دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بے چاری ڈاکٹر کے غریب شوہر!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اگر اس قانونی تعلق میں کسی بھی فریق کو کچھ بھی ناپسند ہے تو فریق ثانی کو لعن طعن اور پھٹکار اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر راہ راست پر لانے کی بجائے علیحدگی کیوں نہیں؟ تم اپنی راہ، ہم اپنی۔ جیو اور جینے دو۔ اسلام نے خلع اور طلاق کا قانون اسی لیے وضع کیا ہے جو پوری عرب دنیا میں عورت دھڑلے سے استعمال کرتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میری بیگم بھی ڈاکٹر ہے، بہت قابل، گولڈ میڈلسٹ“
باچھیں کھلاتے ہوئے ان صاحب نے ہمیں بتایا۔
”بہت خوب، کہاں ہوتی ہیں؟“
ہم نے اشتیاق سے پوچھا
”گھر میں“

”میرا مطلب ہے کہ کس ہسپتال میں کام کرتی ہیں؟“
ہم نے پوچھا۔
”جی وہ ہسپتال میں کام نہیں کرتیں“
وہ منہ بنا کر بولے۔

”کیوں؟“
ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔

”وہ جی، جب شادی کے بعد جب اس نے کام کرنا چاہا تو میں نے کہا کیا ضرورت ہے؟ اللہ کا دیا سب کچھ تو ہے میرے پاس، اچھی بھلی آمدنی ہے میری۔ سو گھر بیٹھو اور عیش کرو“

وہ فخر سے بولے۔
”تو آپ نے ان سے شادی کیوں کی؟“

”وہ دیکھیں نا جی، بیوی اگر پڑھی لکھی ہو تو خاندان میں عزت بڑھتی ہے۔ پھر بچوں کی پڑھائی لکھائی بھی اچھی ہو جاتی ہے“ وہ بولے۔

” کیا آپ نے اسے شادی سے پہلے بتایا تھا کہ آپ بیوی کے کرئیر کے حق میں نہیں“ ہماری آواز میں کچھ تلخی تھی۔

”نہیں جی یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ بیوی کو شوہر کی مرضی پہ ہی چلنا ہوتا ہے آخر!“ وہ تنتنا کر بولے۔
ہا اا۔ کیا کہیں؟
”آپ کے کتنے بچے ہیں؟“ ہم نے پوچھا۔
چار
کہاں پیدا ہوئے؟

”فلاں ہسپتال میں۔ شہر کی سب سے اچھی گائناکالوجسٹ کو دکھایا اور انہوں نے ہی میرے بچے پیدا کروائے“ فخریہ لہجہ۔

”خوب۔ ان گائناکالوجسٹ کے شوہر تو بہت غریب ہوں گے شاید؟“ ہم مسکرا کر بولے۔
”کیا مطلب؟“ وہ کچھ حیران ہوئے۔

”دیکھیے نا ان کے شوہر انہیں آپ کی طرح بٹھا کر عیش نہیں کروا سکے۔ روزی روٹی کمانے گھر سے نکال دیا، تو بے چارے مجبور ہی ہوں گے نا“

”وہ۔ وہ۔“ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اور سوچیے ہمارے ماں باپ اور شوہر غربت کے ہاتھوں کس قدر تنگ ہوں گے کہ ہم پچھلے تیس برس ہو گئے سر پہ کفن باندھے، در در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے ”ہمیں مزا آ رہا تھا۔

”جی۔ آپ بہت مذاق کرتی ہیں“
وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر بولے۔

”نہیں تو، میں بہت سیریس ہوں۔ دنیا کی سب نامور عورتوں کے شوہر یقیناً مجبور ہوتے ہیں تبھی وہ اپنی بیویوں کو گھر سے باہر نکلنے اور اپنا کیرئیر جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں“ ( ویسے یہ لفظ اجازت پہ بھی اعتراض ہے ہمیں ) ۔

اور کیا آپ جانتے ہیں ان شوہروں کی مجبوری کیا ہوتی ہے؟

وہ اپنی بیوی کو اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں۔ ان کی نام نہاد غیرت اور جھوٹی عزت ان کی بیوی کے پاؤں میں گھر اور بچوں کے نام پہ بیڑیاں نہیں پہناتی۔ وہ بیوی کی ڈگریوں اور قابلیت کو اپنے سینے پر لگا ہوا تمغہ نہیں سمجھتے۔ وہ زندگی کی ساتھی کو کل سمجھتے ہیں جز نہیں۔ شادی کے بعد ان کا گھر بیوی کے کے لیے ایک قید خانہ نہیں بنتا جہاں ہر پل ہر لحظہ دروغہ کی طرف اجازت لینے کے لیے دیکھنا پڑے۔

اجازت؟ کیسی اجازت؟

اگر ہر سانس اجازت لے کر زندگی گزارنی ہے تو فائدہ کیا ہے ایک ایسی چھت کے نیچے رہنے کا جہاں کچھ لوگوں کے لیے عورت باندی کا درجہ رکھتی ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو مونچھوں پہ تاؤ دیتے ہوئے بیوی کے کام کرنے پہ کوئی اعتراض نہ کرنے اور اجازت دینے کا دعوی کریں گے۔ مگر اندرون خانہ جھانکنے کا موقع ملے تو بیگم کا اے ٹی ایم شوہر کے سرہانے تلے ہی ملے گا۔

کچھ باتیں ہمیں سمجھ لینی چاہئیں۔

تعلیم کا مقصد محض نوکری کا حصول نہیں اور نوکری محض روپے پیسے کے لیے نہیں کی جاتی۔ پیسہ بہت اہم ہے لیکن اگر کوئی بھی پیشہ معاشرے کی فلاح کو نظر انداز کرتے ہوئے بھلائی کرنے سے ہچکچاتا ہے، اور انسانیت کو قتل کرتے ہوئے پیسہ بناتا ہے تو تب وہی کچھ نظر آئے گا جس کی تصویر آج ہمارا معاشرہ ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ شادی ایک قانونی تعلق ہے دو فریقین کے درمیان زندگی گزارنے کا۔ دونوں ایک گھر بنا کر ساتھ رہتے ہیں لیکن دونوں کا وجود علیحدہ، شخصیت الگ، خیالات مختلف اور شوق جدا ہی ہوں گے۔ بھئی دو مختلف گھرانوں کے پالے پوسے ہیں، ایک دوسرے کے کلون تو نہیں۔

اجی کلون بھی چھوڑیے، ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بہن بھائیوں کی شخصیت ہی مغرب و مشرق کی خبر لاتی ہے۔ خونی رشتے، جو نہ ختم ہوتے ہیں اور نہ نئے بنتے ہیں۔ مجھے اپنی بہن پسند نہیں، آج سے آپ میری بہن۔ منہ بولی تو ہو سکتی ہے لیکن ماں کے بطن والی نہیں سو مانئیے کہ وجود کے ساتھ شخصیت بھی الگ ہے۔ بہن بھائی ان اختلافات کو قبول کر کے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں یا رستہ بدل لیتے ہیں۔

پھر نکاح ہی ایک ایسا پرمٹ کیوں جو مرد کو آقا بنا دیتا ہے اور عورت کو کنیز۔ ایک کی گردن تنی ہوئی، دوسرے کی جھکی ہوئی۔ اختلاف رائے، پسند ناپسند، مرضی کا اختیار اس رشتے میں کیوں نہیں؟

اگر اس قانونی تعلق میں کسی بھی فریق کو کچھ بھی ناپسند ہے تو فریق ثانی کو لعن طعن اور پھٹکار اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر راہ راست پر لانے کی بجائے علیحدگی کیوں نہیں؟ تم اپنی راہ، ہم اپنی۔ جیو اور جینے دو۔ اسلام نے خلع اور طلاق کا قانون اسی لیے وضع کیا ہے جو پوری عرب دنیا میں عورت دھڑلے سے استعمال کرتی ہے۔

آخر ہم ہیں تو ہم اسی دھرتی کی مٹی کی پیداوار جہاں عورت ستی کی جاتی تھی۔ کلمہ پڑھ لیا تو کیا؟ عورت کی شہ رگ آج بھی مرد کے انگوٹھے تلے ہے چاہے کسی بھی طبقے کی ہو کہ صدیوں سے پدرسری روایات اس خطے کے مرد کی جینیات میں شامل ہیں۔

بھلے بیوی ڈاکٹر ہو یا وزیر شوہر کی اجازت سے ہی باہر نکلے گی۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author