نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تحریک انصاف کی کامیابی اور مستقبل کی سوچ||ظہور دھریجہ

معاملہ رفع دفع ہو گیا اور پولنگ کا سلسلہ جاری رہا ۔مریم نواز نے ملتان میں جلسہ کیا تو جلسہ کے میزبان سلمان نعیم کے والد کو سٹیج پر نہ جانے دیا گیا ۔ اس پر ان کو دُکھ اور افسوس ہوا

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف نے میدان مار لیا ۔ضمنی الیکشن کے نتائج حیران کن تو نہیں البتہ توقع کی جا رہی تھی کہ مقابلہ برابر رہے گا ۔ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔20میں سے 15تحریک انصاف ،4مسلم لیگ اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہو گیا ۔ الیکشن کے آغاز سے ہی سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں ،دونوں جماعتوں کی طرف سے بڑے بڑے جلسے کئے گئے ۔ عمران خان کے جلسے بھر پور تھے ، گیارہ جماعتوں کے اتحاد نے بھی جلسوں کو بھرپور دکھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ پی ڈی ایم کا ملتان کا جلسہ بہت بڑا جلسہ تھا لیکن میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جلسوں اور پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں فرق ہوتا ہے ۔ ملتان میں اچھی روایت یہ قائم ہوئی کہ مخدومزادہ زین قریشی سے ہارنے والے سلیمان نعیم نے نہ صرف یہ کہ شکست کو خوشدلی کے ساتھ تسلیم کیا بلکہ آگے بڑھ کر زین قریشی کو مبارک باد دی ۔ملتان کا حلقہ اہمیت کا حامل تھا اس مقابلے کو براہ راست عمران خان اور نواز شریف کا مقابلہ قرار دیا جا رہا تھا اور مقامی طور پر سب کہتے تھے کہ یہ مقابلہ سلمان نعیم اور زین قریشی کے درمیان نہیں بلکہ شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہے ۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما ہونے کے علاوہ اپنے بیٹے کی زبردست انتخابی مہم چلائی اور الیکشن کمپین کے دوران سرائیکی میں خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں تو اپنے بیٹے کی مہم چلا رہا ہوں مگر یوسف رضا گیلانی ’’پرائی جنج احمق نچے‘‘ والا معاملہ کئے ہوئے ہیں ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی یہ تقریر سوشل میڈیا پر بہت وائر ہوئی ہے اور اسے اب تک لاکھوں افراد دیکھے چکے ہیں ۔ پولنگ کے دوران تبصرے شروع ہو گئے تھے ،(ن) لیگ کے ایک دوست نے یہ کہا کہ سلمان نعیم اگر ہارے تو تحریک انصاف نہیں بلکہ (ن) لیگ کی مقامی قیادت کی وجہ سے ہاریں گے ۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ وجہ وہی ہے جو اسی حلقے سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی شکست کا باعث بنی تھی کہ ان کو سلمان نعیم نے نہیں تحریک انصاف نے ہروایا تھا ۔ یہ مکافاتِ عمل ہے سیاست کے سینے میں دِل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہی ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف نے اس لئے شکست دلوائی کہ ان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے سے روکنا تھا اور سلمان نعیم کو بھی اس لئے پیچھے دھکیلا گیا کہ وہ کامیابی کے بعد (ن) لیگ کے مقامی بڑوں سے اگلی صف میں نہ چلا جائے ۔ایک واقعہ یہ بھی ہوا ہے کہ ملتان کے ایک صنعتکار نے عین وقت پر (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کی اور شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ان کی فیکٹری میں ووٹروں کو پیسے دیکر خریدا جا رہا ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی فیکٹری پہنچ گئے ،فیکٹری مالکان نے تردید کی ، معاملہ رفع دفع ہو گیا اور پولنگ کا سلسلہ جاری رہا ۔مریم نواز نے ملتان میں جلسہ کیا تو جلسہ کے میزبان سلمان نعیم کے والد کو سٹیج پر نہ جانے دیا گیا ۔ اس پر ان کو دُکھ اور افسوس ہوا ۔ کچھ لوگ یہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ والدین کا دل نہیں دکھانا چاہیئے ۔ (ن) لیگ کی شکست مہنگائی، بے روزگاری اور غریب کش فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔غریب ووٹرز نے ووٹ کی طاقت سے بدلہ لیا ۔(ن) لیگ کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقتدار ملنے کے ساتھ ہی (ن) لیگ نے اقتدار اپنے پاس رکھ لیا ،شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور حمزہ شہباز وزیراعلیٰ، اس بناء پر اتحادی جماعتوں کی الیکشن میں دلچسپی صرف واجبی رہ گئی۔ پورے الیکشن کے دوران مقابلہ صرف بلے اور شیر کا نظر آیا۔ تحریک لبیک والے کہتے ہیں کہ دھاندلی کے ریکارڈ توڑے گئے حالانکہ ابھی تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ اس الیکشن مکیں اداروں اور الیکشن کمیشن کا کردار غیر جانبدار نظر آیا ۔ اس کی وجہ عمران خان کی سخت مزاحمتی تحریک ہے ۔ الیکشن کمیشن اور اداروں نے غیر جانبدار رہ کر اچھا کیا ورنہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہو جاتا ۔ مریم نواز کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم نتائج کو تسلیم کرتے ہیں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ،عمران خان نے تاریخی جملہ بولا ہے کہ ووٹر نے دبائو کو مسترد کر دیا ۔ چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کہیں گے تو دو سیکنڈ میں اسمبلی توڑ دوں گا۔ ملتان میں پینافلیکس اس نعرے کے نظر آئے کے زین قریشی مستقبل کا وزیر اعلیٰ ۔ لیکن یہ منزل دور نظر آتی ہے ۔ اگر اسمبلیاں مدت پوری کرتی ہیں تو آئندہ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی ہوگا اور (ن) لیگ میں ملک احمد خان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ وہ ہمیشہ معقول اور متوازن بات کرتے ہیں ۔ ان کے مخالف بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ملک احمد خان نے درست بات کی کہ شکست کے بعد ہمیں حکومت میں رہنے کا حق حاصل نہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کی سی ای سی میٹنگ طلب کی ہے جبکہ آصف زرداری نے کہا ہے کہ الیکشن جمہوریت کو آگے لے جانے کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ بلاشبہ غیر جانبدار الیکشن اور جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔ نئے الیکشن کے بعد آئندہ کیلئے سوچنا ہوگا ۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ پورے ملک میں نئے الیکشن ضروری ہیں یا اسی سیٹ اپ کو آگے بڑھایا جاتا ہے ۔ موجودہ الیکشن جماعتوں کی آئندہ پوزیشن کو بھی وضح کرتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان کو نوجوانوں نے تبدیلی کا اشارہ سمجھا تھا مگر ان کا ساڑھے تین سال کا دور ناکامی کا دور تھا جس سے نوجوانوں میں مایوسی بھی پیدا ہوئی مگر ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا ۔اس دوران (ن) لیگ کی بدقسمتی کہ اس نے اداروں سے گٹھ جوڑ کرکے عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا مگر یہی بات عمران خان کے سیاسی فائدہ میں چلی گئی کہ ان کیخلاف نفر ت کی لگنے والی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور نفرت نے دوسری طرف رُخ کر لیا ۔عمران خان کو سابقہ غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیئے اور جن وعدوں پر وہ برسر اقتدار آئے تھے آئندہ ان وعدوں کی تکمیل کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے ۔ 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ ناصرف ان کی جماعت کے لئے بلکہ پاکستان کی بقا اور استحکام کیلئے بھی نہایت اہم ہے۔مشہور قول کو یاد رکھنا چاہیئے کہ سیاست دان الیکشن اور لیڈر مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author