نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎‎‎”اماں! آپ رخصت ہونا چاہتی ہیں نا! جائیے ہم آپ کو نہیں روکیں گے”||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہم سوچتے ہیں، کیا کبھی کسی نے ان ماں باپ کے درد کا سوچا؟ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جانے والوں کو کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے، اپنی ہر سانس کا کیا تاوان دینا پڑتا ہے، پرسکون رحلت کی بجائے ایک عذاب مسلسل!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"اماں! آپ رخصت ہونا چاہتی ہیں نا! جائیے ہم آپ کو نہیں روکیں گے”
ہم نے ان کی پیشانی چومی، ہاتھ تھاما، اور محبت بھرے بوسے دیتے ہوئے کہا، یہ سترہ اور اٹھارہ جنوری کی درمیانی رات تھی۔
ہماری زندگی ہسپتالوں میں گزری ہے، پاکستان کے مختلف شہروں اور پاکستان سے باہر مختلف ممالک کے طرح طرح کے ہسپتال!
مریض، لواحقین، درد، گریہ، آنسو، موت، زندگی سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہر قدم پہ ایک کہانی دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ڈاکٹر وں کی زندگی میں یہ روزمرہ کی حقیقت بن جاتی ہے، کچھ رکتے ہیں، کچھ منہ موڑ کے گزر جاتے ہیں۔
ایک منظر جس نے ہمیں بار بار ٹھٹکنے اور سوچنے پہ مجبور کیا اور ایک نیزے کی انی کی طرح روح میں گڑ گیا۔ عمر رسیدہ والدین، بوسیدہ جسم، ماؤف ذہن، دھندلی بصارت، گم سماعت، بجھا ہوا یادداشت کا دیا، زندگی کی آخری سیڑھی پہ کھڑے ہوئے، جدا ہونے کو کمر بستہ مگر اولاد بضد ہے کہ مشینی تنفس پہ ڈال کے روک لیا جائے یا اس قدر ادویات دی جائیں کہ دل کی رکتی تھمتی دھڑکن, دوا کے زیر اثر سرپٹ بھاگنے لگے۔
موقف یہ ہے کہ ماں یا باپ بستر پہ اس حال میں بھی رہ جائیں تو رحمتوں اور دعاؤں کا خزینہ ہیں سو ان کی رخصتی موخر کرنے کے لئے ہر حیلہ کیا جاۓ۔
ہم سوچتے ہیں، کیا کبھی کسی نے ان ماں باپ کے درد کا سوچا؟ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جانے والوں کو کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے، اپنی ہر سانس کا کیا تاوان دینا پڑتا ہے، پرسکون رحلت کی بجائے ایک عذاب مسلسل!
ہماری اماں نے اپنی عمر کے آخری پانچ سال موم بتی کی طرح قطرہ قطرہ پگھل کے گزارے اور ہم ان برسوں میں موم بتی کی ٹمٹاتی لو کو تیز ہواؤں اور طوفانوں سے بچا کے رکھنے کی ہر کوشش کرتےرہے۔ نہ تیز چلتے جھکڑوں میں کمی آئی اور نہ ہی ہماری محبت کا پیمانہ لبریز ہوا۔
2018 میں ان کا جسم اتنا نحیف ہوا کہ وہ کروٹ بدلنے سے بھی گئیں۔ ہاتھ ہلانامشکل ہوا، آنکھ کا دیا بجھ گیا، سماعت مدھم پڑ گئی، خوراک کی اشتہا غائب ہو گئی لیکن شکستہ گویائی اور سانس کی ڈوری قائم تھی۔تب ہم نے دل سے رستے لہو اور روح میں چھبتی کرچیوں کے ساتھ سوچا، اب اماں اگر رخصت ہونا چاہیں تو ہم انہیں نہیں روکیں گے۔
"اماں نے بات کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ پوچھنے پہ بھی جواب نہیں دیتیں، پانی تک پلانا مشکل ہے”
پاکستان سے رضا کا فون تھا!
” تم انہیں ہسپتال لے جاؤ، میں اگلی فلائٹ سے آرہی ہوں”
اگلی صبح لاہور کی فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کی فلائٹ لے لی جاۓ اور وہاں سے Daewoo سے لاہور۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلی اور رات آٹھ بجے Daewoo سے سیدھے ہسپتال۔
اماں ICU میں پانچ دن بغیر کسی مشینی تنفس کے رہیں لیکن حالت وہی تھی۔ ہم سے ایک طویل گفتگو کے بعد ڈاکٹرز نے فیصلہ کیا کہ مائع خوراک اور پیشاب کی نالیوں کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے۔
گھر آ کے رضا اور فائزہ کو ہم نے دو دن میں مائع خوراک ٹیوب سے دینے کی تربیت دی۔ اماں کی ہیلپر کو بیڈ سورز سے بچاؤ کی ترکیبیں سمجھائیں۔ اب ہمیں واپس جانا تھا۔
اٹھارہ جنوری کی صبح چھ بجے کی فلائٹ تھی۔ اماں کو بارہ بجے خوراک اور دوا اپنے ہاتھوں سے پلا کر چاہا کہ اپنا سامان سمیٹ لوں۔ اپنے کمرے میں آئے دس منٹ ہی گزرے تھے کہ فائزہ نے ہمیں آواز دی،
” طاہرہ آپی ، ذرا اماں کے کمرے میں آئیے”
ہم بھاگے اماں کے کمرے کی طرف ” یا اللہ خیر” ۔ دس منٹ پہلے کی پرسکون سانسیں اب بے ترتیب تھیں اور رفتہ رفتہ اونچی ہوتی تھیں۔ بلڈ پریشر گر رہا تھا، نبض ڈوب رہی تھی۔ ہم سمجھ گئے کہ اماں آزاد ہونے کو ہیں۔ ہم اماں کے پاس بیٹھ گئے، ان کا ہاتھ تھاما اور بہتے آنسوؤں اور رندھی آواز سے ان سے زندگی کی آخری باتیں کیں کہ ہماری ماں باتوں کی بہت شوقین تھیں۔
"اماں! آپ جانتی ہیں نا، ہم سب آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اماں، آپ کے بغیر رہنا کتنا مشکل ہو گا۔ اماں، دنیا کے فاصلے آپ سے ملنے کے لئے ہم نے سمیٹ دیے۔ ہر تین ماہ بعد آپ کی دید کی پیاس میں بجھاتی رہی، کسی مشکل کو مشکل نہیں سمجھا۔
اماں، آپ ہم سب کی زندگی کا مرکز تھیں اور ستون بھی۔اماں، آپ نے ہر قدم پہ ہم سب کا ساتھ دیا، سب کے بچوں کو اپنی چھاؤں میں سمیٹا، ان ساری محبتوں کا بہت شکریہ، اماں!
اماں، اس جدائی پہ ہم سب دکھی تو بہت ہوں گے لیکن اماں ایک بات کہوں، ایک بات پہ مطمئن بھی۔ اماں، آپ اس قید سے رہا ہو رہی ہیں جس نے انتہائی متحرک، زندہ دل، شوقین اور زندگی سے بھرپور عورت کو راکھ میں بدل دیا۔
آپ کو ریزہ ریزہ بکھرتے دیکھا ہم نے اے ماں۔ ان خوبصورت آنکھوں کی جوت بجھتے دیکھی، بینائی سے محرومی دیکھی، قوت سماعت جاتے دیکھی، پہچان اور آشنائی جاتے دیکھی۔ آپ کو ایک خلا میں گم ہوتے دیکھا۔ ہم بہن بھائیوں کو آپ کے دل میں دفن ہوتے دیکھا۔ ایک ایسی مٹی کی مورت ہم نے دیکھی جو سانس کی ڈوری سے بندھی تھی۔ جو زمان و مکان سے بے نیاز، ایک ہڈیوں کی مالا تھی جو رب کے بلاوے کا انتظار کرتی تھی۔ جو خالی نگاہوں سے اس اجنبی دنیا اور اس کے مسافروں کو تکتی تھی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، لفظ کھو چکے تھے، ہاں آنسو تھے جو بقیہ زندگی کا پتہ دیتے تھے۔
آپ کو معلوم ہے ماں، رب سے کیا مانگا میں نے۔ مرب سے وہ نہیں مانگا جو میری محبت کو تو سیراب کرتا لیکن جو آپ کی قید کو اور لمبا کر دیتا۔ یہ تو خود غرضی ہوتی نا!
اما ں،آپ کی اس قید سے رہائی مانگی میں نے۔ دل پہ پتھر رکھ کے آپ کے لئے رہائی اور آزادی مانگی۔ آپ کو گھومنے میں بہت مزا آتا تھا نا، آپ کے لئے آسمانوں کی پرواز مانگی۔
اماں، آپ جا رہی ہیں نا،ہمارا آخری سلام اور پیار لیجیے۔ اب کے بعد آپ کا یہ چاند چہرہ کبھی نہیں نظر آئے گا ، وہ ہم سب کے انتظار میں چمکتی انکھیں کہیں نہیں ہوں گی۔
بقیہ عمر آپ کو دل میں بسا کے گزاریں گے ہم سب۔ آپ ہر لمحہ ہر سانس ہمارے ساتھ ہوں گی۔ ہم اداس ہوں لیکن آپ فکر نہیں کیجئیے گا، آپ کی ان گنت یادوں کے سہارے ہم جی کیں گے، جو کبھی تو ہنسائیں گی اور کبھی رلائیں گی، اس وقت تک کے لئے جب ہم کہیں اور ملیں، دور بہت دور۔
اماں کے آنسو رخساروں سے پھسلتے ہم نے دیکھے، ہاتھ کی گرمی ہلکی ہوتی محسوس کی، سانس کی رفتار مدھم اور پھر رکتی دیکھی،نبض رک چکی تھی۔
روح اپنے دیس جا چکی تھی۔
ہماری اماں کو یہ منظور نہیں تھا کہ وہ اپنی آخری سانس کسی اور کی بانہوں میں لیں۔
شکریہ اماں، خداحافظ اماں!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author