جون 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی وسیب کے لوگوں کو انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا؟؟؟||ظہور دھریجہ

میں واضح کہتا ہوں کہ ہر طرف سے وسیب دشمنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے ، کوئی بات سننے کو تیار نہیں ، میں کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں، غیر تو غیر رہے، ہمارے اپنے بھی اپنے نہیں ، ریاست ماں ہوتی ہے، یہ کیسی ریاست ہے کہ بچے مر رہے ہیں مگر ریاست کے ناخدائوں کو کوئی پروا نہیں۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانحہ ماچھکہ :8دن گزر گئے، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو پروا نہیں
نہ کوئی تعزیت کیلئے آیا اور نہ ہی امداد کا اعلان ہوا
جاں بحق ہونیوالوں کا جرم یہ ہے کہ ان کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے
سانحہ ماچھکہ کو پانچ دن گزر گئے، حکمرانوں اور سیاستدانوں میں سے کوئی تعزیت کیلئے نہ آیا اور نہ ہی امداد کا اعلان ہوا، وجہ یہ ہے کہ یہ سرائیکی علاقے کے لوگ ہیں۔ دریائے سندھ میں بارات کی کشتی ڈوبنے سے دولہا سمیت پچاس باراتی جاں بحق ہو گئے ،یہ قیامت سے پہلے قیامت ہے، ظلم یہ ہے کہ کسی کو پروا نہیں ، شاید وسیب کے لوگوں کو انسان نہیں کیڑے مکوڑے سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان ، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان ، مریم نوازو دیگر تو اپنی جگہ رہے ،دوسرے درجے کی قیادت بھی وہاں نہیں پہنچی ۔ سرائیکی سیاسی جماعتیں بھی مجرم ہیں کہ کئی دنوں سے سرائیکی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو فون کر کے کہہ رہا ہوں کہ سانحہ کی جگہ مل کر چلیں اور وہاں تعزیت کے علاوہ حکومتی بے حسی پر احتجاجی مظاہرہ کریں مگر کوئی مثبت جواب نہیں دے رہا، کسی کی طبیعت خراب ہے، کسی کی گاڑی خراب ہے، کوئی موسم کی خرابی کا بہانہ کرتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ اس علاقے میں ڈاکو رہتے ہیں جان کو خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی نیت خراب ہے، لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم وہاں ضرور جائیں گے۔ اتنا بڑا سانحہ ہو گیا، کسی کو کوئی پروا نہیں، آج اگر ہمارا صوبہ ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ نوجوانوں !اٹھو تیاری کرو اور اپنے حقوق کی خاطر سروں پر کفن باندھ کر سڑکوں پر نکلو کہ مسئلہ مسئلہ کرتے ہماری زندگی گزر گئی مسئلے حل نہیں ہوئے، اب ہمیں خود مسئلہ بننا پڑے گا۔
میں واضح کہتا ہوں کہ ہر طرف سے وسیب دشمنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے ، کوئی بات سننے کو تیار نہیں ، میں کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں، غیر تو غیر رہے، ہمارے اپنے بھی اپنے نہیں ، ریاست ماں ہوتی ہے، یہ کیسی ریاست ہے کہ بچے مر رہے ہیں مگر ریاست کے ناخدائوں کو کوئی پروا نہیں۔ظلم تو یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر از خود نوٹس لینے والوں کو بھی بارات کی کشتی ڈوبنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیںاور مقتدر قوتیں بھی خاموش ہیں۔ اس سانحہ پر وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو وہاں ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ،دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے ، لاہور میں میٹرو روٹ کیلئے کھدائی ہو رہی تھی ، لاہور کا ایک شخص غلطی سے گڑھے میں گر کر فوت ہو گیا ، اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پچاس لاکھ روپے کا چیک لیکر وہاں پہنچے اور تعزیت کے ساتھ اعلان کیا کہ مرحوم کے بچوں کی تعلیم مفت ہو گی اور اس گھر کے بیروزگار افراد کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ہمدردی کے حقدار کشتی حادثہ کے جاں بحق ہونے والے باراتی نہیں ہیں؟ ۔صاف ظاہر ہے کہ یہ اس لئے نظر انداز ہیں کہ ان کا تعلق وسیب کے پسماندہ علاقے سے ہے، بڑی بات یہ ہے کہ وسیب کے عوامی نمائندے بھی خاموش ہیں۔ سول سیکرٹریٹ بھی ایک دھوکہ اور فراڈ ثابت ہوا ہے۔ وسیب کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔
میں نے سانحہ ماچھکہ پر وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اورگورنر کو درخواستیں بھیجی ہیں ، میں نے لکھا کہ ’’دریائے سندھ میں بارات کی کشتی ڈوبنے سے 19 افراد کی میتیں مل سکی ہیں جبکہ 27 افراد کی نعشیں ابھی تک دریا سے نہیں مل سکیں،پورے وسیب میں صف ماتم بچھا ہوا ہے ہر شخص سوگوار ہے، میری درخواست ہے کہ فوت ہو جانے والے ہر شخص کیلئے 20، 20 لاکھ روپے کی امداد دی جائے اور ممکن ہو تو جائے حادثہ پر آپ تشریف لے جائیں، یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے حادثہ کی انکوائری کا حکم دیا ہے مگر لواحقین کی امداد اور اشک شوئی نہ ہوئی تو یہ بات سانحہ پر سانحہ شمار ہو گی،باقی سب کام ہوتے رہتے ہیں، اقتدار بھی آنی جانی چیز ہے مگر اچھے کام کا ثواب بھی ہوتا ہے اور ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے، امید ہے کہ آپ میری درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے ‘‘۔
میں نے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، مخدوم احمد محمود اور اپنے شہر کے ایم این اے شیخ فیاض الدین سمیت دیگر اراکین اسمبلی کو بھی لکھا کہ وہ حکومت کو سانحہ ماچھکہ کی طرف متوجہ کریں، سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود نے مثبت جواب دیا باقی ہر طرف سے خاموشی ہے ، یہ سرائیکی وسیب کے جاگیردار سیاستدانوں کا مزاج ہے اور وسیب کی بدقسمتی ہے کہ ان کو اس طرح کی قیادت میسر آتی ہے۔اس موقع پر میں یہ بھی کہوں گا کہ وسیب کے مسئلے قیادت حل کر سکتی ہے، وسیب کی بد قسمتی ہے کہ کرسی اور اقتدار کی سیاست کرنے والے سیاست کے بڑے ناموں میں سے کوئی تخت لاہور کا غلام ہے تو کوئی تخت لاڑکانہ کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے اور کوئی تخت بنی گالہ کی ’’نوکری ‘‘کر رہا ہے۔ سرائیکی وسیب سے قیادت پیدا ہونی چاہئے، ان سیاستدانوں کو ہوش آنا چاہئے کہ وہ کب تک کسی کے پیچھے ہاتھ باندھے غلام بنے رہیں گے۔
ظہور احمد دھریجہ
چیئرمین : سرائیکستان قومی کونسل ۔ پاکستان

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: