نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گائناکالوجسٹ کا رحم!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

چلو تو سہی ٹوائلٹ، دیکھے لیتے ہیں۔ اور آج کچھ مختلف تھا، کچھ لال قطرے۔ ارے بڑا ہوشیار ہے ہمارا رحم، فوراً جان گیا کہ ہم امتحان سے فارغ ہو گئے۔ لگتا ہے دماغ اور رحم میں گاڑھی چھن رہی ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”کمال ہے، گائنی نہ صرف کتابوں میں پڑھ کر مریضوں پہ آزمائی ہے بلکہ اپنے جسم پہ بھی سب کچھ برت ڈالا ہے“

ہم ہنس پڑتے ہیں۔
”تبھی تو وہ باتیں سمجھ میں آتی ہیں جو صرف ڈاکٹر کے سامنے بیٹھنے والا مریض جانتا ہے“
کچھ کتابوں میں پڑھا، کچھ دیس دیس گھوم کر سمجھا، کچھ خود پہ گزر گیا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا پھر۔

ہمارا خیال ہے کہ گائنی فیمنزم کے خیال کے پیچھے یہی رام کہانی تھی اور یہی خیال کہ ہڈ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا جائے۔

اس جسم ناتواں نے بہت کچھ دیکھا اور سہا۔ سو ہوا یہ ہے کہ بات زچگی کی ہو یا اسقاط کی، ماہواری کے درد کا ذکر ہو یا ماہواری کی خونی ناہمواریوں کا، انیستھیزیا کی مشکلات ہوں یا مینوپاز کے مسائل، کتابی علم تو پڑھ ہی رکھا ہے، اس حقیر پر تقصیر کی پوٹلی میں ذاتی تجربات کا تڑکا بھی ہے۔

”ایک بیٹی نے پوچھا کہ چھ ہفتے کا حمل ہے، بچے کے دل کی دھڑکن نہیں آئی، اب ڈاکٹرز رحم کی صفائی بتا رہے ہیں، بتائیے کیا کروں؟“

ارے بیٹی، یہ کہانی بھی موجود ہے ہمارے پاس۔ سنو گی؟

دو ہزار ایک ہمارے لیے ایک مشکل برس تھا۔ چھوٹی سی بیٹی گود میں، دو امتحانوں کی تیاری اور حمل ہو گیا جناب۔ تحریری امتحان پاس کر چکے تھے اور زبانی امتحان کے لیے ہمیں کراچی جانا تھا۔ صبح ہولی فیملی ہسپتال جا کر دن رات مریضوں کو ٹٹولتے اور رات کو کتابوں سے رٹا لگاتے۔

ایسی مصروفیت میں حمل؟ کمال ہے بھئی۔ کیا کریں اب، ہونے والی چیز ہے، ہو گئی، کیا روگ لگائیں جی کو، دیکھیں گے امتحان کے مراحل طے کرنے کے بعد ۔ فوراً ہی تھپکی دے دی اپنے آپ کو کہ کسی بھی فرض سے غافل نہیں تھے۔

مگر جناب ہماری دن رات کی مصروفیت مزاج یار پہ ناگوار گزری سو حمل ہوا اور فوراً غائب بھی ہو گیا۔ مطلب یہ کہ ماہواری رکی، رحم میں بچے کی تھیلی بنی، بچے کا ایک نقطہ سا نظر آیا اور پھر ٹھس۔ بچہ صاحب یہ جا وہ جا، دل کی دھڑکن شروع ہی نہیں ہوئی۔ اچھا بھئی نہیں ہوئی تو کیا کریں؟ کیا فکر ہے، دو بچے موجود ہیں نا آخر۔ لیکن بات اتنی آسان نہیں تھی۔

جب بچے کی تھیلی موجود ہو، بچے کا نشان نظر آئے یا نہ آئے یا اگر نشان ہو اور دل کی دھڑکن نہ بنے، اس صورت حال کو

مسڈ miscarriage
کہتے ہیں۔

مطلب یہ کہ حمل ہوا مگر آگے نہیں بڑھ سکا۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم۔ مگر اس نشانی کا کیا کیا جائے جو بچے دانی میں موجود ہے۔

اس کے لیے دو تین حل ہیں۔ پہلی یہ کہ بے ہوشی دے کر بچے دانی میں موجود خالی تھیلی کو کھینچ کر باہر نکال لیا جائے۔ اسے عرف عام میں رحم کی صفائی/ ڈی اینڈ سی/ سکشن اویکیوشن کہتے ہیں۔ دس منٹ کا آپریشن اور خلاص۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہسپتال داخل کر کے کچھ دوائیں یا تو کھلائی جائیں یا ویجائنا میں رکھی جائیں۔ ان دواؤں کے زیر اثر رحم مشتعل ہو کر سکڑنا شروع کرے اور جو کچھ بھی موجود ہو، اسے نکال باہر کرے۔ اسے آپ منی زچگی سے تشبیہ دے سکتے ہیں کہ درد بھی ویسا ہی اور بلیڈنگ بھی مگر آپریشن کی ضرورت نہیں پڑتی۔

تیسرا حل کچھ مشکل سا ہے۔ رحم میں اس تحفے کو لے کر بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے تاوقتیکہ رحم جوش میں آئے اور اس بلائے جان کو نکال باہر کرے۔ اس میں نہ دوا کی ضرورت اور نہ ہی بے ہوشی کی لیکن کچھ مشکلات ہو سکتی ہیں۔

نہ جانے کتنے دن یا ہفتے انتظار کرنا پڑے۔ نہ جانے کس وقت درد شروع ہوں، خاتون کہاں ہوں، پاس کوئی ہو یا نہ ہو، بلیڈنگ زیادہ ہو گئی تو؟ ہسپتال وقت پہ نہ پہنچ پائے تو؟

ڈھیروں سوال جن کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ جب سر پہ پڑے گی تو پتہ چلے گا۔

خیر جناب تشخیص ہو گئی کہ حمل میں صرف تھیلی ہی ہے، تب سینیئرز نے کہا کہ کروا لو صفائی۔ ابھی وائیوا یعنی زبانی امتحان میں تین ہفتے باقی ہیں کیا اسے لیے لئے پھرو گی؟

کیا کروں؟ صفائی کرواؤں یا گولیاں کھاؤں؟ جو بھی ہوا، کتابیں تو بند کرنی پڑیں گی، ٹیمپو ٹوٹے گا، وہ جو ذہن میں ایک فلم چل رہی ہے سوال و جواب کی جو نیند کے دوران بھی نہیں رکتی، وہ بند ہو جائے گی، گاڑی پٹڑی سے اتر جائے گی۔ نا بابا نا یہ منظور نہیں۔ بھاڑ میں جائے حمل اور بچے دانی کی صفائی، جو بھی ہوا، دیکھا جائے گا، ابھی امتحان کی تیاری میں لگی رہو منی بہن۔ یہ فیصلہ ہم نے اوائل دسمبر میں کیا۔

ساتھی ڈاکٹرز اور سینئرز نے بار بار تنبیہ کی کہ امتحان اور سفر کا معاملہ ہے، ابھی وقت ہے سو فارغ ہو لو۔ مگر ہماری سوئی ایک نہ پہ اٹک چکی تھی۔ ہم گل محمد صاحب کے ہاتھ پہ غائبانہ بیعت کر چکے تھے۔

گھر میں تو کوئی تھا نہیں جو ان مسائل پہ ہماری رائے تبدیل کرتا۔ اماں، آپا، صاحب کا راگ کم وبیش ایک جیسا ہی ہوتا تھا، دیکھ لو جو تمہیں مناسب لگے، ڈاکٹر تو تم خود ہو، ہم کیا بتائیں؟ افوہ کیا مصیبت ہے بھئی، ڈاکٹر انسان نہیں ہوتا کیا؟ جسم کی تکلیف تو اسی طرح ہے نا جیسی کسی بھی عورت کو ہو۔ افسوس ڈاکٹری نے ناز انداز کا وہ موقع بھی ہم سے چھین لیا جو کسی بھی عام عورت کے حصے میں آ سکتا ہے۔

پڑھتے پڑھتے جونہی محسوس ہوتا کہ کمر اور پیٹ میں کچھ ہو رہا ہے، بھاگ کر ٹوائلٹ پہنچتے کہ کیا خبر ہے؟ مگر وہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔ یہ کھیل دسمبر کی انیس تک جاری رہا۔ لک چھپ ہمارے درمیان اور رحم کے بیچ تھی۔ ویسے دل سے ہم یہ چاہتے تھے کہ جو بھی ہو، امتحان کے بعد ہو۔

خیر جناب، مریضوں میں دن رات گزارنے اور ڈھیروں کتابوں کا رٹا مارنے کے بعد انیس دسمبر کا دن آ گیا اور ہم کراچی کی طرف بمعہ اہل و عیال روانہ ہوئے۔ چھوٹی بچی دودھ پیتی تھی، بڑی بچی اسے بہلاتی تھی اور صاحب سپروائزر تھے۔

بیس دسمبر کو کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز میں حاضری دی، طریقہ کار سمجھا۔ پہلا امتحان اکیس کو تھا جو سب امیدواروں نے اکٹھے دیا۔ دوسرے امتحان کے لیے سب کو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا، ہمارا نام آخری گروپ میں آیا یعنی چوبیس دسمبر۔ ایک بار سوچا کہ گروپ تبدیل کروانے کی درخواست کر لیں۔ پھر سوچا، کاتب تقدیر نے اگر چوبیس کو ہمیں بلایا ہے تو ایسے ہی سہی۔

چوبیس کو امتحان دینے کے بعد

دوپہر میں فارغ ہوئے۔ اعلان ہوا کہ شام کو نتیجہ بتایا جائے گا یعنی ہاتھ میں کرتوتوں کی تفصیل۔ جو لوگ نزدیک ٹھہرے تھے وہ شام کو آنے کا کہہ کر چلے گئے۔ ہم ملیر کینٹ سے آئے تھے سو وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔

چائے پی، سینڈوچ کھایا، کچھ دعائیں مانگیں، دل کی دھڑکن قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ دیکھیے برسوں کی شدید محنت کیا گل کھلاتی ہے؟ دو ہزار اکیس میں موبائل فون عام نہیں تھے کہ اماں سے دل کی لگی کہتے سنتے۔ بس تصور میں ہی مخاطب کر کے کہہ دیا، ماں، مصلے پر بیٹھی رہنا شام تک۔

ابھی لائبریری میں ہی بیٹھے تھے کہ کمر اور پیٹ میں پھر درد کی لہر اٹھی۔ کیا ہے بھئی، جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں دو چار دن اور سہی۔ ہم نے اپنے رحم کو تسلی دیتے ہوئے تھپتھپایا۔

چلو تو سہی ٹوائلٹ، دیکھے لیتے ہیں۔ اور آج کچھ مختلف تھا، کچھ لال قطرے۔ ارے بڑا ہوشیار ہے ہمارا رحم، فوراً جان گیا کہ ہم امتحان سے فارغ ہو گئے۔ لگتا ہے دماغ اور رحم میں گاڑھی چھن رہی ہے۔

خیر کیا ہو سکتا ہے اب شام تک تو بیٹھنا ہی ہے۔ شام کا پروگرام بھی طے ہو چکا تھا، ہمیں حیدر آباد جانا تھا۔

بات یوں تھی کہ ہماری عزیز از جان چھوٹی بہن اور شوہر ان دنوں حیدر آباد میں پوسٹڈ تھے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اتنی دور آ کر ہم بہن سے ملے بنا واپس چلے جائیں۔ سو ہمارے بہنوئی ہمیں لینے کے لیے آ رہے تھے۔

شام ہو گئی۔ کالج کے لان میں سب امیدوار اکٹھے ہوئے۔ نامہ اعمال کی صورت میں لفافے بٹے۔ کسی نے کھول کر خوشی سے چیخیں ماریں تو کسی کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

ہم لفافہ پکڑ کر کافی دیر اسے گھورتے رہے۔ کھولنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اس لفافے میں ہمارے بچوں کی زندگی کے قیمتی لمحات جو ہم نے ان سے دور رہ کر گزارے تھے اور بے شمار رت جگے بند تھے۔

ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑا کر دیکھا تو پارکنگ لاٹ میں ایک گاڑی نظر آئی جہاں دو بچے اور دو مرد حضرات موجود تھے۔ سست روی سے گاڑی کی طرف چلنا شروع کیا، آٹھ سالہ ماہم ہمیں دیکھ کر دوڑتے ہوئے پاس آئی، امی، امی، کیا ہوا؟ پاس ہو گئیں نا۔

ہم نے سوچا ابھی کچھ دیر اور یہ کھیل کھیلا جائے، نہیں بیٹا، فیل ہو گئی۔
بچی کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ بے یقینی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
بس بیٹا، امتحان بہت مشکل تھا، بہت کم لوگ پاس ہوئے۔
لیکن امی آپ تو۔ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

ہر کوئی بے یقینی سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ صاحب کی نظر جب لفافے پر پڑی تو کہنے لگے، اس میں کیا لکھا ہے؟

ماہم نے لفافہ ہمارے ہاتھ سے اچک لیا۔ ارے یہ تو ابھی بند ہے، آپ نے کھولا ہی نہیں، پھر کیسے؟
بچی نے بے تابی سے لفافہ کھولا۔ ایک کڑکڑاتا ہوا کاغذ نکلا۔ عبارت کا عنوان تھا، کانگریچولیشنز!
امی آپ جھوٹ بول رہی تھیں، بچی منہ بسورتے ہوئے بولی۔
بیٹا میں نے سوچا لفافہ کھولنے سے پہلے تھوڑا مذاق ہی کر لوں، کیا خبر لفافے کے اندر کیا ہو؟

ماہم گول گول گھومتی تھی اور اونچی آواز میں گاتی تھی، میری امی پاس ہو گئیں، میری امی بڑی ڈاکٹر بن گئیں۔

ہم شیری کو گود میں لے کر چومتے تھے جو ہمکتے ہوئے جانتی ہی نہیں تھی کہ اس کی ماں نے کون سی منزل سر کی ہے؟

سب بہت خوش تھے اور حیدرآباد کی طرف رواں دواں، جہاں ہماری بہن بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔

کل ڈرائیور آپ کو سیہون شریف لے جائے گا۔ میں نہیں جا سکوں گا، دن میں میٹنگ ہے اور رات کو کراچی کے لیے نکلوں گا۔ بہنوئی پروگرام بتا رہے تھے۔

ہم چپ چاپ سنتے رہے، واپسی کی فلائٹ دو دن بعد تھی اور اب آرزو تھی کہ بخیریت واپس پہنچ جائیں۔ پنڈی سے جو کچھ لے کر آئے ہیں، وہیں واپس پہنچ جائے تو اچھا ہے۔ سرخ قطروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا مگر ہماری ڈھٹائی عروج پر تھی۔

بہن خوش، ہم خوش، بچے خوش اب کیا رنگ میں بھنگ ڈالیں۔ جہاں اتنا صبر کیا، دو دن اور سہی۔

اگلا دن سیہون شریف کی سیر میں گزر گیا۔ شام کو واپسی ہوئی تو بہنوئی کراچی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اگلے دن شاپنگ کرنی تھی اور پھر واپسی۔ ریشم گلی سے شاپنگ کیے بنا تو واپس نہیں جا سکتے تھے نا۔

رات ہوئی، تھکے ہارے سب سو گئے۔ نصف شب کا عالم تھا جب کسی نے پیٹ میں چھری گھونپ دی۔ ہم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے، اف یہ کیا ہے بھئی اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں۔ نہ جانے کیا تیز دھار شے تھی جو پیٹ کو کاٹتے ہوئے کمر کی طرف نکل جاتی اور پھر کمر کو زخمی کرتے ہوئے پیٹ کو واپس آتی۔ ہم بستر پہ لوٹ پوٹ ہوتے تھے اور منہ سے دبی دبی آہ و بکا۔ کچھ ہی دیر میں سب جاگ گئے۔ بہن ہماری حالت دیکھ کر رونے لگیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ گھر میں گاڑی نہیں ہسپتال کیسے جائیں؟ شہر اجنبی، نصف شب کا عالم، سواری کہاں سے منگوائیں؟ صاحب ٹیکسی کی تلاش میں نکلے لیکن کہاں جناب؟ ہماری بہن نے گھبرا کر قریبی ہمسائے کے دروازے پہ دستک دے ڈالی۔ علم ہوا کہ ان کے شوہر بھی گاڑی سمیت گھر نہیں ہیں۔

ہم بری طرح تڑپ رہے تھے۔ رحم ہمیں مزا چکھانے پہ تلا ہوا تھا۔ کاش کوئی درد کم کرنے والا انجکشن ہوتا؟ ہم نے سوچا۔ مگر لگاتا کون؟ خیر انجکشن کا نام ہم نے لکھ دیا اور ہمسائے کا لڑکا موٹر سائیکل پر جا کر لے بھی آیا۔ بہن انجکشن پکڑ کر دوڑی چلی آئیں، یہ اب کیسے لگے گا؟

ہم نے جواب دیے بغیر سرنج میں دوا بھری، دائیں ہاتھ سے سرنج پکڑی اور بائیں بازو میں گھونپ دی۔

پیٹ سے اٹھنے والے درد کی شدت اس قدر تھی کہ ایک سرنج کی نوک کیا اہمیت رکھتی اس کے سامنے۔ جو دوا اندر گئی وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی تھی۔

اب صورت حال یوں کہ ہم بستر پر لوٹنیاں لگا رہے ہیں، بہن روتی ہیں اور شوہر پوچھتے ہیں کیا کروں؟ فلک کو رحم تو نہ آیا، رحم ہی ہماری آہ و بکا سن کر پسیجا۔ چلو بھئی مزا چکھ لیا بی بی نے اپنے فیصلوں کا اور ہٹ دھرمی کا، یہ لو چھوڑے دیتے ہیں تمہاری جان، یہ رہی تھیلی مکمل خارج اور درد میاں چلو بھاگو تم۔

درد ہلکے ہوتے ہوتے تھم گئے۔ خون کا دریا بھی ٹھہر گیا، سب کی جان میں جان آئی۔ بہن نے گرم گرم دودھ پتی پلائی اور ہماری آنکھ لگ گئی۔

اگلے دن کمزوری اس قدر کہ بستر سے اٹھنا مشکل مگر واپس تو جانا تھا سو اللہ کا نام لے کر چل ہی پڑے۔ اہل پنڈی کے لئے ہمارے پاس دو خبریں تھیں، امتحان میں کامیابی اور رحم کا کرم جس نے بیس دن ہمارا ساتھ دے کر پھر ناکوں چنے چبوا دیے۔

چلتے چلتے سن لیجیے کہ پنڈی پہنچنے کے بعد الٹراساؤنڈ پہ خالی رحم اطمینان سے سوتے ہوئے ملا تھا۔ آخر گائناکالوجسٹ کا رحم تھا، چکر دینا تو آتا ہی تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author