دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شراب اور نائٹ کلبوں پر پابندی سے معاشرتی بگاڑ۔۔۔۔۔||سید علی نقوی

ہمارے پاس اب ایک ہی طریقہ کار بچا ہے وہ یہ کہ ہم جلد از جلد اس ملک کو ایک محفوظ جگہ بنائیں اور یہاں کے کلچر پر انوسٹ کریں مقامیت کو فروغ دیں یہاں کے کھانے، لوک داستانیں، یہاں کی قدم قدم پر رنگ بدلتی موسیقی، یہاں کے فن پارے، یہاں کی تعمیرات، دریا، صحرا ہماری توجہ کے طالب ہیں اگر ہم اس سب پر توجہ دیں تو کافی کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔

علی نقوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاب مارکیٹ کی ایک اصطلاح ہے Role Identification یعنی آپ اپنے یا کسی اور کے لیے یہ طے کریں کہ کسی کمپنی یا کاروبار میں کس کا کیا کردار ہو گا یعنی کون کیا کام کرے گا یہ کسی بھی کاروباری فرم کمپنی یہاں تک کہ گھروں میں بھی Role Identification ایک اہم کام ہے اسی طرح انٹرنیشنل پالیٹکس میں ملکوں کے بھی کچھ کردار ہیں جیسے کہ ماضی میں انڈیا کو Food Basket کہا جاتا تھا ایک اندازے کے مطابق جب پاک و ہند علیحدہ نہیں ہوئے تھے تو اس وقت یہ خطہ دنیا کی پچیس فیصد خوراک کی ضروریات پوری کرتا تھا، اسی طرح آج کی دنیا میں امریکہ، چین، روس، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے اہم ممالک کے اپنے اپنے کردار ہیں کہ جن کی بنیاد پر ان کی دنیا میں اہمیت ہے مثال کے طور پر گزشتہ صدی میں جاپان نے ٹیکنالوجی میں یورپ اور امریکہ کو کئی بار حیران کیا ہے اور وہ جاپان کی جو ناگاساکی اور ہیرو شیما حملوں کے بعد تباہ حال تھا ٹیکنالوجی کے زور پر اٹھا اور دنیا پر چھاتا چلا گیا۔

اگر ہم امریکہ کو دیکھیں تو دنیا کے بڑی پانچ سو یونیورسٹیوں میں سے ایک سو بارہ امریکہ میں ہیں اور تقریباً ہر فیلڈ کے بڑی درسگاہ امریکہ ہی میں ہے، چاہے وہ سائنس ہو، لٹریچر ہو، آرٹ ہو یا کچھ اور ریسرچ کی دنیا میں آج بھی باقی دنیا کی یونیورسٹیاں امریکی یونیورسٹیز کے سامنے پانی بھرتی ہیں، اسی طرح امریکہ کو جدید اسلحے، جنگی ہتھیاروں، Space Sciences، Satellite Science اور Medical Sciences میں بھی دنیا پر نمایاں فوقیت حاصل ہے۔

چائنہ اس صدی میں وہی کردار بہت بڑے اور جدید بلکہ حیران کر دینے والے پیمانے پر نبھا رہا ہے جو جاپان کا گزشتہ صدی میں تھا عجیب و غریب حیرت میں ڈال دینے والے گیجٹس بنانے میں چین کا کوئی ثانی نہیں انسان کو حیرت میں ڈال دینے والی تعمیرات کس طرح راتوں رات کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ دیکھنے والے انگلیاں چبا جائیں، اور تو اور ہمارے کپتان کہ جو یورپ، امریکہ، ازبکستان اور جنوبی وزیرستان سمیت سب کو وہاں کے مقامیوں سے بہتر جانتے ہیں جب چین کے سٹیڈیم میں گئے تو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کا لیول ہی اور ہے چین میں مقیم دوست بتاتے ہیں کہ یہاں ہر وقت آسمان میں جادو ہو رہا ہوتا ہے کبھی کوئی ڈریگن فضا میں آسمان کے ایک سرے سے نمودار ہوتا ہے اور دوسرے کونے پر غائب ہو جاتا ہے آسمان میں ہر روز رات میں کئی طرح کے لائٹ شوز چلتے ہیں جو امریکیوں اور یورپینز کو بھی حیران کر دیتے ہیں۔ زمین کے گرد ریلوے کی پٹری سے لے کر ”ون بیلٹ ون روٹ“ تک نہ جانے کیا کیا کچھ ہے جو چین کے مستقبل کے پروگرام کا حصہ ہے۔

آپ دیکھیے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے متحدہ عرب امارات نے کس طرح دنیا میں اپنا رول ڈیفائن کیا ہے وہ دبئی اور گلف ریاستیں کہ جہاں آج سے پچاس سال پہلے صرف ریت کے جھکڑ چلا کرتے تھے وہ آج اپنے شدید گرم موسم کے باوجود دنیا کے بہترین تجارتی مراکز میں سے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ دبئی، ابو ظہبی، بحرین، عمان، قطر کھنچے چلے آتے ہیں دنیا کے شاندار ائرپورٹس اور بہترین ائر لائنز گلف نے کھڑی کی ہیں، Hospitality اور ہوٹلنگ کی دنیا میں تہلکہ خیز انقلاب گلف ممالک کا ہی پیدا کردہ ہے دنیا کی اونچی ترین عمارت سے لے کر پام آئلینڈ تک کیا نہیں ہے کہ جو ملتان جتنے دبئی میں نہیں ہے یہ وہ رول ہے کہ جو ریاستوں نے خود پہچانے ہیں اور ان کے حساب سے اپنے آپ کو وہاں لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں سے وہ دنیا میں اپنی حیثیت بھی بہتر کر سکیں اور زرمبادلہ بھی کمائیں۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ پاکستان کا آج کی دنیا میں کیا رول ہو سکتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان کا اپنے قیام سے لے کر آج تک کیا رول رہا ہے۔ پاکستان 1951 سے جو امریکہ کی گود میں گرا آج تک وہیں کا وہیں ہے یہاں کا مارشل لاء اور جمہوریت دونوں امریکہ کے اشارے پر چلی کم از کم ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا مارشل لاء تو امریکہ کی جنگ لڑنے کے لیے یہاں نافذ ہوئے ہم نے بیرونی دنیا سے تجارت کی جگہ امداد مانگی، جب بھی امداد ملی تو اس کے پیچھے ہمیں کچھ ایسے کام سونپے گئے کہ جو ہماری ملکی سالمیت اور ملکی مفاد کے خلاف تھے ہم نے چونکہ فوج کے علاوہ کسی ادارے پر انوسٹ نہیں کیا تھا اس لیے ہمیں ہر دس بارہ سال بعد امداد و قرضے کے بدلے فوج Out Source کرنا پڑی کبھی ہماری افواج فلسطین میں لڑیں، تو کبھی افغانستان میں ہم انگیج رہے آج بھی UN کے کئی مشنز ہیں کہ جہاں ہماری افواج موجود ہیں لہٰذا جب جس طاقتور کو کہیں لڑنے کے لیے فوج چاہیے ہوتی تو وہ ہم سے رابطہ کرتا تھا، لیکن اب شاید وہ زمانہ بھی چلا گیا اب جنگ فوجی نہیں مشین لڑتی ہے ایک ڈرون نہ جانے کہاں سے اڑتا ہے اور ٹارگٹ کو نہ جانے کہاں سے نشانہ بنا کر چلا بھی جاتا ہے نہ اس میں پائلٹ ہوتا ہے نہ اس کی آواز ہوتی ہے نہ ہی کوئی نشان، ہتھیار اب لوہے کی بجائے وائرس سے بنائے جاتے ہیں بائیؤ ویپنری جدید زمانے کی سب سے مہلک ایجاد ہے، تو اب شاید ہم فوج بھی Out Source نہ کر سکیں، ہمارے آموں کے باغ کٹ گئے، ہمارے گندم کالی، کپاس مٹیالی اور گرم مسالے سرمئی ہو چکے ہیں، ہمارے سنگترے اب مالٹا بھی نہیں لیتا، ہمارے سیب نیوزی لینڈ کے سیبوں کے سامنے ویسے ہی لگتے ہیں جیسے ان کی یونیورسٹیوں کے سامنے ہماری درسگاہیں، تو معلوم کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر آج کی دنیا میں ہمارا رول کیا ہو گا؟

بات یہ ہے کہ سائنس کی دنیا میں ہم پانچ سو سال پیچھے ہیں ہم سے ان کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال تو ہوتی نہیں ہم ایجاد کیا کریں۔

اب جو بات میں کہنے جا رہا ہوں اس کے لیے ہمت بھی چاہیے اور دشنام برداشت کرنے کا حوصلہ بھی جہاں تک مجھے سمجھ آتا ہے ہمارا آج کی دنیا میں ایک رول رہ جاتا ہے اور وہ ہے ”میراسی“ ہونا میراسی سے مراد وہ کہ جس کے پاس کوئی ورثہ یا میراث ہو، آئیے اس سب پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔

استاد خالد سعید نے کہا تھا کہ انسانیت کی بقا علم کے نہیں، تہذیب کے ہاتھ میں ہے کیونکہ علم ہر روز بدل جاتا ہے، جدید ہو جاتا ہے اور اسی طرح اوبسیلیٹ بھی ہو جاتا ہے جبکہ کلچر موجود رہتا ہے، کہانی نہیں مرتی، موسیقی موجود رہتی ہے، ہمارے پر خدا کا کرم یہ ہے کہ اس چھوٹے سے ملک کو اس نے شاندار کلچر سے نوازا ہے ہنزہ کی راکا پوشی سے شروع ہو جائیے، وادی کیلاش سے نکلیے چلم جوشی کے فیسٹول، شندور کا دنیا کا سب سے اونچا پولو گراؤنڈ، چترال سے ہوتے ہوئے پشاور کے قصہ خوانی بازار پشاور کے باڑے وہاں سے ہوتے ہوئے پنجاب، اٹک سے شروع ہو جائیے پنڈی کے راجا بازار، گولڑہ شریف، بری امام کے درباروں سے پاکستان کے کلچرل کیپیٹل لاہور وہاں سے گجرانوالہ، فیصل آباد کے محلوں میں بیٹھے وہ لوگ کہ جو آپ کو نہ صرف اپنا مہمان کر لیں بلکہ گرویدہ بھی، ملتان کے دربار و تعمیرات، بہاولپور کے صحرا اور اس میں کھڑے ہزار ہزار سال پرانے قلعہ دراوڑ کے دیو ہیکل کھنڈرات، عظیم تریں صحرائے تھر و تھل، بہتے ہوئے دریائے چناب و سندھ، وسیع و عریض کھیت، میلوں پر مشتمل آم، کھجور، امرود، مالٹے کے باغات اسی طرح گندم، چاول، چنا، کپاس کے کھیت یہ سب ہر دس بارہ میل پر یکسر بدل جاتا ہے کہتے ہیں کہ ہمارے خطے میں ہر بارہ میل پر زبان کا لب و لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے اس لب و لہجے کے ساتھ ساتھ تمدن، کھانے کا ذائقہ، میوزک، بود و باش سب تبدیل ہوتا محسوس ہوتا ہے ہمارے پاس اس کلچر کی موجودگی کے باعث ہم دنیا میں اپنا رول ڈیفائن کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے اس کلچر کی بڑھوتری اور تشہیر کے لیے کام کریں اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ حاصل کریں، اگر آپ غور کریں تو دنیا کے کئی ملک آپ کو ملیں گے کہ جنہوں نے یہی کچھ کیا ہے اور سیاحوں کے سر پر اپنے ملکوں کی معیشت کو بہتر کیا ہے مثال کے طور پر مصر کی سالانہ جی ڈی پی کا تینتیس فیصد اہرام مصر پر آنے والے سیاحوں سے حاصل ہوتا ہے، اسی طری تھائی لینڈ سیاحوں کی جنت ہے کیونکہ وہاں دنیا کا بہترین مساج اور انجوائے کرنے کی سہولیات موجود ہیں پوری دنیا سے سیاح صرف عیاشی کے لیے تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں، اسی طرح ملایشیا، سنگاپور، انڈونیشیا، ہانگ کانگ، تائیوان، باکو وغیرہ اور ان کے علاوہ ساؤتھ امریکی ممالک جن میں یورا گوئے، پیرا گوئے، برازیل اسی طرح یورپ کے کئی ممالک سپین، اٹلی، فرانس، پرتگال، ایمسٹرڈیم وغیرہ اپنی اکانومی میں سیاحت سے بہت کچھ کماتے ہیں، ہمارے ہمسائے میں مالدیپ، سری لنکا ہیں کہ جنہوں نے اپنے ملکوں کو ماڈرن بنایا ہے، ساؤتھ افریقہ بھی ایک بڑی مثال ہے کہ جہاں سیاحت کے ساتھ ساتھ گیمبلنگ بھی زوروں پر ہے سوئٹزرلینڈ، ناروے، سویڈن، ڈنمارک سیاحوں کی جنتیں کیوں ہیں؟ ہمارے پہاڑی علاقے بھی کسی سے کم نہیں اور یہاں تو صحرا، جنگل، پہاڑ، وادیاں، گھاٹیاں، گہرے سمندر سب ہیں کہ جن کو دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے لاکھوں سیاح ہر سال ہم یہاں لا سکتے ہیں۔

رکاوٹیں بہت ہیں سب سے پہلا مسئلہ سیکورٹی ہے اور اس کے بعد یہ شدت پسند ذہنیت ہے کہ جس کی وجہ سے نہ یہاں شراب پینے کی اجازت ہے نہ یہاں کوئی جوا خانہ ہے، نہ یہاں ڈانس کلبس ہیں، نہ ہی بروتھل ہاؤسز جبکہ یہاں یہ سب کچھ چھپ چھپا کر کیا جاتا ہے یہاں کون ہے کہ جو شراب پینا چاہے تو وہ نہ پی سکے، رات عورت کے ساتھ گزارنے کی حیثیت رکھتا ہو اور اس کو نہ مل سکتی ہو، آپ ہر طرح کی ڈرگ اس ملک میں حاصل کر سکتے ہیں، بس آپ پر ریاست ایک پابندی لگاتی ہے اور وہ یہ کہ یہ کام آپ کھلے عام نہیں کریں گے کیونکہ مولویوں کو اس سے مسئلہ ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ یا تو یہ سب بھی یہاں بند کیجیے اور اگر نہیں کر سکتے تو اس کو لیگل فریم ورک میں لائیے اس کے لیے قانون سازی کیجیے کیونکہ اس وقت جو بھی اس ملک میں شراب، ڈرگز اور عورتیں سپلائی کر رہا ہے وہ ایک مافیا ہے یا کسی مافیا کا آلہ کار ہے کیوں نہ حکومت وہ پیسے لے جو مافیا کو جا رہے ہیں؟

آپ نے 1974 میں شراب پر پابندی لگائی کیا آج کا پاکستان اخلاقی طور پر زیادہ بدحال نہیں کہ جتنا وہ 1974 میں تھا؟ کیا آج یہاں زیادہ عدم برداشت نہیں ہے؟ قتل و غارتگری، دہشتگردی، تکفیر کے فتوے، کرپشن سب بڑھ چکا تو اگر مسائل شراب کی وجہ سے تھے تو وہ حل کیوں نہ ہوئے؟ ضیاء الحق نے پورے ملک میں موجود ریڈ لائٹ ایریاز ختم کر کے اس کا چھینٹا رہائشی علاقوں تک لگوا دیا؟ کیا ہوا کیا آج عورت رات کے لیے بک نہیں ہوتی؟ کسی بھی معاشرے میں آپ یہ سب نہیں روک سکتے اور ہم تو اس لیے بھی نہیں کیونکہ ہمارے لوگوں نے نہ آج تک کھل کر شرب پی نہ عورت کے ساتھ انجوائے کر دیکھا ہماری زیادہ تر عورتیں چھ چھ بچے جننے کے بعد بھی جنسی تسکین کو آج تک چھو بھی نہیں سکیں کیونکہ یہ ایک گھٹا ہوا معاشرہ ہے جس میں پانچ پانچ سال کی بچی اور بچہ ریپ تو ہو جاتا ہے لیکن بروتھل ہاؤس نہیں کھولا جا سکتا۔

ہمارے پاس اب ایک ہی طریقہ کار بچا ہے وہ یہ کہ ہم جلد از جلد اس ملک کو ایک محفوظ جگہ بنائیں اور یہاں کے کلچر پر انوسٹ کریں مقامیت کو فروغ دیں یہاں کے کھانے، لوک داستانیں، یہاں کی قدم قدم پر رنگ بدلتی موسیقی، یہاں کے فن پارے، یہاں کی تعمیرات، دریا، صحرا ہماری توجہ کے طالب ہیں اگر ہم اس سب پر توجہ دیں تو کافی کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔

اگر آپ غور کریں تو پاکستان سے نامور ترین لوگ تین فیلڈز نے پیدا کیے ایک فن کی دنیا دوسری کھیل کی دنیا اور تیسرے رضا کاری کی دنیا میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان نے آج تک نصرت فتح علی خان سے زیادہ مشہور آدمی نہیں پیدا کیا کہ جس کی شہرت جاپان سے لے کر امریکہ تک ایک جیسی تھی کہ کوئی اس کو بھگوان مانتا تھا تو کوئی دیوتا اسی طرح جو شہرت ہمارے کپتان عمران خان نے ایک کرکٹر کے طور پر حاصل کی وہ ایک مثال ہے، اسی طرح ایدھی فاؤنڈیشن نے فلن تھروپی کے دنیا میں اپنا آپ منوایا ہے اس شہرت کا عشر عشیر بھی ہم کسی اور فیلڈ میں حاصل نہیں کر سکے، ہمارے جہانگیر اور جان شیر خان دنیا کے لیے حیرت انگیز کھلاڑی ہیں، ہمارے گاما پہلوان، سلطان گولڈن، وسیم اکرم، وقار یونس، عبد القادر، شعیب اختر، ثقلین مشتاق اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن یہ تمام لوگ اپنے ذاتی ٹیلنٹ کی بنیاد پر پہنچے جہاں پہنچے اگر ریاست سرپرستی کرے تو نہ جانے کیا کیا یہاں سے برآمد ہو میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس وقت انٹرنیشنل جوا مارکیٹ میں جو ریٹ پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اگر ہم سارا سال کرکٹ ہی کھیلتے رہیں تو ان دونوں ملکوں کے قرضے اتر سکتے ہیں، اسی طرح اگر ذرا سا سوچ لیا جائے تو پاکستان اور انڈیا بمقابلہ باقی دنیا کے میچ کرائیں جائیں تو کیا ہی ٹیم بنے کہ جس میں شاہین آفریدی باؤلنگ کرے تو ویراٹ کوہلی بیٹسمین ہو، کیوں یہ نا ممکن ہے کہ کپل شرما کا ایک شو پاکستان کے کسی شہر میں ہو؟ کیوں نہ ایک ہی فلم میں صبا قمر اور رنبیر کپور ہوں، دیپیکا پڈوکون اور فواد خان ہو، کیوں نہ اس فلم کے گانے سجاد علی اور الکا یاگنک گائے، کیوں نہ اس بارڈر کہ جہاں باڑ لگی ہے اور اس پر دونوں ملکوں کے ہزاروں سپاہی بلاوجہ کا گشت کر رہے ہوتے ہیں وہاں ریسٹورینٹ ہوں اور دنوں طرف کے لوگ وہاں ایک دوسرے سے مل سکتے ہوں کیوں انڈیا پاکستان کی مابین فری انٹری نہیں ہو سکتی کیا ہمارے اختلافات ان ملکوں سے زیادہ گھمبیر ہیں جن کے درمیان صلیبی جنگیں ہوئی تھیں جن کی زبانیں، کلچر اور معاشرے مختلف ہی نہیں بلکہ باہم متصادم تھے لیکن آج باہم ہیں، ایک شنجن ویزا آپ کے لیے تیرہ چودہ ملکوں کے دروازے کھول دیتا ہے ایک یورو پورے یورپ میں چلتا ہے اور ملکوں کی انفرادیت بھی قائم ہے۔

ہم وہ بد نصیب لوگ ہیں کہ جن سے لاہور کی بسنت تک نہ سنبھالی گئی کہ جو ایک فیسٹول کی شکل اختیار کر گئی تھی جس میں لوگ امریکہ اور برطانیہ سے آتے تھے لیکن ہم سے ڈور تک نہ سنبھلی۔ سپین میں بیل دوڑ کا فیسٹول ہوتا ہے جس میں لوگ مر بھی جاتے ہیں لیکن وہ بند نہیں کر دیا جاتا یہاں ڈور سے بندے مر جاتے ہیں اس لیے بسنت ہی بند کر دی گئی، ہارس اینڈ کیٹل شو تک بند کر دیا گیا، مدت سے لکی ایرانی سرکس کا اشتہار تک نہیں دیکھا ملتان میں کئی میلے ہوتے تھے سب بند ہو چکے موجود ہے تو شدت پسندی ہے، انتہا پسندی ہے، تکفیر ہے، تقسیم ہے، نفرت، کدورت، بغاوت سب ہے کیونکہ یہی ہماری ترجیحات ہیں کہ ہم 6 ارب تعلیم اور 1500 ارب دفاع پر خرچ کرتے ہیں، فلم انڈسٹری کو ایک ارب روپیہ دیتے ہیں اور کلچر کو وہ بھی نہیں تو ایسے معاشرے ڈیفالٹ پر ہی پہنچتے ہیں جہاں ہم پہنچ گئے ہیں۔

About The Author