محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادہ یہی تھا کہ بیس حلقوں کے حوالے سے تفصیلی تجزیہ دیا جائے کہ کہاں کیا پوزیشن ہے؟ پھر خیال آیا کہ کل پندرہ جولائی کو الیکشن مہم ختم ہورہی ہے۔ اصولی طور پر جب تمام جلسے جلوس بند ہوجائیں، تب حلقوں کی حتمی صورتحال بتائی جائے۔
آج ضمنی انتخابات کے حوالے سے قارئین کے ذہنوں میں ابھرنے والے پانچ اہم سوالات پر بات کرتے ہیں:
کیا انتظامیہ اثرانداز ہوئی ؟
اس کا جواب ہاں میں ہے۔ پنجاب کی صوبائی انتظامیہ نے اپنی ”تابناک“ روایات کو جاری رکھتے ہوئے وہی کردار ادا کیا جو ماضی میں یہ کرتے رہے۔ سرکاری مشینری حکومتی امیدواروں کی بھرپور امداد کررہی ہے، ہر حلقے میں بہت سے ترقیاتی کام، گلی سڑکوں کی مرمت، بجلی کے کھمبے، ٹرانسفارمرز وغیرہ کی فراہمی، دیہی علاقوں میں سکول، دیگر مراکز کے لئے فوری گرانٹ وغیرہ یہ سب چلتا رہا ہے۔
متعدد حلقوں سے یہی رپورٹیں ملی ہیں۔ حد یہ ہے کہ کسی نے بجلی کے میٹر کے لئے درخواست سال پہلے بھی دی تھی، اسے فوری میٹر ایشو کردیا گیا۔ووٹوں کی خریداری بھی چل رہی ہے، مگر یہ انفرادی سطح پر ہے۔
سب سے بھدا اور بھونڈا رویہ انتظامیہ کی جانب سے مختلف مقامی شخصیات پر دباﺅ ڈال کر انہیں پی ٹی آئی کی حمایت سے باز رکھنا اور ن لیگی امیدوار کی حمایت پر مجبور کرنا ہے۔ کئی جگہوں سے لوگوں نے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ مقامی انتظامی افسران اُن پر دباﺅ ڈال رہے ہیں۔ بعض جگہوں پر آزاد امیدواروں کو مختلف مقدمات، پرانے پرچے یا کسی اور دھمکی کے ذریعے دست بردار کرادیا گیا۔
بعض جگہوں پر شکایات ملی ہیں کہ پرو تحریک انصاف کے ووٹ دور دراز کے پولنگ سٹیشنوں میں شفٹ کر دیے گئے، اسی طرح الزام لگایا گیا کہ ن لیگی ووٹ بینک کا کچھ حصہ مبینہ طور پر قریبی حلقوں سے ضمنی الیکشن والے حلقوں میں شفٹ کیا گیا ہے۔ اس بار پی ٹی آئی حقیقی معنوں میں اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کر رہی ہے، بے دست وپا۔
کیا لوٹے عبرت کی مثال بن سکیں گے؟
سردست تو اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا، سترہ جولائی کی شام پتہ چلے گا، مگر زمینی حقائق آئیڈیلسٹ لوگوں کو پسند نہیں آئیں گے۔ دو وجوہات ہیں۔ ایک تو بیس میں سے دس آزاد جیت کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، یعنی ووٹ ان کے اپنے تھے، عمران خان کے نہیں۔ اس لئے وہ منحرف ہوئے ہیں تو ان حلقوں میں کچھ زیادہ ردعمل نہیں۔ جو دس پارٹی ٹکٹ پر جیتے تھے، ان میں سے دو الیکشن ہی نہیں لڑرہے ۔ یوں ساٹھ فیصد کے قریب معاملہ تو کم ہوگیا۔
پھر زیادہ تر حلقے دیہی ہیں، جہاں لوگ برادری، دھڑے کے ساتھ جاتے ہیں، وہاں کے جیتنے والے ارکان اسمبلی بھی پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں، جس کی ہوا دیکھی، اس کا ٹکٹ لے لیا۔ ان کے دھڑے کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا، بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ اچھی ڈیل کر لی گئی۔ یہ ہماری روایتی سیاست کا ایک سیاہ پہلو ہے۔
البتہ اس بار یہ ہوا کہ سوشل میڈیا اور عمران خان کے جارحانہ بیانیہ کی وجہ سے نئی نسل میں ردعمل ہوا ہے اور خالص دیہی علاقوں میں بھی پہلی بار بڑے طاقتور امیدواروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ دریا خان، بھکر جیسے خالص دیہی حلقے میں نوانی سردار کو مختلف بستیوںمیں نمایاں لوگوں سے یہ سننا پڑا کہ ہم اپنا ووٹ تو ڈالیں گے دوسروں کو بھی کہیں گے، مگر نوجوان ہمارے قابو میں نہیں۔ کئی جگہوں پر منحرف اراکین کو نوجوانوں نے کھری کھری بھی سنائیں۔ ابھی یہ ٹرینڈ مگر ایسا موثر نہیں ہوا کہ الیکشن ہی یک طرفہ ہوجائے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ میں اس فیکٹر سے انکار نہیں کر رہا،صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ ردعمل ہوا مگر غیر معمولی نہیں تھا۔
عمران خان کو نقصان پہنچانے والوں پر کیا گزری؟
عمران خان کو سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ نقصان جہانگیر ترین گروپ اور عبدالعلیم خان نے پہنچایا۔ عبدالعلیم خان تو خیر الیکشن ہی نہیں لڑ رہے ، اگرچہ اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ن لیگی امیدوار کی حمایت ضرور کر رہے۔ جہانگیر ترین کو البتہ ایک اعتبار سے جھٹکا ضرور پہنچا ہے۔ جہانگیر ترین کا سیاسی گڑھ لودھراں ہے، وہاں پر دو نشستوں پر الیکشن ہے۔ جہانگیر ترین کے دونوں امیدواروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک حلقے میں ان کا امیدوار یقینی شکست سے دوچار ہے، جبکہ دوسرے حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار کمزور ہے، مگر وہاں اصل مصیبت آزاد امیدوار بن چکا اور وہ جیت سکتا ہے۔
دراصل جہانگیر ترین کے خلاف مقامی سطح پر ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک ہوچکی ہے۔ پی ٹی آئی نے تو خیر جہانگیر ترین کی شدید مخالفت کرنا ہی تھی، ن لیگ کا مسئلہ یہ ہوا کہ اس کے اہم مقامی رہنما عبدالرحمن کانجو ایم این اے اور صدیق بلوچ ایم پی اے جہانگیر ترین کے سخت مخالف ہیں اور اندرون خانہ ان کی کوشش ہے کہ ترین کے امیدوار ہار جائے ۔
پانچ چھ سال قبل جب جہانگیر ترین عدالتی فیصلے کے بعد نااہل ہوئے اور ان کی جگہ ان کے بیٹے علی ترین نے الیکشن لڑا تو تب عبدالرحمن کانجو، صدیق بلوچ، پیر اقبال شاہ، پیر رفیع الدین شاہ وغیرہ نے مل کر ایسا اتحاد بنایا جس نے علی ترین کو شکست سے دوچار کر دیا۔ جہانگیر ترین کا یہ ممی ڈیڈی سٹائل کا بیٹا اس شکست کے بعد سیاست ہی سے بددل ہوگیا۔ اب یہ سب کسی نہ کسی طرح اعلانیہ، خفیہ طور پر پھر جہانگیر ترین کے امیدواروں کو ہرانا چاہتے ہیں۔ سترہ جولائی طے کرے گا کہ ترین کے ہاتھ کیا آیا؟ یاد رہے کہ اس کے گروپ کے جو لوگ ن لیگ میں جا چکے ہیں، وہ اب ن لیگی ہی کہلائیں گے کہ ان کوعام انتخابات میں ٹکٹ شریف خاندان سے ملنا ہے ، ترین سے نہیں۔
کیا تحریک انصاف نے ماضی سے کچھ سیکھا؟
انتخابی مہم کی حد تک تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ عمران خان نظریاتی کارکنوں کی بات کرتے رہے ہیں، مگر ٹکٹ انہوں نے ہر جگہ اچھے ، مضبوط اور تگڑے امیدواروں کو دئیے ۔ جن کا خاندان پندرہ بیس سال سے سیاست میں ہے، جو دو چار الیکشن لڑ چکے، سابق رکن اسمبلی یا اس کے بیٹے بھتیجے ہیں اور پنجابی محاورے کے مطابق ڈنڈی پٹی(زور جبر) کی سیاست کر سکتے ہیں۔ بھکر میں عمران خان نے اپنے کزن عرفان اللہ خان کو ٹکٹ دیا، حالانکہ اس فیملی سے ان کے سیاسی اختلافات چل رہے تھے اور عرفان اللہ کے بھائی حفیظ اللہ نیازی اور انعام اللہ نیازی عمران خان کے سخت مخالف ہیں۔
الیکشن کمپین بھی عمران خان نے بھرپور طریقے سے چلائی ، کارکنوں کو انگیج کیا، مقامی رہنماﺅں کومتحرک کیا، اپنے ارکان اسمبلی کی ڈیوٹیاں لگائیں ،اپنی پارٹی کے ناراض ہو کر آزاد کھڑے ہونے والے امیدواروں کو بنی گالہ یا لاہور زماں پارک بلا کر بٹھایا اور آئندہ کسی اور جگہ کھپانے کی یقین دہانی کرائی ۔یہ وہ کام ہیں جو عمران خان پہلے نہیں کرتے تھے ۔ یہ تکنیکس ن لیگ کی سمجھی جاتی تھیں۔
الیکشن ڈے کے حوالے سے بھی تحریک انصاف نے خاصا تفصیلی پلان تیار کیا ہے ، ہر پولنگ سٹیشن میں مختلف لوگوںکی ڈیوٹیاں لگیں گی، ہر جگہ ایک وکیل لازمی ہوگا، ہر وہ طریقہ سوچا جا رہا ہے جس سے دھاندلی کے کسی ممکنہ طریقے کو کاﺅنٹر کیا جا سکے۔ مطلب یہ کہ الیکشن ڈے مینجمنٹ اور سائنس اب تحریک انصاف بھی اپنی بساط کی حد تک استعمال کرے گی۔ یہ تجربہ ان کے آئندہ عام انتخابات میں بھی کام آئے گا۔
کیا پولیٹیکل انجینئرنگ ہوگی؟
یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جو ہر باخبر سیاسی کارکن اور ہر فعال اخبار نویس ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔ اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں۔ سترہ جولائی ہی اس کا شافی جواب دے گا۔
البتہ اہم حلقوں کی جانب سے نیوٹرل رہنے کی باتیں سب کے سامنے ہیں۔ اس پر یقین کرنا چاہیے کہ ملک کے بحرانی حالات کا حل بھی اسی سے پھوٹتا ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی لڑائی خود لڑنے دینا چاہیے، کسی بھی دوسرے ادارے کو اس سے باہر رہنا چاہیے ۔
ایک سوال البتہ سب کے ذہنوں میں ابھرتا ہے اور اس پر جس قدر غور کریں، اتنا ہی شبہات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر پی ٹی آئی یہ الیکشن جیت گئی، یعنی تیرہ سیٹیں اسے مل گئیں تو وہ پنجاب میں حکومت بنا لے گی۔ تب وفاقی حکومت کے پاس کیا رہ جائے گا؟ کے پی اور پنجاب تحریک انصاف، سندھ پی پی پی اور بلوچستان باپ کے پاس گیا تو پھرن لیگ کو کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں۔
اسی سے منسلک سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی یہ جیت اگلے عام انتخابات کی راہ ہموار کر دے گی۔ ان حالات میں عام انتخابات جلد ہوئے تو پھر پی ٹی آئی ہی فاتح ٹھہرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ برداشت کر لیا جائے گا؟اس سوال کے جواب ہی میں بہت کچھ مضمر ہے۔
بہرحال ہمیں امید کرنی چاہیے کہ غیر سیاسی قوتیں غیر جانبدار رہیں گی اورسیاسی حکومت دھاندلی نہیں کرے گی اور یوں شفاف ، قابل اعتماد الیکشن منعقد ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر