آسیہ انصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’اسما ایک سپر لیڈی ہیں، میں ان سے پیار بھی کرتا ہوں اور مجھے ان پر بہت فخر بھی محسوس ہوتا ہے۔ ان کی خوش اخلاقی، ان کی مسکراہٹ ہر شخص کو بدل ڈالتی ہے۔ ڈائیلاسز سے آپریشن اور پھر اس کے بعد چھ ماہ جو میں نے آرام سے گزارے، وہ اسما کے مثبت رویہ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں کب کا ہار چکا ہوتا۔‘
اپنی شریک حیات کے لیے پیار کے اظہار میں کہے گئے یہ جملے کسی فلم کا ڈائیلاگ نہیں بلکہ ایک شوہر کی اپنی بیوی سے سچی محبت کا اعتراف ہیں۔
36 سال کے محمد عمر خان کی اپنی اہلیہ اسما سراج سے بے انتہا چاہت یکطرفہ نہیں بلکہ اسما حقیقتاً کچھ ایسا ہی کر گزری ہیں جو ہمیں سوہنی ماہیوال یا شیریں فرہاد کی عشقیہ داستانوں میں ملتا ہے۔
اسما نے اپنے شریک حیات کی زندگی بچانے کے لیے ان کو اپنا ایک گردہ عطیہ کیا اور یہی نہیں بلکہ خود ڈونر بننے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا اور اس کی تکمیل کے لیے انھوں نے دن رات دعائیں بھی کیں۔
اسما کہتی ہیں کہ ’جب ڈاکٹر نے بتایا کہ میرا گردہ عمر کے جسم نے قبول کر لیا تو سمجھیں ہر درد اور پریشانی میں بالکل بھول گئی۔ عمر ہمیشہ شکریہ ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے زندگی کے اس موڑ پر میرا ساتھ دیا۔‘
اس سے پہلے کہ ہم آپ کو ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے اس جوڑے کی محبت کا مزید احوال سنائیں، پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ اسما تک ہم کیسے پہنچے۔۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں سوشل میڈیا پر اسما سراج نامی ایک صارف کی پوسٹ سے علم ہوا کہ انھوں نے اپنے شوہر عمر کو نہ صرف اپنا ایک گردہ عطیہ کیا ہے بلکہ ہنسی خوشی اس مشکل آپریشن سے گزر کر اب وہ دوسروں کو بھی ڈونر بننے سے متعلق آگاہی فراہم کر رہی ہیں۔
ہم نے اسما اور عمر سے رابطہ کیا اور ان کی صحتیابی کے بعد ان سے ملنے کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع ان کے گھر پہنچے جہاں گردہ عطیہ کرنے کی مشکل سرجری سے گزرنے والی اسما اپنے دو بچوں کے ساتھ نہایت خوش دلی سے ہمارے استقبال کے لیے موجود تھیں۔
شوہر کو اپنا گردہ دینے کے فیصلے کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے اسما نے بتایا کہ ان کی شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔ شادی سے ایک سال پہلے ان کے شوہر عمر کو گردے میں مسئلے کا سامنا ہوا تاہم اس وقت ان کے گردے 80 فیصد کام کر رہے تھے اور ڈاکٹر نے دوائیاں اور احتیاط بتائی ہوئی تھیں لیکن اس سال جنوری میں عمر کو کورونا ہوا جس کے بعد ان کے گردے شدید متاثر ہو گئے۔
’جب مختلف ٹیسٹ کروائے تو پتا چلا کہ عمر کے گردوں کو نقصان پہنچا ہے۔ میں نے سب سے پہلے رپورٹ دیکھی تو سوچا کہ ابھی عمر کو نہ بتاؤں کیونکہ وہ بہت زیادہ سٹریس لے لیں گے، میں چاہ رہی تھی کہ میں، ڈاکٹر اور عمر ساتھ بیٹھے ہوں تو اس وقت انھیں پتا چلے۔‘
’لیکن میں نے اپنے طور پر اس بارے میں ریسرچ کرنا شروع کر دی کہ کریئٹینائن لیول (گردوں سے فاسد مادے کے اخراج کا تناسب) زیادہ ہونے کی صورت میں کیا علاج تجویز کیا جاتا ہے۔‘
’خود ڈونر بننے کے لیے سب سے بڑا مرحلہ اپنے شوہر کو راضی کرنا تھا‘
اسما کے مطابق وہ اپنے شوہر کے علاج کے لیے ان کے ساتھ جب کراچی کے ہسپتال ایس آئی یو ٹی (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ) گئیں تو اس وقت تک ریسرچ کرنے کے بعد وہ خود کو ذہنی طور پر تیار کر چکی تھیں۔
ڈائیلاسز کیونکہ گردوں کی بیماری کا مستقل علاج نہیں اس لیے وہ چاہتی تھیں کہ عمر پر جو بھی مشکلات آنی ہیں وہ جلد سے جلد ختم ہو جائیں۔
ڈائیلاسز کا سن کر عمر پریشان ہوئے تاہم اسما نے اپنے شوہر کو تسلی دی کہ یہ وقتی ہو گا اور وہ جلد ٹرانسپلانٹ (گردوں کی پیوند کاری) کی جانب جائیں گے۔
گردہ ٹرانسپلانٹ میں ڈونر یا گردہ عطیہ کرنے والا ترجیحی طور پر وہ فرد ہوتا ہے جس سے متاثرہ شخص کا خون کا رشتہ ہو تاہم اسما نے اپنے شوہر کو اپنا گردہ عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’سب سے بڑا مرحلہ اپنے شوہر عمر کو راضی کرنا تھا۔ میں اور عمر کزن بھی نہیں تو میں نے بہت دعائیں کیں کہ کسی بھی طرح میرا گردہ عمر کے لیے موزوں ہو اور میں ڈونر بن جاؤں اور پھر ہر مرحلے پر میچنگ ہوتی گئی اور آخر میں سی ٹی سکین کے زریعے گردے کی صحت کو جان کر ڈاکٹر نے بتایا کہ میں ڈونر بن سکتی ہوں۔‘
’ڈاکٹرز بھی ہمیں مذاق میں لو برڈز کہتے تھے‘
اسما سے بات چیت کے دوران ان کے شوہر محمد عمر بھی ہمارے ساتھ گفتگو میں شامل ہو گئے۔
عمر نے ہمیں بتایا کہ جہاں ان کے لیے بیماری زندگی کا مشکل مرحلہ تھی، وہیں یہ فخر بھی تھا کہ خوشی و غم میں ساتھ نبھانے کی دعویدار ان کی اہلیہ اسما حقیقتاً ان کی صحت کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی پیش پیش رہیں۔
’جب یہ پتا چلا تھا کہ آپریشن ہی آخری حل ہے تو مجھے بہت بے چینی تھی، ڈپریشن بھی تھا کہ سرجری کے بعد کیا صورتحال ہو گی۔ میری بیوی مجھے اپنا گردہ دے رہی تھیں تو مجھے اپنے سے زیادہ اپنی بیگم کی فکر تھی، وہ میرا بچپن کا پیار ہیں۔ بچوں کی بھی فکر تھی۔ سوچ رہا تھا کہ اسما اور میں دونوں ہی ایک گردے پر انحصار کریں گے تو آگے جا کر کوئی مشکلات پیش نہ آئیں۔‘
عمر نے اپنے سرجری والے دن کے حوالے سے یادیں شیئر کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ آپریشن سے پہلے ان کی ساری سوچیں ان کی فیملی کے اردگرد ہی گھوم رہی تھیں۔
’میرے آپریشن سے آدھے گھنٹے پہلے اسما آپریشن تھیٹر میں گئیں تو مجھے رونا آ رہا تھا اور میں کافی افسردہ ہو گیا تھا۔ صرف یہی سوچے جا رہا تھا کہ نجانے اسما کے ساتھ اس وقت کیا ہو رہا ہو گا۔‘
’میں نے اپنے آپریشن کے بعد ڈاکٹر سے سب سے پہلے پوچھا کہ اسما کیسی ہیں اور جب آئی سی یو میں ان کو اپنے ساتھ والے دوسرے بیڈ پر دیکھا اور انھوں نے مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا تو میری جان میں جان آئی اور ٹینشن ختم ہوئی۔ جب مجھے میڈیسن کی وجہ سے الگ روم میں رکھا گیا تو میں چاہتا تھا کہ مجھے ایسی جگہ مل جائے جہاں سے میں اپنی بیوی کو سامنے سے دیکھ سکوں۔ یہ سن کر ڈاکٹرز بھی ہمیں مذاق میں لو برڈز کہتے تھے۔‘
’ڈاکٹرز کہتے تھے آپ سے ذیادہ خوش ڈونر ہم نے نہیں دیکھا‘
جہاں عمر کو اپنے آپریشن والے دن خود سے زیادہ اپنی اہلیہ کی فکر تھی وہیں اسما اپنے شوہر عمر کے ساتھ اپنی زندگی ہی نہیں بلکہ اپنے جسم کے اہم عضو یعنی ایک گردہ شیئر کرنے پر بہت مطمئن تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’آپریشن ہوتے وقت ظاہر ہے کہ گھبراہٹ تو ہوتی ہے مگر میرے لیے مجھ سے زیادہ میرے شوہر فکر مند تھے۔ عمر نے ڈاکٹرز سے اپنے بجائے میرے بارے میں پوچھا کہ میں ڈونر ہوں تو سرجری سے پہلے اور بعد میں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ میں بہت مطمئن تھی اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس مشکل مرحلے میں ہم دونوں ایک ساتھ ہیں اور تو اور ڈاکٹرز کے کمنٹ تھے کہ آپ سے زیادہ خوش ڈونر ہم نے نہیں دیکھا۔‘
اسما اپنی سرجری کے بعد اب صحت یاب ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق اب وہ پہلے سے زیادہ اپنا اور اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ڈونر کے حوالے سے ہمارے ہاں غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ میں نے جہاں اس پر ریسرچ کی تھی وہاں یہ بھی جان لیا تھا کہ ایک گردے کے ساتھ صحت مند زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے تو میرے خیال میں دو گردوں کا مقصد یہی ہے کہ ایک کسی کو بھی عطیہ کیا جا سکے۔‘
عمر اپنی بیگم کا ایک گردہ اپنے جسم کے اندر آنے سے خود کو اسما سے اور بھی قریب محسوس کرتے ہیں اور اب وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اسما تو میری بچپن کی محبت ہیں لیکن اس سرجری اور اس ساری صورتحال کے بعد ان سے اور زیادہ محبت ہو گئی ہے۔ صرف میری نہیں بلکہ میرے گھر والوں کی نظر میں بھی اسما کے لیے محبت اور عزت مزید بڑھ گئی ہے۔ اسما نے سب کچھ غیر مشروط کیا۔ اسما کا آگے کیرئیر ہے مگر انھوں نے سب چیزوں پر سمجھوتہ کیا اور بغیر ماتھے پر بل لائے گردہ عطیہ کیا۔‘
’پیشاب میں جھاگ کا زیادہ بننا گردے متاثر ہونے کی علامت ہے‘
اس سے پہلے کہ اب ہم اسما اور عمر کی کہانی کی ہیپی اینڈنگ کی جانب بڑھیں ہم جان لیتے ہیں کہ ہم میں سے کون کون بوقت ضرورت اپنا ایک گردہ اپنے کسی پیارے کو عطیہ کر سکتا ہے اور ہمیں اپنے گردوں کے فعل کو درست رکھنے کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر طارق علی ٹرانسپلانٹ نیوفرالوجسٹ ہیں اور پچھلے بارہ سال سے کراچی کے ہسپتال ایس آئی یو ٹی (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
ان کے مطابق گردے کیونکہ خون سے فاسد مادوں کو فلٹر کرنے کا کام کرتے ہیں تو وہ اپنا کام درست طریقے سے کر سکیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم چند باتوں کا روزمرہ زندگی میں خیال رکھیں۔
’پیشاب میں جھاگ کا زیادہ بننا اس چیز کو ظاہر کرتا ہے کہ پیشاب میں چربی آ رہی ہے۔ پیشاب میں نارمل حالت میں چربی نہیں آتی، اس لیے یہ خطرناک ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں گردے متاثر ہو رہے ہیں۔ پیشاب کی رنگت بدلنا، پیشاب کے اخراج میں کمی یا زیادتی اس بات کی علامت ہے کہ فوری چیک اپ کروایا جائے۔‘
ڈاکٹر طارق کے مطابق گردوں کے فنکشن کی درستگی کے لیے صحت مند طرز زندگی ضروری ہے۔
’اپنے وزن کو کنٹرول میں رکھیں، گوشت اور سبزیوں کا متوازن استعال کریں، پانی لازمی پیئں، اگر ہم دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو دن بھر میں آٹھ سے 12 گلاس پانی کافی ہے تاہم اگر ہمارا کام آوٹ ڈور یا باہر کا ہے تو ہمیں اسی تناسب سے پانی پینے کی مقدار لازمی بڑھانا ہو گی۔‘
’ڈونر کو ذیابیطس، بلڈپریشر نہ ہو، ترجیحاً 60 سال سے کم عمر ہو‘
ڈاکٹر طارق کے مطابق پاکستان میں قانونی طور پر گردہ والدین، بہن بھائی، اولاد یعنی خون کے رشتہ دار عطیہ کر سکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایسے افراد جن کی عمر 18سال یا اس سے زائد ہو اور ترجیحاً 60 سال سے کم عمر ہوں۔‘
ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ اس کے علاوہ ڈونر کی عمر اور اس کا وزن دیکھا جاتا ہے۔
’بہت ذیادہ وزن کی صورت میں ایک گردہ اگر ہم نکال لیں تو دوسرا گردہ ان کے لیے ناکافی ہو سکتا ہے۔ گردہ عطیہ کرنے والے کا وزن بہت کم ہو تو بھی گردہ لینا اس کی اپنی صحت کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔‘
’جب گردوں کا فنکشن 15 فیصد سے کم رہ جاتا ہے تو لوگ ڈائیلاسز پر آ جاتے ہیں لیکن جب گردوں کی کارکردگی 20 یا 25 فیصد پر رہ جائے تو متاثرہ شخص کو ذہنی طور سے تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ آپ کا گردہ خراب ہو جائے گا اور علاج کے لیے اب ڈائیلاسز یا گردہ تبدیل کروانا ہو گا۔ اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ ڈائیلاسز پر رہنا چاہیں گے یا گردہ تبدیل کروانا چاہیں گے۔‘
اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ‘ڈونر سلیکشن میں سب سے پہلے بلڈ گروپ میچ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بلڈ گروپ میچینگ والا ہی ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے۔ نان میچنگ بلڈ گروپ والا ٹرانسپلانٹ ابھی پاکستان میں نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں عموماً بڑا خاندان ہوتا ہے اس لیے ہمیں فیملی سے ڈونر مل جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر طارق کے مطابق بلڈ گروپ میچ ہونے اور کوئی بیماری نہ ہونے پر پھر الٹرا ساونڈ کروایا جاتا ہے۔
’اطمینان ہونے پر ہم ان کا دل کا فنکشن دیکھتے ہیں۔ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کوئی چھپی ہوئی بیماری نہ ہو۔‘
’اگر ڈونر نوجوان ہو تو اس کے گردے کا فنکشن 90 فیصد سے زیادہ درست کام کرنا چاہیے اور اگر 50 یا اس سے بڑی عمر کا ڈونر ہو تو 80 فیصد سے زیادہ گردے کا فعال ہونا ضروری ہے تاکہ ڈونر ایک گردے پر کام کر سکے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’متاثرہ مریض کسی اور کے جسم سے نکلے ہوئے گردے پر انحصار کر رہا ہوتا ہے تو وہ ساری عمر قوت مدافعت کم کرنے والی دواوں پر ہوتے ہیں کیونکہ گردہ جو ہم لگا رہے ہیں وہ فارن باڈی ہے جس کو ہمارے جسم کا مدافعتی نظام فورا کہے گا کہ یہ کہاں سے آ گئی چیز۔۔۔ تو ہمارا جسم اس فارن باڈی کے خلاف لڑ نہ سکے اس کے لیے مریض کو قوت مدافعت کم کرنے والی دوائیں دی جاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ ٹرانسپلانٹ والے افراد کو انفیکشن ہو تو گردہ بہت جلدی متاثر ہو جاتا ہے، اس لیے ان کو صحت بخش غذا کے ساتھ وزن کنٹرول میں رکھنے اور ایکٹو زندگی گزارنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
اسما اور عمر بھی ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق جہاں ایک گردے کے ساتھ صحت مند زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں وہیں وہ اس سرجری کے بعد پہلے سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔
بشکریہ :بی بی سی اردوڈاٹ کام
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی