نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا گیا||ظہور دھریجہ

میں نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’اسمبلیوں سے استعفے نہ تو طریقہ کار کے مطابق دئیے گئے اور نہ ہی آئینی طریقہ کار کے مطابق قبول ہوئے

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقتدار کے دوران عمران خان کو اپوزیشن کے لوگ یوٹرن خان کا نام دیتے تھے، عمران خان کی یہ عادت اب بھی موجود ہے اور غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا گیا، عدم اعتماد کے بعد بھی فیصلے واپس ہوتے آ رہے ہیں جیسا کہ لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ الیکشن کے اعلان تک واپس نہیں جائیں گے مگر اسلام آباد پہنچ کر عمران خان نے دھرنا ختم کر دیا، اس فیصلے سے جہاں ان کے چاہنے والوں کو بہت مایوسی ہوئی وہاں مخالفین نے سیاسی طاقت حاصل کر لی۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کا بھر پور حصہ لینا بذات خود عمران خان کے اپنے فیصلے کی نفی ہے، فیصلہ لینے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان نئے الیکشن کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور بادل نانخواستہ اب وہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرانے جا رہے ہیں، کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کور کمیٹی کے بنی گالہ اجلاس میں بھی استعفوں کی مخالفت کی گئی ہے۔ روزنامہ 92 نیوز میں 19 اپریل کو میرا کالم ’’غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت‘‘کے عنوان سے شائع ہوا ، میں نے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’اسمبلیوں سے استعفے نہ تو طریقہ کار کے مطابق دئیے گئے اور نہ ہی آئینی طریقہ کار کے مطابق قبول ہوئے، ابھی تک کسی ایک رکن اسمبلی کی بھی رکنیت ختم نہیں ہوئی، اگر اجتماعی استعفے دینے ہیں تو پھر قومی و صوبائی تمام اسمبلیوں سے استعفے آنے چاہئیں تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیلئے پی ٹی آئی کے امیدوارنے الیکشن بھی لڑا اور خیبر پختونخواہ میں بھی ان کی حکومت موجود ہے،کوئی شخص یونین کونسل کی چیئرمینی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا یہ تو صوبائی اور قومی اسمبلیاں ہیں، میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ استعفوں کی سیاست سے گریز ہونا چاہئے‘‘۔ عجب بات یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کو سپیکر نے استعفوں کی تصدیق کیلئے بلایا توعمران خان نے ان کو روک دیا، بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ 17جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ راقم نے لکھا تھا کہ جلسوں اور پولنگ اسٹیشنوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطرفی کے بعد عمران خان نے بھرپور جلسے کئے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار کے دوران تحریک انصاف ضمنی الیکشنوں میں شکست سے دوچار ہوتی رہی، خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن بھی ہار گئی۔ 17 جولائی کے ضمنی الیکشن تحریک انصاف کیلئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتے ہیں ، پنجاب میں 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں اور یہ تمام کی تمام نشستیں تحریک انصاف کے ڈی سیٹ ہونیوالے اراکین اسمبلی کی تھیں، اگر (ن) لیگ ضمنی الیکشن میں شکست سے دوچار ہوتی ہے تو وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیٹیں پہلے بھی ہماری نہیں تھیں اور اگر تحریک انصاف الیکشن ہارجاتی ہے تو اس کو بڑا سیاسی دھچکا لگے گا اور پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت مزید مضبوط ہو جائے گی اور پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے چانس بھی ختم ہو جائیں گے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 17 جولائی کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی آئندہ سیاست کا تعین ہوگا، اگر وہ 20 میں سے 10 سیٹیں بھی ہار جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے سارے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ 17 جولائی کو ہونیوالے ضمنی الیکشن میں سرائیکی وسیب کی تقریباً نصف سیٹیں ہیں، ملتان میں بڑا مقابلہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے مخدومزادہ زین قریشی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار شیخ سلمان نعیم کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ شیخ سلمان نعیم نے 2018ء کے الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے مخدوم شاہ محمود قریشی کو اسی حلقے سے شکست دی تھی، اصل حقیقت یہ ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی تحریک انصاف کے امیدوار تھے جبکہ آف دی ریکارڈ سلمان نعیم کو بھی تحریک انصاف اور بذات خود عمران خان اور جہانگیر ترین کی سپورٹ حاصل تھی، سلمان نعیم کو شاہ محمود قریشی کے مدمقابل لانے کا مقصد شاہ محمود قریشی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے دور رکھنا تھا۔ سلمان نعیم کو لانے والے اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے، سلمان نعیم کو نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف میں شامل کیا گیا بلکہ بقول مخدوم شاہ محمود قریشی ان کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ترقیاتی منصوبوں کیلئے اربوں روپے کے فنڈز بھی دئیے، ایک بات یہ بھی ہے کہ 2018ء میں سرائیکی وسیب سے تحریک انصاف نے صوبے کے نعرے پر ووٹ حاصل کئے تھے ، اب سرائیکی وسیب میں تحریک انصاف شکست سے دو چار ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ ووٹروں نے ووٹ کی پرچی سے بدلہ لیا۔ موجودہ حکمرانوں کی بات کریں تو ساڑھے تین سال میں جتنا مایوس عمران خان نے کیا اس سے بڑھ کر صرف ڈیڑھ ماہ میں موجودہ حکمرانوں نے مایوس کر دیا۔ پٹرول ، ڈالر اور سونا قابو میں نہیں آ رہے، مہنگائی نے تمام حدود پار کر لی ہیں، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، علی پور میں ایک باپ نے مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آ کر اپنی تین معصوم بچوں اور اپنی بیوی کو چھری سے ذبح کر کے خودکشی کر لی، ایسا لگتا ہے کہ حالات موجودہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں، سرائیکی وسیب کے جو حالات ہیں اس کا تقاضہ یہی ہے کہ سرائیکی وسیب کو صوبہ بنایا جائے تاکہ وسیب کے لوگ تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل خود حل کر سکیں۔ قبل ازیں بھی لکھا جا چکا ہے کہنئے آنے والے حکمرانوں کے بارے میں پہلے کہا جاتا تھا کہ ایک سنتا نہیں، دوسرا سمجھتا نہیں، جو نہیں سمجھتا تھا وہ اب لندن میں بیٹھا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ عوام کو کتنا ریلیف دیتے ہیں اور وسیب کی محرومیوں اور صوبے کے قیام کیلئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں۔ عمران خان نے جو غلطیاں کیں ان میں 100دن میں صوبہ بنانے کے وعدے کے باوجود اقدامات نہ کرنا، نا اہل مشیروں پر انحصار، غیر ملکی قرضے لینا، آئی ایم ایف کی شرائط ماننا شامل ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ نئے حکمران ان غلطیوں سے کتنا سبق حاصل کرتے ہیں‘‘۔ یہ حقیقت ہے کہ غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا گیا، ہر آنے والا حکمران ملبہ پچھلے حکمرانوں پر ڈال کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ منطق اب ختم ہونی چاہئے ،جانے والا چلا گیا اب حکومت آپ کی ہے اور جوابدہ بھی آپ ہیں۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author