ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری بجٹ بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو تو معاشی استحکام نہیں آ سکتا جیسا کہ کسی بھی بری خبر کا سٹاک ایکسچینج پر منفی اثر ہوتا ہے اسی طرح ملک میں امن و امان اور سیاسی صورتحال بہتر نہ ہو تو اس کے اثرات ملکی معیشت پر منفی ہوتے ہیں۔ جون بجٹ کا مہینہ ہے، موجودہ حکومت بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے ، حکومت کی طرف سے بجٹ تجاویز بھی طلب کی گئی تھیں، میں نے اپنے وسیب کے حوالے سے بہت سی تجاویز بھیجیں بلکہ ہر حکومت بجٹ تجاویز مانگتی ہے مگر کرتی اپنی مرضی ہے۔ گزشتہ سال تجاویز مانگی گئیں ، میں نے تجاویز بھیجیں اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تو میں نے پسماندہ علاقوں خصوصاً سرائیکی وسیب کی محرومیوں کے حوالے سے بہت سی تجاویز دیں۔ عمران خان نے تجاویز کو پسند بھی کیا اور رسمی طور پرکہا کہ ہم اپنے وعدے کے مطابق پسماندہ علاقوں کو ترقی دیں گے اور صوبے کے قیام کیلئے بھی پیشرفت کریں گے مگر ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد ‘‘والا معاملہ ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو تقسیم کے وقت جو مسائل ملے ان میں اضافہ تو ہوا لیکن آج تک مسائل کے حل کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، جب سے پیدا ہوئے ہیں پانچ سالہ منصوبوں کا شور سنتے آ رہے ہیں مگر کسی پانچ سالہ منصوبے نے عوام کو کوئی فائدہ نہیں دیا۔ ملک کے بڑے بڑے بنیادی مسائل کے حل کیلئے سوچا بھی نہیں گیا، تقسیم کے وقت ہندوستان کے نو صوبے تھے آج وہاں چھتیس صوبے ہیں ، وہاں کسی ایک زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل نہیں بلکہ وہاں کی قریباً سولہ بڑی زبانیں قومی زبانیں ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں صرف باتیں کرتی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کے دور میں سرائیکی صوبے کا بل سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہو چکا ہے ، آئین ساز ادارے سے صوبے کو آئینی وقانونی حیثیت حاصل ہونے کے باوجود اس بارے پیشرفت نہیں کی جا رہی۔ بجٹ کو صرف اکانومی کا ہیر پھیر اور لفظوں کا گورکھ دھندہ نہ بنایا جائے بلکہ اہم قومی امور پر بھی پیشرفت کی جائے۔ کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا اور درست کہا کہ زرعی شعبے پر توجہ اور زرعی علاقوں کی ترقی ملک کی تقدیر بدلنے کا باعث بن سکتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آج تک زراعت پر توجہ نہیں دی گئی، سرائیکی وسیب بنیادی طور پر زرعی خطہ ہے ، سرائیکی وسیب میں خام مال اور افرادی قوت وافر مقدار میں موجود ہے، مگر آج تک اس میں ایک بھی ٹیکس فری انڈسٹریل زون نہیں بنایا گیا۔ سرائیکی وسیب میں قحط کی صورتحال جنم لے رہی ہے ، چولستان میں پیاس سے انسان اور جانور مر گئے، وسیب میں پانی کی شدید قلت کے باعث فصل خریف کی کاشت میں نمایاں کمی آئی ہے ، پٹرول اور ڈیزل کو آگ لگی ہوئی ہے، کھادیں اور زرعی ادویات بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں، ایسے حالات میں زراعت کا شعبہ کس طرح ترقی کرے گا؟۔ میں نے بجٹ تجاویز میں لکھا کہ حکومت کو پسماندگی کے خاتمے کی طرف توجہ دینی چاہئے، موجودہ حکومت کی مدت مختصر یعنی سال سوا سال ہے مگر منصوبے قلیل مدت کیلئے نہیں ہونے چاہئیں اور ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کو 10 پندرہ سال کیلئے موقوف کر کے پسماندہ علاقوں کو اوپر لے آیا جائے۔ محرومی کی وجہ پر ہم غور کریں تو پاکستان میں کسی بھی لحاظ سے وسائل کی کمی نہیں ، دراصل کرپشن، سمگلنگ، ٹیکس چوری، سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری رویے ، بد ترین لوڈ شیڈنگ ، بد امنی ، انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے وسائل نے غریبوں کیلئے روزگار ، تعلیم اور صحت کے دروازے بند کر دیئے ہیں ، آج اکیسویں صدی میں بھی غریب کو پینے کا صاف پانی مہیا تک نہیں ، کروڑوں انسان پاکستان میں سسک سسک کر مر رہے ہیں ۔ ملاوٹ شدہ بیج و زرعی ادویات کسانوں اور کاشتکاروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، طبقاتی تعلیم اور بھاری فیسوں نے غریب کو تعلیم سے محروم کیا ہوا ہے ، جو غریب بیرون ملک جاکر اپنی شب و روز کی محنت سے حکومت کو اربوں روپے کا زر مبادلہ بھجوا رہے ہیں تو ان کے گھر والوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں اور وہ واپس آتے ہیں تو ایئر پورٹس پر ایمیگریشن والے ان کو ذلیل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک کامیاب ریاست نہیں بن سکی۔ موجودہ دور میں مہنگائی جس تناسب سے بڑھی ہے ،بجٹ میں اسی تناسب سے تنخواہیں اور غریبوں کی پنشن بڑھائی جائیں ۔ یہ کیا مذاق ہے کہ اراکین اسمبلی اپنی تنخواہیں دو سو فیصد تک لیتے ہیں اور غریبوں کی تنخواہیں محض دس فیصد بڑھائی جاتی ہیں ۔ محروم و پسماندہ علاقوں اور غریب طبقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک نہ کی گئی تو ملک کی سا لمیت کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ وفاقی بجٹ میں سرائیکی وسیب کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ کوئی نیا میگا پراجیکٹ نہیں دیا جاتا بلکہ وسیب کے جاری منصوبوں کیلئے بھی رقم مختص نہیں دی جاتی ۔ہم نے دیکھا کہ یوسف رضا گیلانی کو اقتدار ختم ہوا تو ان کے دور میں شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبے آج تک مکمل نہیں ہو سکے، خدشہ ہے کہ یہی حشر عمران خان اور عثمان بزدار کے دور میں شروع ہونیوالے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ نہ ہو ۔ اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، وفاقی بجٹ میں کاشتکاروں کو کپاس، گنے اور دیگر اجناس کی کم قیمتوں کا ریلیف نہیں دیا جاتا ، بلدیاتی اداروں کو بھی فنڈ ز نہیں ملتے ، کھیت سے منڈی تک سڑکیں بنانے کیلئے اقدام نہیں ہوتے ، دیہی معیشت تباہ ہو چکی ہے، غریب کا زندہ رہنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ بجٹ میں بڑے بڑے کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کو ریلیف د یا جاتا ہے مگر دیہاتوں میں چھوٹی صنعتوں کے قیام کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا ،بے روزگاری سے لوگ دوسرے صوبوں خصوصاً کراچی ، لاہور میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں ۔ افسوس ان ارکان اسمبلی کا ہے جو وسیب سے ووٹ لیکر اسمبلی جاتے ہیں مگر وہاں خاموش رہتے ہیں ، وفاقی بجٹ کے بعد پنجاب کا صوبائی بجٹ آ رہا ہے ،سرائیکی وسیب کو نظر انداز کیا گیا تو پسماندہ اور محروم خطے کا کیا بنے گا؟۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر