سرفراز راجا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شطرنج اپنے بادشاہ کو بچانے اور مخالف بادشاہ کو گرانے کا کھیل ہے۔ بساط پر پندرہ مہرے دائیں بائیں آگے پیچھے دوڑائے جاتے ہیں۔ جن کی پہلی ذمہ داری اپنے بادشاہ کی حفاظت اور دوسری ذمہ داری مخالف بادشاہ کو قابو کرنا ہوتا ہے۔
چیک میٹ (checkmate)شطرنج کی اصطلاح میں اعلان فتح ہوتا ہے یعنی اب مخالف بادشاہ کو اس طرح گھیرے میں لیا جاچکا ہے کہ اس کا بچنا ممکن نہیں۔ یہاں بادشاہ کو بچانے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا اور گیم ختم،،چیک میٹ سے پہلے کی اصطلاح کو (check)چیک کہا جاتا ہے یہ ہوارننگ ہوتی ہے کہ بادشاہ گھیرے میں آچکا ہے ۔یعنی بادشاہ جب کسی مخالف مہرے کی زد میں آجائے اسے چیک کہا جاتا ہے یہاں موقع ہوتا ہے کہ کوئی اپنا مہرہ بادشاہ کے آگے آجائے اور اسے بچا لے یا بادشاہ اپنی جگہ تبدیل کر کے مخالف مہرے کی مار سے بچ جائے۔ سیاسی بساط بھی شطرنج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں آٹھ مارچ 2022 کو اپوزیشن ایک تحریک عدم اعتماد لاکر عمران خان کوچیک پر لے آئی ،ان کے پاس موقع تھا کہ وہ چیک میٹ سے بچ سکیں لیکن پھر ان کے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر اپوزیشن نے انہیں چیک میٹ کردیا جہاں کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن خان صاحب نے زور زبردستی سے کھیل کو کسی نہ کسی طرح بچانے کی کوشش کی کسی کرامت کے انتظار میں رہے جو نہ ہوا اور اپوزیشن نے چیک میٹ نہ ماننے پر خود ان کا کھیل ختم کردیا سیاسی شطرنج بورڈ پر کھیلی جانیوالی شطرنج سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے شطرنج بورڈ پر سب کچھ سب کے سامنے ہورہا ہوتا ہے کونسا مہرہ کس مقصد کے لئے کہاں کھڑا کیا گیا ہے کونسی ممکنہ چالیں چلی جاسکتی
ہیں سب کچھ سامنے ہوتا ہے سب سے بڑھ کر یہ علم ہوتا ہیکہ کونسا مہرہ اپنا اور کونسا مخالف کا ہے سیاسی شطرنج میں ان میں سے اکثر باتوں کا اندازہ تب ہوتا ہے جب بازی پلٹ چکی ہوتی ہے
یہاں سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ اور ہوتا ہے،۔ جو کہا جاتا ہے اکثر ویسا ہوتا نہیں۔ جو بالکل سادہ لگتا ہے وہ اتنا بھی سادہ نہیں ہوتا ۔ جب ایک عام شہری یہ سمجھ سکتا تھا کہ عمران خان کو ہٹانے سے وہ سیاسی شہید بن جائیں گے اور گرتی ہوئی مقبولیت اوپر جانا شروع کردے گی تو کیا یہ بات سیاسی شطرنج کے تجربہ کار کھلاڑیوں کی سمجھ میں نہیں آئی ہوگی۔ یقیناً آئی تھی ۔ اپوزیشن کو عوام کا غم تھا نہ امریکہ کو کسی سازش کی ضرورت،، خان صاحب تو اتحادیوں کے ساتھ چھوڑنے اور اکثریت کھو جانے کے باوجود آخر تک یقین نہیں کررہے تھے کہ وہ جا بھی سکتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔جس کا اظہار اب اشاروں کنایوں میں کیا بھی جارہا ہے، اپوزیشن ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ دراصل خان صاحب اگلے کئی سالوں کا منصوبہ بنا کر بیٹھے تھے پلان یہ تھا کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کے تقرر کے بعد خان صاحب عام انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ اور انتخابات سے پہلے وہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ان کے بڑے سیاسی حریف یا تو سزائیں ملنے کے بعد نااہل کردئیے جائیں گے یا پھر کیسز میں پابند سلاسل ہوں گے۔ خالی میدان ملنے کے بعد دو تہائی اکثریت ان کے لئے مشکل نہ ہوگی۔ آئندہ سینیٹ الیکشن میں وہ ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل کرلیں گے اور آئین میں من چاہی ترامیم کا اختیار بھی ان کے پاس آجائے گا آئینی ترامیم کے زریعے ملک میں صدارتی نظام متعارف کرایا جائے گا جس کی بحث اور اس کے حق میں رائے عامہ بنانے کا کام شروع ہوچکا تھا اور خان صاحب اس نظام کے تحت ملک کی باگ دوڑ مزید گئی سالوں سنبھال رکھیں گے۔ عمران خان کی اس خواہش یا منصوبے کی بھنک جب آصف زردرای کو پڑی تو وہ متحرک ہوگئے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے بات کی جو اس سے پہلے ہی عمران خان کو ہٹانے کے لئے کوشاں تھے۔ اس مشن کا اصل ہدف نوازشریف کو مائنس عمران پر راضی کرنا تھا جو سمجھتے تھے کہ خان صاحب جتنا زیادہ حکومت میں رہیں گیکہ اتنی ان کی مقبولیت کم ہوگی۔ شہباز شریف کو بڑے بھائی کو راضی کرنے کی ذمہ داری دی گئی جو انہوں نے ہوری کردی۔ نمبرز پورے کرنے اور پورے رکھنے کی مکمل ذمہ داری آصف زردرای نے اپنے سر لی۔ اور یوں عمران خان چیک میٹ کردیا گیا۔ لیکن جب عمران خان کا منصوبہ ناکام بنانے کے بعد سابقہ اپوزیشن اتحادی میدان میں آئے تو انہیں اس بات کا اندازہ ہوا جس کا اندازہ ہی نہیں تھا یعنی معاشی صورتحال،، ۔پہلے تو سوچا گیا کہ کوئی ضرورت نہیں تمام ذمہ داری اپنے سر لینے کی عمران کو ہٹانا تھا ہٹا دیا اب الیکشن کرائیں اور پانچ سال کے لئے آئیں پھر کسی نے سمجھایا ایسے جانا بھی فائدہ مند نہیں ہوگا گلے پڑا ڈھول بجائیں اور اچھے کی امید لگائیں اب خان صاحب اپنے طویل المدتی اقتدار کے منصوبے کی ناکامی کاسوگ روزانہ کبھی سازش، کبھی معیشت اور کبھی کوئی اور رونا رو کر مناتے ہیں جبکہ حکومت عمران خان پر ملبہ ڈال کر اپنا دامن بچانے کی تگ و دو میں لگی ہے۔لیکن سیاسی بساط پر کھیل اب بھی جاری ہے،،چیک میٹ کرنے کا کھیل،،مہرے آگے پیچھے کئے جارہے ہیں،،نظریں پنجاب اور سترہ جولائی پر ہیں۔بیس نشستوں کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ اکثریت نہ لے سکی تو سمجھیں پنجاب گیا پھر مرکز میں بادشاہ بچانا مشکل ہوجائے گا،کوئی بھی اتحادی کھسکا تو صدر، وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے میں دیر نہیں کریں گے،،اور یہ چیک ہوگا یا پھر شاید ایک اور چیک میٹ !!
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ