محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتی سمی بلوچ اور اس کے ساتھیوں پر سندھ پولیس کے ہاتھوں تشدد گرفتاری اور گالیوں کی ویڈیوز دیکھیں تو پہلا خیال تو یہی آیا کہ کیا بےنظیر بھٹو نے اپنی جان اس لیے دی تھی کہ بیٹا بلاول بھٹو خود جی ایچ کیو کے سائے میں وزیر خارجہ بن جائے اور سندھ میں لگائی ہوئی اس کی پولیس بلوچ خواتین کے ساتھ وہی سلوک کرے جو ایک فوجی ڈکٹیٹر کی پولیس بے نظیر اور ان کی والدہ کے ساتھ کرتی تھی۔
پھر سات سال پرانا ایک سانحہ یاد آگیا۔ جی ہاں اس وقت بھی بلوچ مسنگ پرسنز والے اپنے پیاروں کی تلاش میں در بدر تھے، نہ عدالت سنتی تھی، نہ میڈیا، بعض دفعہ پریس کلبوں کے باہر کیمپ لگا کر بیٹھ جاتے تھے تو کوئی عام شہری بھی نہیں پوچھتا تھا سارے کام چھوڑ کر سڑک کے کنارے کیوں بیٹھے ہو۔
ایسا بھی ہوا کہ احتجاجی کیمپ میں بیٹھی خواتین کو پریس کلب کا ٹوائلٹ بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اس ماحول میں پاکستان کی سب سے معروف پرائیویٹ اور امیر یونیورسٹی لمز کے طلبا نے مسنگ پرسنز کے کچھ نمائندوں کو اپنے کیمپس پر بلایا۔
خوشی ہوئی کہ پاکستان کے آسودہ حال بچوں کو بھی اپنے بلوچ بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں کچھ تجسّس ہے۔ اس پروگرام سے پہلے خفیہ اداروں کے دو اہلکار یونیورسٹی کی انتظامیہ کے پاس آئے، انتظامیہ نے وہ پروگرام کینسل کر دیا۔ طلبا نے کالی پٹیاں پہن کر احتجاج کیا۔
عجیب لگا کہ پاکستان کی ایک ایسی یونیورسٹی جہاں پر پڑھانے والے پاکستان کے ذہین ترین قانون دان، تاریخ نویس اور سماجی علوم کے ماہر ہیں۔ جس یونیورسٹی کے بورڈ پر پنجاب بلکہ پاکستان کے طاقتور ترین لوگ بیٹھتے ہیں، اگر وہاں پر ایک بند کمرے میں بلوچ مسنگ پرسنز پر بات نہیں ہو سکتی تو پھر کہاں ہو سکتی ہے؟
مجھے یہ بھی شک ہمیشہ رہتا ہے کہ شاید ہمارے انٹیلیجنس والے اتنے برے نہیں ہیں جتنے ہمارے سیٹھ اور صاحب استعداد دانشور۔۔۔ اس لیے میں نے احتجاج کرنے والے ایک لیڈر نما طالب علم سے پوچھا کہ آخر لمز کو کیا دھمکی دی گئی کہ پروگرام کو منسوخ کرنا پڑا؟
مجھے بتایا گیا کہ ’اگر یہ پروگرام ہوا ہوتا تو پھر لمز کے بچے بھی مسنگ ہونا شروع ہوجائیں گے۔‘
کراچی میں ہماری دوست سبین محمود نے کہا کہ شاید مسئلے کا حل یہی ہے کہ جب تک لمز کے بچے نہیں غائب ہوں گے بلوچ اور دوسرے چھوٹے صوبوں سے غائب ہونے والوں کے خاندانوں کا درد کوئی نہیں سمجھے گا۔
پھر ہماری بہن تھوڑا اور بھنّا گئی اور کہا کہ لمز نہیں کرتا تو میں کروں گی، ٹی ٹو ایف میں اگر سو افراد بھی جمع ہو جائیں تو ہاؤس فل ہو جاتا ہے۔‘
اس کا خیال تھا کہ ہماری چھوٹی سی جگہ پر کچھ لوگ اپنا درد بتائیں گے تو کوئی کیا کرے گا اور کیوں کرے گا؟
جو پرگرام لمز میں ہونا تھا وہ ٹی ٹو ایف میں ہوا، پروگرام میں کچھ نہیں ہوا لیکن گھر جاتے ہوئے اسے سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا، ساتھ والی گاڑی پر ان کی والدہ بیٹھی تھی انھیں بھی گولیاں لگیں گی۔
وزیر اعظم نواز شریف شریف اور جنرل عاصم باجوہ نے تعزیت کی، جنرل راحیل شریف نے کراچی میں بیٹھ کر تفتیش مکمل کروائی اور ہمیں بتایا گیا کہ سبین محمود کے قتل کا بلوچ مسنگ پرسنز والے پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو اس وجہ سے ہوا کہ اس کے ایک تو بال شال چھوٹے تھے اور دوسرا وہ کراچی کی دیواروں پر نوجوانوں سے مل کر کر پھول پتیاں بناتی تھی اور ’پیار ہو جانے دو‘ قسم کے نعرے بکتی تھی۔
ان کے قتل کے بعد بلوچ مسنگ پرسنز کے مسئلے پر میڈیا میں ایسا سناٹا چھایا یا جس کی گونج آپ آج بھی سن سکتے ہیں۔ اس نئی حکومت میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ میڈیا نسبتاً آزاد ہے۔ کئی معروف چہرے جو عمران خان کی حکومت میں غائب ہوگئے تھے یا اپنا جہاز یوٹیوب کے محاذ پر لے گئے تھے، وہ واپس نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
شیخ رشید کے بارے میں لطیفے کھل کر سنائے جاتے ہیں، بنی گالہ کے باتھ روم کا تذکرہ عام ہے۔ کچھ نظریاتی صحافی فوج کے ادارے کو بھی للکارتے رہتے ہیں لیکن لیکن شاید ہی کوئی ذکر کرتا ہو کہ ہمارے یہاں ہزاروں خاندان صرف یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہمارا بندہ اٹھایا تھا واپس کرو یا عدالت میں لاؤ، سزا سناؤ، چاہے تو پھانسی پر لٹکا دو لیکن بندہ تو دکھاؤ، بات تو کرا دو۔
کوئی بھی صحافی، اس کا نظریہ کوئی بھی ہو، کیا دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ایک شہری کا اغوا، جبری گمشدگی شیخ رشید کی پیشگوئیوں سے بڑی خبر نہیں ہے۔
اللہ نہ کرے لمز کا کوئی طالب علم مسنگ ہو جائے۔ اللہ نہ کرے کسی کا بھی باپ بھائی بہن جبری اغوا ہو جائے۔
بلوچ والدین لمز کے طلبا کے والدین سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق کراچی، لاہور کے کالجوں میں بھیجتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ جگہیں بلوچستان سے زیادہ محفوظ ہیں اور اب کراچی یونیورسٹی سے بھی ان کے بچے اٹھائے جا رہے ہیں۔
فرض کریں بے نظیر بھٹو اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو انگلینڈ کے بجائے لمز پڑھنے بھیجتیں کہ وہ کم از کم کراچی یونیورسٹی سے زیادہ محفوظ ہے۔ وہاں سے پانچویں سمسٹر کے بعد بلاول کو اٹھا لیا جاتا کوئی خبر نہیں آتی۔
ہیومن رائٹس کمیشن ایک بیان جاری کرتا، وہ دو دن واپس نہیں آتا، بے نظیر کیا کرتیں؟ ہفتہ نہیں آتا تو بھوک ہڑتال کرتیں کراچی پریس کلب کے سامنے، مجھے نہیں پتا کہ کیا کرتیں لیکن یہ نہیں کرتیں کہ بلاول کو بھول کر کہتی ہیں کہ ’چلو اس ملک میں تو یہ ہوتا رہتا ہے، پہلے شیخ رشید کا لطیفہ سنا لیتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو کو کم از کم یہ تو چاہیے کہ کسی دن سمی دین بلوچ کو فون کرکے پوچھے کہ ’بہن بہن کتنے سال ہوگئے اپنے باپ کو ڈھونڈتے؟‘
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ