ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے مزید اضافہ کردیا ہے جس کے بعد پٹرول ملکی تاریخ میں پہلی بار 210روپے فی لیٹر سے تجاوز کرگیا ،وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ خوفناک بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ گزشتہ حکومت نے ساڑھے تین سال میں پٹرول کی قیمتوں میں جتنا اضافہ کیا موجودہ حکومت نے اتنا اضافہ دو ہفتوں کے دوران کر دیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا اور اشیائے صرف کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ غریب عوام پر مزید ظلم یہ کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف پر7 روپے 91 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دیدی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف ملک گیر احتجاج کی کال دی، ان کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کو مستردکرتے ہیں ، ہماری حکومت روس سے سستا تیل لینے کی بات کر رہی تھی مگر امپورٹڈ حکومت امریکا کو خوش کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اطلاق سے قبل پٹرول پمپ انتظامیہ نے زیادہ منافع کمانے کی لالچ میں پٹرول کی فراہمی بند کر دی جس پر وسیب کے مختلف علاقوں اور کراچی میں مہنگائی کے خلاف احتجاج مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔ مختلف علاقوں میں پٹرول کی قیمت میں اضافے اور عدم فراہمی پر مشتعل افراد نے متعدد پٹرول پمپوں پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی، شہریوں کی بڑی تعداد رات بارہ بجے سے قبل پٹرول کے حصول کے لیے پمپوں پر پہنچی تو رش کے باعث انتظامیہ نے پمپ بند کر دئیے جس کے باعث شہریوں میں اشتعال پھیل گیا۔ پٹرول کی عدم دستیابی پراحتجاج کرتے ہوئے مشتعل افراد نے توڑْ پھوڑ اور جلائوگھیرائو بھی کیا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے پندرہ روز میں پٹرول کی قیمت میں 60 روپے کا اضافہ کر کے قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی ہے۔ احتجاج کی اطلاعات پر پولیس کی جانب سے گشت میں اضافہ کر دیا گیاہے جبکہ ضرورت گشت میں اضافے کی نہیں قیمتوں میں کمی کی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک ہی ہفتے کے دوران مزید 30 روپے اضافے کے اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں،مختلف شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سفر بھی مہنگا ہونا شروع ہو گیا جبکہ ٹرینوں اور ائیر لائنز کے کرایوں میں بڑا اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔ ریلوے حکام ملک بھر میں چلنے والی ٹرینوں کی تمام کلاسوں میں 20 فیصد اضافے کی تجویز پرغور کررہے ہیں۔ کرایوں میں اضافے کا بوجھ غریب عوام پر پڑے گا۔ غریب پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، ترقی کی بجائے تنزلی ہو رہی ہے، پٹرول کی قیمت میں خوفناک اضافے کے بعد لوگ موٹر سائیکلوں کی بجائے سائیکل کی طرف آ رہے ہیں۔ ٹیکسی اور رکشہ والے اپنی جگہ پریشان ہیں کہ کرایوں میں اضافے سے سواری نہیں مل رہی اور بیروزگاری پہلے بھی زیادہ ہے۔، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں موجودہ اضافے سے بیروزگاری میں خوفناک اضافہ ہوگا۔ ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے ملک کی کثیر آبادی وابستہ ہے، آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ اونرز فیڈریشن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اضافہ واپس نہ لیا گیا تو ٹرانسپورٹڑ احتجاجاً گاڑیاںکھڑی کر دیں گے اور عملے کو فارغ کر دیا جائے گا۔پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کے بعد ہماری لئے گاڑیاں چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کی بات میں وزن ہے۔ حکومت سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالنے کی بجائے مالدار اور صاحب حیثیت افراد پر بوجھ ڈالے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے افسروں کو نہ صرف مفت پٹرول، بجلی، گیس اور فون کی سہولتیں حاصل ہیں بلکہ انہیں ان کے بچوں اور اہل خانہ کے ہمراہ مفت فضائی سفر اور لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کی طبی سہولتیں حاصل ہیں۔قرضوں میں جکڑے پاکستان کے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر اشرافیہ طبقے اور اعلیٰ سرکاری افسران کو مراعات دے کر عوام کے ساتھ ہمدردی کے دعوے سوائے مذاق کے کچھ نہیں۔حقیقی معنوں میں غریبوں کو مراعات دینا ہوں گی ۔ ان کے مسائل اور محرومی کے بارے میں سوچنا ہوگا ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام کی تکالیف کے احساس کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں لیکن سرکاری افسران کو حکومت کی طرف سے دی جانے والی مہنگی اور غیر ضروری سہولتیں ختم کرنے کی بات کوئی نہیں کرتا۔ مفتاح اسماعیل کی یہ منطق بھی درست نہیں کہ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، وزیر خزانہ کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ مہذب دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے والے حکام خود مفت سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وزراء اور افسران کے لئے پٹرول کا 40 فیصد کوٹہ کم کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بچت کرنی چاہئے تاکہ خزانے پر بوجھ کم پڑے اور غریب کو فائدہ ہو،یہی اقدام پاکستان کے خادم اعظم اور پنجاب کے خادم اعلیٰ کو بھی کرنا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازمین کو نہ صرف مفت پٹرول ،بجلی اور دیگر مراعات حاصل ہیں بلکہ انہیں سرکاری گاڑیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں جو دفتری اوقات کے علاوہ شام اور رات کے اوقات میں بھی ان کے اہل خانہ کے زیر استعمال ہوتی ہیں۔ اگر بچت کرنا چاہتے ہیں تو سرکاری افسران کو اس بات کا پابند کرنا ہوگا کہ وہ وسائل کا بے دریغ اور غلط استعمال نہ کریں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر پسماندہ اور غریب طبقے پر زیادہ ہوتا ہے، آئل مافیا نے راتوں رات اربوں روپے کما لئے مگر میرے وسیب میں آ کر اس کسان سے پوچھئے جو مہنگی کھاد، بیج اور زرعی ادویات سود پر حاصل کرکے کاشتکاری کرتا ہے ، نہری پانی کی پہلے ہی قلت ہے، اب ذرا سوچئے کہ مہنگے ڈیزل اور مہنگی بجلی سے کس طرح زمینوں کو سیراب کرے گا؟، یقینا زرعی پیداوار میں کمی ہو گی جو کہ ملکی معیشت کیلئے تباہی کا باعث ہے، حکمرانوں کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر