نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تحریک طالبان پاکستان کو آئین پاکستان اور فاٹا انضمام سے آخر مسئلہ کیا ہے؟|| محمود جان بابر

پاکستان سے بھیجی گئی اس کمیٹی میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے رشتے داروں اور دوستوں کی موجودگی کی تصدیق بیرسٹر سیف، پیپلز پارٹی کے باجوڑ سے رہنما اخونزادہ چٹان اور دیگر رہنماؤں نے بھی کی ہے جن کی موجودگی کا مقصد طالبان کو اس بات پر راضی کرنا تھا کہ وہ پاکستان میں پُرتشدد کارروائیوں کو ترک کر دیں۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کابل میں مذاکرات کے حالیہ دور میں شریک ہونے والے قبائلی عمائدین نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ دو روزہ مذاکرات کے دوران طالبان کی جانب سے فاٹا کی سابقہ حیثیت بحال کرنے سمیت دیگرتمام مطالبات پر بات ہوئی ہے۔

دوسری جانب اس مذاکراتی کمیٹی میں شامل بعض شرکا نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان فاٹا کے انضمام کا فیصلہ واپس لینے کے علاوہ چند دیگر مطالبات سے تقریباً دستبردار ہو چکی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے لیے کابل بھیجی گئی اس کمیٹی کے 53 ممبران کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ اس کے ممبران میں طالبان پر اثر رکھنے والے قبائلی رہنماؤں اور عمائدین کے ساتھ ساتھ طالبان رہنماؤں کے قریبی رشتے دار بھی شامل ہوں۔

مذاکراتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اس کمیٹی کے غالباً واحد غیر قبائلی رکن ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یوں تو پہلے سے ہی فوج اورٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات چل رہے تھے لیکن تحریک طالبان اور بعض سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیچ کچھ مسائل حل طلب تھے جس کے لیے اس کمیٹی کے طالبان کے ساتھ کابل میں یہ مذاکرات ضروری تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی قیادت نے کابل مذاکرات میں اُن کے ساتھ سب سے زیادہ جس معاملے پر زور دیا وہ فاٹا کی قبائلی اور آزاد حیثیت کی بحالی کا تھا، مگر اس کے جواب میں انھوں نے طالبان پر واضح کر دیا کہ فاٹا انضمام کا فیصلہ پارلیمان کی منظوری سے ہوا ہے اور ایسے میں اگر کوئی اسے واپس بھی کرنا چاہے تو اس کے لیے قومی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت ضروری ہو گی جس کے بغیر یہ ناممکن ہو گا۔

بیرسٹر سیف کے مطابق کابل میں دو دن کے دوران ایک، ایک دن میں مذاکرات کے چار، چار دور بھی ہوئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو دنوں کے دوران فریقین نے کتنی محنت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کا زیادہ فوکس مستقبل میں اُن کی تنظیمی سرگرمیوں کی آزادی، نظام انصاف اور جرگوں کی آزادی پر تھا، اس لیے وہ انضمام کے عمل کو رول بیک کرنے پر زیادہ زور دے رہے تھے جس پر ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اب اس عمل کو قبائلی عوام سمیت سیاسی پارٹیاں بھی نہیں مانیں گی۔‘

بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا کہ ’اس پر انھوں نے ہم سے وعدہ لیا کہ ہم اُن کی بات حکومت، فوج، عدالت اور سیاسی جماعتوں تک پہنچائیں گے تاکہ اُن کی معاشرے میں باعزت واپسی کو ممکن بنایا جا سکے اور ایسا راستہ نکالا جا سکے جس کے ذریعے وہ (طالبان) معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔‘

’ہم نے انھیں پاکستان اور خصوصاً خیبرپختونخوا کے لوگوں کی جانب سے محبت کا پیغام پہنچایا جس کے جواب میں انھوں نے اس سیز فائر کو جو انھوں نے 30 مئی تک کیا تھا، کو غیرمعینہ مدت تک توسیع دے دی اور ہمارے اور ان کے مابین اس بات پر اتفاق بھی ہوا کہ ہم اس دوران کوئی ایسے بیان نہیں دیں گے جو مذاکرات کو سبوتاژ کر سکیں۔‘

تحریک طالبان کی جانب سے ماضی میں اٹھائے گئے مطالبات پر کیا وہ اب بھی قائم ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس مذاکراتی کمیٹی کے ایک رُکن نے کہا کہ ’مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کی جانب سے وہ تمام مطالبات دہرائے گئے جو انھوں نے عرصہ دراز سے اپنا رکھے تھے تاہم اس کے ساتھ ایسا بھی لگا کہ یا تو وہ انضمام کے علاوہ اپنے دیگر مطالبات سے دستبردار ہو چکے ہیں یا وہ ان مطالبات پر عسکری قیادت کے ساتھ بات کریں گے۔‘

جنوبی وزیرستان
حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان نے سیزفائر میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کا اعلان کیا ہے

ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کے لیے ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ شامل تھا۔

بی بی سی نے ان مذاکرات کے حوالے سے رد عمل جاننے کے لیے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے متعدد بار رابطہ کیا تاہم تادم تحریر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

یہ 53 رکنی مذاکراتی کمیٹی جنوبی وزیرستان سے سینٹ کے سابق رُکن اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا صالح شاہ کی سربراہی میں قائم کی گئی ہے، جس میں سابق گورنر انجینیئر شوکت اللہ، موجودہ وفاقی وزیر ساجد طوری، سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ اور تمام قبائلی اضلاع کے اہم ترین عمائدین شامل ہیں۔

کابل میں ان مذاکرات کا اگلا دور ایک مہینے کے اندر ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

پاکستان سے بھیجی گئی اس کمیٹی میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے رشتے داروں اور دوستوں کی موجودگی کی تصدیق بیرسٹر سیف، پیپلز پارٹی کے باجوڑ سے رہنما اخونزادہ چٹان اور دیگر رہنماؤں نے بھی کی ہے جن کی موجودگی کا مقصد طالبان کو اس بات پر راضی کرنا تھا کہ وہ پاکستان میں پُرتشدد کارروائیوں کو ترک کر دیں۔

تحریک طالبان پاکستان
ٹی ٹی پی کی جانب سے مذاکرات کے لیے ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ شامل تھا

کابل کا دورہ کرنے والی کمیٹی میں شامل قبائلی علاقے کی پہلی سیاسی جماعت ’تحریک اصلاحات پاکستان‘ (سابقہ متحدہ قبائل پارٹی) کے وائس چیئرمین ملک حبیب نور اورکزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کابل جانے والی اس کمیٹی کو سویلین حکومت اور عسکری قیادت دونوں کی مکمل تائید اورحمایت حاصل تھی اور دونوں اس معاملے پر سیم پیج (ایک صفحے) پر ہیں کیونکہ یہ سب امن چاہتے ہیں بلکہ امن کے قیام کے معاملے پر تحریک طالبان پاکستان میں بھی مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کابل میں اُن کی کمیٹی سے ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی، مولوی فقیر محمد اور تمام اہم رہنماؤں پر مشتمل رہبر کمیٹی نے بھی حصہ لیا جبکہ فریقین کے مابین ثالثی کے فرائض افغان طالبان کی جانب سے سراج الدین حقانی نے سرانجام دیے۔

ملک حبیب نور اورکزئی کا کہنا تھا کہ ان کی کمیٹی حکومتی نمائندہ جرگہ کے طور پر ٹی ٹی پی سے بات چیت کر رہی تھی اور وہ خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ قریبا 98 فیصد مسائل حل ہو چکے ہیں بس دو فیصد پر بات چیت جاری ہے اورقوم اس حوالے سے جلد ہی خوشخبری سُنے گی۔

’ہمیں معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی والے بھی نہ صرف امن چاہتے ہیں بلکہ وہ باعزت واپسی بھی چاہتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی نے جب آپریشنز کے دوران پاکستان چھوڑا تھا تو اس وقت قبائلی علاقے میں ایف سی آر کا قانون نافذ تھا جبکہ سال 2018 میں ان علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد یہاں پر قانون بدل چکا ہے، اس لیے بعض ایسے معاملات نے جنم لیا ہے جن کو حل کرنا ضروری ہے۔

کابل جانے والے اس جرگے یا کمیٹی کی قانونی حیثیت کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ اس میں وفاقی وزیر ساجد طوری اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی موجودگی بہت واضح پیغام ہے کہ اس کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل سے واپس آنے کے بعد اُن کی کمیٹی پندرہ دن میں دوبارہ ملے گی اور اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کی قیادت نے وفاقی کابینہ میں اپنے وفاقی وزیر ساجد طوری کو کابل میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حالیہ مذاکراتی عمل میں حصہ لینے پر شوکاز نوٹس جاری کیا ہے اور پارٹی قیادت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نوٹس کا تسلی بخش جواب نہ دینے پر ان کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

پیپلزپارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی اورایک اور اہم رہنما نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ساجد طوری جو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 46 قبائلی علاقہ سات سے پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں، کابل میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں بلااجازت شرکت پر کارروائی کی زد میں آئے ہیں۔

ساجد طوری کے علاوہ پارٹی کے ایک اوررہنما اخونزادہ چٹان بھی ان مذاکرات میں شامل تھے تاہم ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی جس کے بارے میں ان پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے بارے میں بنیادی طور پر ملنے والی معلومات کے مطابق وہ پارٹی سے اجازت لے کر ان مذاکرات میں شریک ہوئے تھے۔

بعد ازاں سنیچر کو زرداری ہاؤس اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں دہشت گردی کے مسئلے خصوصاً افغان طالبان کی حکومت کے تعاون سے تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان سے جانے والے زعما کے مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس کی صدارت سابق صدر آصف علی زرداری اورچیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی جس میں پارٹی کی سینئر قیادت نے شرکت کی۔

اس حوالے سے جاری کئے گئے بیان میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کو کرنے چاہیے ہیں اور اس لیے ان مذاکرات کے معاملے پر بھی پارلیمنٹ کو آن بورڈ لیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے پر آگے کے راستے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا۔

پیپلزپارٹی کی جانب سے ان مذاکرات کے تناظر میں پارٹی کے وفاقی وزیر کے خلاف یہ اقدام اور پارٹی بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ ان کی اتحادی حکومت کی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب تین جون کو ہی ان مذاکرات کا نہ صرف خیرمقدم کرچکی ہیں بلکہ اس کو حکومتی حمایت حاصل ہونے کا بھی عندیہ دے چکی ہیں۔

وزیراطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سرپرستی حکومت کر رہی ہے جس میں افغان حکومت ان کو مدد فراہم کر رہی ہے اور ان مذاکرات میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں موجود ہے۔

ایک بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ سارا عمل آئین پاکستان کے تحت ہو رہا ہے اور جب بھی یہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے گی تو اسے حکومت اور پارلیمان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہو گی۔ اپنے بیان میں انھوں نے طالبان کی جانب سے سیزفائر میں توسیع کا خیرمقدم کیا تھا۔

رواں ماہ کی دو اورتین تاریخ کو پاکستان کے تمام قبائلی اضلاع اورخیبرپختونخوا کے بعض دیگر علاقوں سے پچاس سے زائد زعما نے کابل میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوروزہ دور میں حصہ لیا تھا جس میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب موجودہ وفاقی وزیر ساجد طوری بھی شامل تھے۔

مذاکرات میں شامل خیبرپختونخوا کے وزیراعلٰی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے جنھوں نے اپنی اور کچھ وزرا کی اس کمیٹی میں موجودگی کے بارے میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ سب ان مذاکرات میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی حیثیتوں میں شریک ہیں تاہم پیپلزپارٹی نے ساجد طوری کے خلاف پارٹی سے اجازت نہ لینے پر کاروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کے قبائلی اضلاع میں فوج اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں تیزی دیکھنے کو ملی تھی جس کے بعد گذشتہ سال اکتوبر میں افغان طالبان کی مدد سے پاکستانی فوج اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔

دوحہ مذاکرات سے منسلک بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مابین دوحہ میں مذاکرات کے دوران پاکستانی حکومت کو افغان طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ہونے پر طالبان حکومت پاکستان کی بھی مدد کریں گے تاکہ پاکستان میں بھی امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے جس کے نتیجے میں گذشتہ سال اکتوبر میں افغان طالبان کی مدد کے ساتھ پاکستانی فوج اورٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔

پاکستانی فوج، تحریک طالبان، حملے
’یوں تو ٹی ٹی پی اور فوج کے مابین یہ جرگے اور رابطے کافی عرصے سے جاری تھے لیکن ان میں تیزی اس وقت آئی جب رمضان سے پہلے دسمبر کے مہینے میں جنوبی وزیرستان میں پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نجیب خان محسود کو نشانہ بنایا گیا‘

تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد اُن کی سرگرمیوں کے لیے سب سے زیادہ مشہور قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا سے تعلق رکھنے والے صحافی گوہر محسود کئی دہائیوں سے اس سارے عمل سے منسلک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لگتا ہے کہ فاٹا کے انضمام کو واپس کرنے کی یہ شرط طالبان نے اس لیے رکھی ہے تاکہ معاہدے کی صورت میں انھیں قبائلی علاقے میں آزادانہ نقل وحمل کی سہولت مہیا رہے اور اپنی حفاظت کے لیے وہ اسلحہ اور لوگ بھی ساتھ رکھ سکیں۔‘

گوہر محسود کہتے ہیں کہ ’یوں تو ٹی ٹی پی اور فوج کے مابین یہ جرگے اور رابطے کافی عرصے سے جاری تھے لیکن ان میں تیزی اس وقت آئی جب رمضان سے پہلے دسمبر کے مہینے میں جنوبی وزیرستان میں پیپلز پارٹی کے رہنما سردار نجیب خان محسود کو نشانہ بنایا گیا جس پر یہاں کے محسود قبائل کے ساتھ ساتھ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے بیٹنی اور وزیر قبائل بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور فیصلہ ہوا کہ اب خاموش رہنے کی بجائے اس معاملے پر طالبان سے بات کی جائے گی۔‘

گوہر محسود کے مطابق انھی دنوں کور کمانڈر پشاور لفٹیننٹ جنرل فیض حمید ٹانک میں سردار نجیب کے گھر فاتحہ خوانی کے لیے آئے اور یہیں پر محسود، بیٹنی اور وزیر قبائل پر مشتمل اس مقامی جرگے یا کمیٹی سے بھی ملاقات کی جو لوگوں نے خود سردار نجیب کے قتل کے بعد تشکیل دیا تھا۔

اس کمیٹی کی کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقات کے بعد اگلی ملاقات کور کمانڈر کے پشاور آفس میں ہوئی جہاں پر صلاح مشورے کے بعد حالیہ کابل مذاکرات کے لیے کمیٹی میں دیگر علاقوں اور قبائل سے بھی لوگ شامل کیے گئے جس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا۔

علاقے کی اس کمیٹی کی جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقات کے بعد اُن کے پشاور آفس میں ان حالیہ مذاکرات کے لیے یہ کمیٹی بنی جس نے کابل میں ان مذاکرات میں حصہ لیا۔

ان مذاکرات کے پہلے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں تحریک طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے فاٹا کی حیثیت میں تبدیلی کو ‘عالمی کفری ایجنڈا’ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سب کا مقصد قبائلی علاقے سے دینی اقدار اور جذبہ جہاد کو ختم کرنا تھا جس کی بدولت تین عالمی قوتوں برطانوی سامراج، سوویت یونین اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوئی۔

تاہم مذاکرات کے حوالے سے دوسرے بیان میں فاٹا انضمام کے خاتمے کا مطالبہ شامل نہیں تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ دو دن تک مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں طالبان قیادت نے تاحکم ثانی سیز فائر میں توسیع کا اعلان کیا ہے۔

طالبان قیادت آئین پاکستان کو غیراسلامی کیوں کہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں صحافی گوہر محسود کا کہنا تھا کہ طالبان کسی نئی اور جدید شریعت کو نہیں مانتے بلکہ وہ سینکڑوں سال پہلے نافذ ہونے والی شریعت کو ہی قبول کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا موقف ہے کہ آئین پاکستان لارڈ میکالے کا بنایا ہوا انگریز کا قانون ہے جس میں 1935 کے ایکٹ کی بہت سی شقیں شامل ہیں جس کے تحت آئین پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی کوئی راہ موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

محمود جان بابر کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author