رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میونسپل کمیٹی کندھ کوٹ کے مسلم اکثریتی علاقے/وارڈ سے جنرل سیٹ پر جمیعت علمائے اسلام ، تحریکِ انصاف اور پیرپگاڑا وغیرہ کے مشترکہ امیدوار کے مقابلہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہندو امیدوار کی واضح فتح ۔۔۔۔۔۔۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کیسے ہوئے؟ یہاں یہ سوال اھم نہیں کیونکہ اس مملکتِ خداداد میں زر کے پجاریوں کے درمیان پورے ملک میں اب تک جس طرح سارے انتخابات ہوتے آئے ہیں یہ بھی ویسے ھی ہوئے ہیں ۔ اس وقت اھم بات پیپلزپارٹی کے فراموش کردہ سبق ، روایت اور قدروں کے زندہ ہونے کا ایک اھم واقعہ میونسپلٹی کندھ کوٹ کے ایک وارڈ کا یہ انتخاب اور اس کا نتیجہ ھے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ نتیجہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی اس روایت کی ایک موہوم جھلک ھے جس نے 1967-68 ء میں عوامی اور انقلابی سرکشی کی شکل میں ملک بھر کی گلیوں، سڑکوں، چوکوں، چوراہوں، سکولوں، کالجوں، فیکٹریوں، کارخانوں اور کھیتوں کھلیانوں میں اظہار کیا تھا ۔ جب لوگوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کےبنیادی سوشلسٹ پروگرام کی روشنی میں”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں”، "جیرھا رہاوے اوہو کھاوے ! سوشلزم آوے آوے” کے رہنما نعروں کی روشنی میں پاکستان کے حکمران بالادست کے جبر و دھوکے پر مبنی محنت کش طبقے کے رنگ نسل، ذات پات، مذہب مسلک، زبان قوم اور وطن کی تقسیم کو مسترد کردیا تھا ۔۔۔۔
عظیم مارکسی اور انقلابی استاد کامریڈ ڈاکٹر لال خان کے بقول "محنت کش طبقے کی تحریک اس لہر کی طرح ہوتی ھے جو سمندر کے وسط سے ابھرتی ھے اور ساحل سے ٹکراتی ھے ۔ یہ تحریک اگر کامیاب ہو جائے تو انقلاب بنتی ھے اور اگر نا کام بھی ہو جائے ہو تو پھر بھی اپنی یادیں چھوڑ جاتی ھے”۔۔۔۔۔۔
کندھ کوٹ کا یہ الیکشن بظاہر کوئی ایسا بڑا واقعہ نہیں کہ جو اس طبقاتی سماج یا اس کی قدروں کو بدل کر رکھ دے مگر یہ الیکشن اور اس کا نتیجہ مستقبل کی ایک ایسی کرن ضرور ثابت ہو سکتا ھے جو مذہبی بنیاد پرستی، جعلی وطن پرستی، مبہم و گمراہ کن قوم پرستی اور جاہلانہ لیڈر پرستی کے اندھیروں کو چیر کر بتلا دے کہ بھوک ننگ ، مہنگائی ، غربت، بیماری، بیروزگاری، دکھوں ، ذلتوں اور اذیتوں کا نہ کوئی دیس ہوتا ھے نہ مذہب ، نہ کوئی رنگ ہوتا ھے اور نہ کوئی قوم ۔ بلکہ یہ سب ذلتیں اس درد ناک عذاب کی مانند ہوتی ہیں جو بالادست طبقہ اپنی لوٹ مار اور استحصال کی درندگی، وحشت، کمینگی اور خباثت کو محروم و مظلوم محنت کش طبقے پر مسلط رکھتا ھے ۔۔۔۔
ھمیں یقین ھے کہ جس طرح گہری خاموشی میں کسی جھینگر کی معمولی آواز خاموشی کو چیر دینے اور گھپ اندھیرے میں کوئی ہلکی سی کرن ظلمت کے خاتمے کیلئے کافی ہوتی ھے ۔ اسی طرح محنت کش طبقے کے غصے اور انتقام کا کوئی ایک مظہر تباھی و بربادی کے اس طبقاتی سماج کے الٹ دینے کی بنیاد بھی بن سکتا ھے ۔
بقول ساحر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پل بھر کا مہماں ھے اندھیرا
کس کے روکے رکا ھے سویرا؟
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر