میڈیا کے چوراہے پر آئے گی تو وہ سب کی نگاہ میں ضرور آئے گی۔

مگر دیکھ لو تمہارے لیے ایک بھی کمنٹ ایسا نہیں آتا جس سے تمہاری انا کو یا عورت پنے کو ٹھیس پہنچے۔ خوبصورت تو تم ہو۔ اگر کوئی تمہیں خوبصورت کہہ دے تو تمہارا عورت پنا اتنا شرمیلا نہیں ہونا چاہیے کہ قیامت آ جائے۔

دیکھو۔ امریکہ جاؤ تو دکان پر کھڑا سیلز مین ہیلو ہائے اور ہاؤ آر یو کے بعد تمہارے لباس، ہئیر اسٹائل یا حسن کی تعریف کرے گا اور تم اسے تھینکس بھی کہو گی اور جواب میں ایسے ہی جملے کہو گی۔ ایسا تجربہ امریکہ میں روزمرہ کے معاملات میں ہوتا رہتا ہے۔ مگر کیونکہ وہ گورا ہوگا، اس لیے تمہیں برا نہیں لگے گا۔

میں نے اسے کہا کہ تیسری بات یہ ہے کہ تم پڑھی لکھی ہونے اور زندگی کے بڑے ایکسپوژر کے ساتھ اور لبرل سوچ رکھنے کی وجہ سے خود کو چھوٹے شہروں کے سماج سے بہتر سمجھتی ہوگی لیکن اگر بہتر ہونے کی حیثیت میں ہم باقی سماج کو دھتکار کر اپنا الگ خیمہ لگا کر بیٹھ جائیں گے تو ہمارے دھتکارنے والے رویّے سے باقی سماج کا راستہ نفرت بھری انتہا پسندی کی طرف مڑ جائے گا اور وہ ہر پازیٹوِ سوچ کو نیگٹوِ نگاہ سے دیکھنا شروع کریں گے۔

جب ہم سماج کو بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے شخصی خیموں سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں ان لوگوں کے بیچ میں کھڑے ہوکر، انہیں اپنا کر تبدیلی کی بات کرنا ہوگی۔
ہمیں اپنے پازیٹوِ رویّے سے غلط اور صحیح سمجھانا ہوگا۔

یہ لڑکے جو فیس بک پر میرے اکاؤنٹ کے راستے تمہیں ایڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ان کی ایک معصوم خواہش ہے۔ وہ میری بیٹی کے ساتھ بات کرکے احساسِ فخر کی لذت چکھنا چاہتے ہیں۔ تم رجیکٹ کر دو۔ مگر انہیں ذلیل مت کرو۔ یہ ذلّت میں پھنس جائیں گے۔ ہم رائٹرز انھی کو بدلنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ سماج کسی چاردیواری کا نام نہیں، انسانوں کا مجموعہ ہے۔ سماج کتابوں، ڈراموں، فلموں سے نہیں بدلتا۔ رویّوں سے بدلتا ہے۔ میرا بس نہیں چلتا کہ میں یتیم خانوں جیسے سرکاری تعلیمی اداروں میں ضائع ہوتے ایک ایک نوجوان کا مستقبل اپنے ہاتھوں سے سنواروں۔ مگر میں ایک مسکراہٹ کے ساتھ ان سے دو منٹ بات کر سکتی ہوں۔ سیلفی بنانے کی اجازت دے سکتی ہوں۔ اپنے رویّے سے انہیں اعتماد دے سکتی ہوں۔ فیس بک پر ان کے کمنٹ کو جگہ دے سکتی ہوں لیکن انہیں اس بات پر ذلیل کرکے کہ تم نے میری بیٹی کو ایڈ کرنے کی کوشش کیوں کی، نفرت اور ذلّت کے دوزخ میں نہیں جھونک سکتی۔

میں نے اس سے ایک سوال کیا کہ کیا تمہیں جنسی ہراسمنٹ کا احساس ہوتا ہے ان سے؟ جواب میں وہ یہ کہہ کر ہنس دی کہ کوئی مجھے ہراس کرکے دیکھے!
پھر اس نے مجھے یاد دلایا کہ۔ یاد ہے جب میں چودہ سال کی تھی تو آپ نے مجھے جنسی ہراسمنٹ پر ایک مضمون پڑھنے کو دیا تھا اور کہا تھا کہ بس اسے پڑھ لو۔ گھبرانا نہیں۔ میں نے وہ پڑھا اور وہ کچھ سمجھ لیا جو شاید برسوں کا تجربہ سکھاتا۔

پھر میں نے اسے اپنا حال ہی کا ایک تجربہ بتایا۔
اسی سال، چند ہی مہینے پرانی بات ہے۔
میں جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایک پروجیکٹ کے لیے ایک سیریل لکھ رہی تھی۔ سمّی۔ جو ہم ٹیلی ویژن نے چلایا اور مومنہ درید نے بنایا۔
کہانی پنجاب کی تھی اور کیونکہ میں، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر پنجابی نہیں تھے اس لیے انجانے میں مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نے ونی ہونے والی لڑکی کا خاندان جاٹ دکھایا اور اوپر سے ڈائریکٹر نے ایک سین میں جملہ ڈال دیا کہ آموں کے باغ سے آموں کی چوری جاٹوں کی لڑکیوں نے کی ہے۔

مجھے اندازہ ہی نہ تھا کہ جاٹ پنجاب کی کتنی بڑی برادری ہے کیونکہ سندھ اور جنوبی پنجا ب میں جاٹ یا جٹ دیہاتی کو کہتے ہیں۔
مومنہ درید کا فون آیا کہ جاٹ برادری کا کوئی فیس بک پیج ہے۔ اس پر ایک قیامت برپا کی ہوئی ہے کہ جاٹوں کی بیٹیوں کی توہین کی گئی ہے اور مومنہ اور اس کی بیٹی کی اور میری تصویر لگا کر خالص مردانہ زبان میں کمنٹس لکھے گئے ہیں جو ایک عورت کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوتے ہیں۔ مومنہ بیٹی کی وجہ سے زیادہ پریشان تھی۔

میں اس پیج پر گئی۔ میں نے ان سانس روکنے والے کمنٹس کے بیچ جاکر لکھنا شروع کیا۔ ابھی لکھا ہی تھا کہ ہر طرف سے تیر برسنا شروع ہو گئے۔ میں بات کرتی رہی کہ جاٹ لفظ کا استعمال انجانے میں ہوا ہے مگر یہ کہانی نیک مقصد کے تحت لکھی گئی ہے، جس کا مقصد ہماری آپ کی بیٹیوں کو ظلم سے اور برے رواجوں سے بچانا ہے۔ آپ جیسے غیرت مند بھائی اور بیٹے جب ہمارے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے تو ہم ظلم کرتے ہاتھوں کو روک سکیں گے۔ ہمیں آپ کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ آئیے مل کر ظلم سے اپنی بیٹیوں کو بچائیں۔ بیٹیاں جو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ جاٹ لفظ کے استعمال پر میں معافی چاہتی ہوں مگر آپ کو بھی۔ ۔

دو گھنٹے کی اس گفتگو کے بعد دھیرے دھیرے جواب میں برستے تیر کم اور نرم ہوتے چلے گئے۔ اچانک پیج کے ایڈمن بیچ میں آ گئے۔ سب کو مخاطب کرکے کہا کہ اب کوئی نورالہدیٰ بہن کے لیے غلط لفظ نہیں بولے گا۔ یہ ہماری بہن ہیں اب۔ ہم غیرت مند لوگ بہن کی عزت کرتے ہیں۔

ساتھ ہی ایڈمن نے تمام نامناسب کمنٹس ڈیلیٹ کروا دیے۔

سمی کی بیس اقساط خاموشی سے گزر گئیں۔ پھر کبھی ان کی طرف سے کوئی سخت جملہ نہ آیا۔ حالانکہ میں نے کسی بھی ایک کو بلاک نہیں کیا مگر ان میں سے کسی نے کبھی میرے اکاؤنٹ پر آکر کچھ بھی نہ کہا۔

جب میں اپنی بیٹی کو یہ بات بتا رہی تھی تو مجھے اسی سے متعلق ایک اور واقعہ یاد آ گیا، جب وہ میڈیکل کالج میں تیسرے سال کی طالبہ تھی۔

اسے ایک سیاسی جماعت کے لڑکے نے تنگ کرنا شروع کیا جو خود بھی میڈیکل کا طالب علم تھا اور اس سے ایک دو سال سینئر تھا مگر سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے اس میں تھوڑی سی بدمعاشی تھی شاید۔ بیٹی نے مجھ سے شکایت کی۔ کالج کے پرنسپل میرے انتہائی قریبی عزیز تھے۔ بیٹی بپھری ہوئی تھی اور چاہتی تھی کہ اسے کالج سے ریسٹیکٹ کرواؤں۔ دل تو میرا بھی یہی چاہا مگر ایک خیال نے روک دیا کہ کتنی مشکل سے ایک بچہ جوان کیا جاتا ہے اور پڑھایا جاتا ہے۔ کیا اس کے جرم کی اتنی بڑی سزا ہونی چاہیے! کمبخت ڈاکٹر بننے کو ہے۔ ماں آس لگائے بیٹھی ہوگی۔ آج بگڑا ہوا ہے، کل عملی زندگی میں سارے کس بل نکل جائیں گے۔ لگا رہے گا مریضوں کے علاج معالجے میں۔ ایک ڈاکٹر میرے غصّے کی نذر ہو جائے، یہ مجھے منظور نہیں تھا۔

میں نے نہایت خاموشی سے اپنی دوست کے بیٹے سے یہ بات شئیر کی جو اس لڑکے کا بیج میٹ بھی تھا اور ایک اور سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا۔
ہنس کر کہنے لگا چھترول کرواؤں؟
میں نے کہا۔ نہیں۔ آنکھ دکھاؤ اور بتا دو کہ باز نہ آنے کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے۔
بس۔

اگلے دن سے بیٹی ہنس کر کہتی کہ وہ تو اب نظر بھی اٹھا کر نہیں دیکھتا میری طرف!
اس بات کو کئی برس گزرے۔

پر مجھے یقین ہے کہ کہیں اور نہ سہی، کچھ اور نہ سہی، مگر وہ نوجوان ڈاکٹر آج سندھ کے کسی چھوٹے سے قصبے میں ہی سہی مگر غریب مریضوں کا علاج ضرور کرتا ہوگا اور ان کے لیے زندگی کی ایک کرن روشن رکھتا ہوگا!

میں اور میری بیٹی اکثر راتوں کو دیر دیر تک باتیں کیا کرتے ہیں۔ جب وہ کراچی آتی ہے تو دیر تک مجھے جگائے رکھتی ہے۔
اس طرح کی باتوں کے دوران میں اکثر اسے کہا کرتی ہوں کہ عورت مت بنو۔ انسان بنو۔ عورت یا مرد ہونا بڑی بات نہیں ہے۔ انسان ہونا بہت ضروری اور بڑی بات ہے۔

نور الہدیٰ شاہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author