پاکستان کے پہلے ڈپٹی وزیراعظم کا اعزاز رکھنے والے،، تجربہ کار اور معروف سیاست دان، چودھری پرویز الہی نے انیس سو تراسی میں سیاست کا آغاز کیا
چالیس سالہ سیاسی کیرئر میں انہیں اور ان کی جماعت کو جوڑ توڑ کی سیاست میں ہمیشہ سے ترپ کے پتے کی حیثیت حاصل رہی ہے، پنجاب کے وزیراعلی کے علاوہ بارہا صوبائی وزیر بھی رہے
قیام پاکستان کے بعد سے یوں تو ملکی سیاست کئی خاندانوں کے گرد گھومتی ہے ،، لیکن ،،، گجرات کے چودھری خاندان کو ہمیشہ سے
سیاست کے ایوانوں میں مرکزی حیثیت رہی ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد چودھری ظہور الٰہی وفاق وزیر بنے، لیکن انیس سو اکاسی میں انہیں قتل کر دیا گیا
ظہور الٰہی کے بعد، چودھری خاندان کی سیاسی باگ دوڑ ان کے بیٹے چودھری شجاعت اور بھتیجے پرویز الٰہی نے تھام لی۔ انیس سو تراسی میں پرویزالٰہی نے سیاست کا آغاز ڈسٹرکٹ کونسل گجرات کا چئیرمین منتخب ہو کر کیا۔
انیس سو پچاسی، اٹھاسی، انیس سو نوے اور ترانوے کے انتخابات میں ایم پی اے بنے۔ اس دوران پرویز الٰہی لوکل گورنمنٹ اور رورل ڈویلپمنٹ کے صوبائی وزیر بھی رہے
انیس سو ترانوے سے انیس سو چھیانوے کے دوران شہباز شریف کی غیر موجودگی میں پرویز الٰہی پنجاب میں عبوری طور پر قائد حزب اختلاف رہے۔ وفاق میں بینظیر حکومت کی جانب سے ان پر مقدمے بھی قائم ہوئے، اور وہ کئی ماہ اڈیالہ جیل کے مکین رہے
انیس سو ستانوے میں وزارت اعلی ان کی جگہ شہباز شریف کو دئیے جانے پر پرویز الٰہی کے شریف خاندان سے اختلاف ہوئے
لیکن انہوں نے صوبائی ایوان کے سپیکر کا عہدہ قبول کر لیا،، دو ہزار ایک تک وہ اس عہدے پر قائم رہے۔ شریف برادران کی جلا وطنی پر،چودھری برادران نے قاف لیگ کی بنیاد رکھی۔
مشرف دور میں دو ہزار دو کے انتخابات ہوئے تو پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلی بن گئے اور اکتوبر دو ہزار سات تک اس عہدے پر قائم رہے۔
دو ہزار آٹھ میں پرویز الٰہی پہلی مرتبہ ایم این اے، ساتویں مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔ پارٹی نے انہیں وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا تاہم وہ اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے لیکن جلد ہی عہدہ چھوڑ دیا
پیپلز پارٹی حکومت میں پرویز الٰہی گیلانی کابینہ میں دفاعی پیداوار اور صنعت کے وفاقی وزیر رہے۔
دو ہزار گیارہ میں ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور انہیں ملک کا پہلا ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا گیا۔ دو ہزار تیرہ میں بھی پرویز الٰہی ایم این اے کی نشست جیتے۔
دو ہزار اٹھارہ میں پرویز الٰہی ،، ایم پی اے بنے ،،، پنجاب میں تحریک انصاف اور قاف لیگ نے اتحاد کرتے ہوئے انہیں سپیکر کا متشرکہ امیدوار بنایا۔
اس دوران اگست دو ہزار اٹھارہ میں اس وقت کے گورنر رفیق رجوانہ کے استعفے پر وہ عبوری طور پر گورنر پنجاب بھی رہے۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ