سندھ اور وفاقی حکومتوں کو لواحقین نے کٹھ پتلی قرادے دیا،
سندھ اور بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے احتجاجی کیمپ کراچی پریس کلب کے باہر پیر کے روز بھی جاری ہے۔ کراچی سے لاپتہ ہونے والے کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے حکومتی اداروں کی جانب سے بلوچوں کے اغوا کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کو آڑے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ رواں سال کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسئلے کو بااختیار لوگوں سے بات کرنے کے ریمارکس پر لواحقین نے انہیں کٹھ پتلی وزیراعظم قراردے دیا اور کہا کہ اگر وزیر اعظم بااختیار نہیں ہیں تو پھر کون بااختیار ہے؟۔ سوال یہ ہے کہ وہ بااختیار حلقے کون ہیں جو کہ وزیر اعظم سے زیادہ بااختیار ہیں۔ مظاہرین نے لاپتہ افراد کے لواحقین زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کا اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’شہباز شریف کی طرح عمران خان اور دیگر وزرا نے بھی یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی اولین ترجیح ہے لیکن ہمیں ابھی تک نتائج کا انتظار ہے۔
لواحقین نے سندھ میں بلوچوں کی جبری گمشدگی پر پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کو ذمہ دار ٹہرایا اور مطالبہ کیا کہ سندھ پولیس اور وفاقی ادارے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں، انھیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بشمول جبری گمشدگیوں، من مانی گرفتاریوں، تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی اداروں نے اپنی جابرانہ پالیسیاں جاری رکھیں تو اس سے جمہوری عمل کو نقصان کے ساتھ بلوچستان کے عوام میں ریاست سے بیگانگی کا احساس پیدا ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان انسرجنسی جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔
کراچی پریس کلب کے باہر لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی کیمپ احتجاجی کیمپ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی نے میڈیا کو لاپتہ افراد کی گمشدگی کی فہرست جاری کردی۔ جس کے مطابق کراچی میں ماری پور کے علاقے دلفلاح آباد سے محمد عمران ولد محمد حنیف کو لاپتہ کردیا گیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے ملیر سے سعید احمد ولد محمد عمر کو سی ٹی ڈی اور فورسز نے گھر سے اٹھالیا۔ سعید احمد کا تعلق ضلع کیچ کے دشت کڈان سے ہے۔ لیاری کے علاقے میراں ناکہ سے شوکت بلوچ کو لاپتہ کردیا ہے۔
لواحقین نے متحدہ عرب امارت حکام کی جانب سے پاکستان کے حوالے کرنے والے دو بلوچ ایکٹویسٹ راشد حسین اور عبدالحفیظ زہری کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں لاپتہ بلوچ کارکنوں کی زندگی کو حراست میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جبکہ عبدالحفیظ زہری کو کراچی کے ایک جیل سے منظر عام میں لایا گیاہے۔ عبدالحفیظ زہری کے کزن عبدالحمید زہری کو 10 اپریل 2021 کو کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔ سندھ پولیس کی مدد سے انہیں گلستان جوہر کراچی میں واقعہ انکے گھر سے لاپتہ کردیا گیا۔
طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کو کیچ کے علاقے گورکوپ سے 4 اکتوبر 2016 کو حراست میں لے کر جبرا لاپتا کردیا۔ اس وقت ان کی بیوی زرینہ اور ان کی بہن سیما سراپا احتجاج ہیں۔
سیاسی و سماجی رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے ”اورناچ“ سے دورانِ ڈیوٹی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کی جبری گمشدگی کے بعد ان کی بیٹیاں سمی دین بلوچ اور مہلب بلوچ سراپا احتجاج ہیں۔سمی دین بلوچ، ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے شرکا میں شامل تھیں ۔ آج کل وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ