نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کا تاریخی منظر نامہ||ظہور دھریجہ

معصوم بچوں ، بزرگ اور بیمار مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو نہ صرف بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ آج کشمیری مسلمان جن حالات و واقعات کا شکار ہیں اس کا باعث بھی کشمیر کا راجہ گلاب سنگھ ہے۔ 2 جون 1818ء کو نواب مظفر خان نے حملہ آور سکھا فوج سے جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا،

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب مظفر خاں 1757ء ملتان کے شاہی محل ابدالی روڈ نواب شجاع الدین کے گھر پیدا ہوئے، نواب مظفر خاں کی تعلیم و تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی وہ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانیؒ کے شاگرد بنے اور بعد میں وہ اُن کے مرید بھی ہوئے، نواب مظفر خاں ملتانی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے اور وہ ملتان کا اس قدر حصہ بنے کہ اُن کا رہن سہن، لباس و خوراک کے ساتھ ساتھ بول چال بھی ملتانی تھی۔ 1777ء اُن کے والد فوت ہوئے تو انہیں تخت نشینی ملی ،اس پہلے سکھوں کے ملتان پر ان گنت حملے ہوئے اور نواب مظفر خاں ملتان کے سپاہ کے ساتھ سکھوں کا مقابلہ کرتے رہے، نواب مظفر خاں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سلطنت ملتان کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ملتان کی صنعت و حرفت کے ساتھ ساتھ سلطنت ملتان کی زراعت کو ترقی دے کر ملتان کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ کیا اور ملتان کو خوشحال ریاست بنا دیا، اس خطے کا ہر شخص خوشحالی کی زندگی گزارنے لگا،ہر طرف خوشحالی کا دور تھا، باوجود اس کے کہ 18فروری 1778ء سے لیکر 2جون 1818ء تک 28 سال 3ماہ 14 دن کا عرصہ ملتان کیلئے پر آشوب تھا، تخت دہلی کمزور پڑ چکا تھا، انگریز تخت دہلی پر قبضہ کی طرف بڑھ رہے تھے اور انگریزوں کی شہ پر سکھوں کے ڈاکو جتھے ملتان پر مسلسل حملوں میں مصروف تھے اس کے باوجود سلطنت ملتان میں زراعت کی ترقی کیلئے نہریں کھودی گئیں ، باغات لگوائے گئے، سڑکوں کی تعمیر ہوئی اور قلعہ مظفر گڑھ سمیت بہت سے نئے قلعے بنوائے گئے۔ ان دنوں ملتان ادب و ثقافت کا مرکز تھا، ہنر مندوں اور کاریگروں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی ہوتی تھی مگر قبضے کے بعد حملہ آوروں نے سب کچھ اجاڑ کر رکھ دیا۔ تمام حالات و واقعات تاریخی کتب میں درج ہیں، ایک کتاب مکتوبات سید احمد شہید از محمد جعفر تھانیسری شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی (طبع اوّل جنوری 1969ء ) کے پیش لفظ میں اقبال سلیم گاہندری لکھتے ہیں کہ ’’1803ء میں دہلی پر انگریز قابض ہو چکے تھے اور دریائے ستلج کے اُس پار سکھوں کی وہ ظالم اور سفاک حکومت قائم تھی جس نے مسلمانوں کے لئے زندگی محال کر رکھی تھی، مذہبی رواداری کا کوئی تصور بھی سکھ حاکموں کے ذہن میں نہ تھا، حتیٰ کہ سکھ سلطنت کی حدود میں اکثرجگہ اذان تک ممنوع تھی، جامع مسجدوں میں گھوڑے باندھے جاتے تھے، محراب و مسجد گاہ سے اصطبل کا کام لیا جاتا تھا‘‘۔ الیگزینڈر برنز جو ایک انگریز سیاح تھا،15جون 1831ء کو ملتان میں آیا، اُس نے آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کیا ہے کہ ’’شاہ شمس سبزواریؒ کا مزار گوردوارے میں تبدیل ہو چکا ہے ، کوئی نماز باجماعت ادا نہیں ہوتی ، عید اور محرم کے تہوار کسی اہتمام کے بغیر گزر جاتے ہیں ، اللہ اکبر کی صدا کہیں بھی نہیں سنی جاتی‘‘۔ سکھوں کے مظالم کے بارے میں پڑھنا ہو تو مولانا اسماعیل شہید کو پڑھیے جن کے دور میں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم پیش آئے ۔ معصوم بچوں ، بزرگ اور بیمار مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو نہ صرف بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ آج کشمیری مسلمان جن حالات و واقعات کا شکار ہیں اس کا باعث بھی کشمیر کا راجہ گلاب سنگھ ہے۔ 2 جون 1818ء کو نواب مظفر خان نے حملہ آور سکھا فوج سے جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، سکھ فوج نے قلعہ ملتان پر قبضہ کر لیا، نواب کی آل میں سے دو بیٹے اور چند سپاہی جو زندہ بچے قیدی کر لئے گئے اور انہیں لاہور بھیج دیا گیا ، تاریخ میں یہ ’’ قیدی تخت لہور دے‘‘ کہلائے ،سقوطِ ملتان کے بعد سکھ فوج نے لوٹ مار شروع کر دی ٗ سرکاری خزانہ لوٹنے کے بعدفوج گھروں میں داخل ہوئی ، وہاں بربریت کی انتہاء ہوئی ، وہاں لوٹ مار کے علاوہ انسانوں کو تہ تیغ کیا گیا ، بچوں کو سانگوں پر ٹانگ دیا گیا ، تاریخ کی کتب میں درج ہے کہ غیرت کا یہ عظیم واقعہ بھی ملتان کے حصے میں آیا کہ اپنی عصمت و ناموس کو بچانے کیلئے ملتان کی سینکڑوں و ہزاروں دوشیزائوں نے کنوئوں میں چھلانگیں مار دیں اور جب کنویں لاشوں سے بھر گئے تو ان کے منہ بند کر کے انہیںاجتماعی قبریں قرار دیدیا گیا، سکھ دور بد امنی، لوٹ مار اور انسانیت سوز واقعات کا دوسرا نام تھا، مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم کیا جاتا ، انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی ، سکھا شاہی اسی دور کی ایک اصطلاح ہے جو ظلم کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ سرائیکی وسیب اور اس کا مرکز ملتان جن حالات سے گزر رہا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ ملتان کے اس خطے کے بارے میں تحقیق اور ریسرچ کی جائے ، اس علاقے کے لوگ ہمیشہ اعلیٰ عہدوں پر بر سر اقتدار رہے مگر اس طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ فاروق خان لغاری سربراہ مملکت ،مخدوم سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے عہدے پر پہنچے مگر وہ بھی کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کر سکے جو خطے کی تاریخ ، ثقافت اور جغرافیہ پر ریسرچ کرتا ۔ ملک مصطفی کھر پنجاب کے سربراہ بنے تو انہوں نے خود کو شیر پنجاب کہلوانا شروع کر دیا حالانکہ شیر پنجاب سکھ مہاراجے کا لقب تھا اور اس کے بعد شیر پنجاب کی پگ اس کے بیٹے کھڑک سنگھ کے سر پر آئی ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے جو ’’ رہنما ‘‘ ہیں انہیں خود راستے کا پتہ نہیں ، نہ وہ تاریخ کا علم جانتے ہیں اور نہ اُن کو جغرافیے کا پتہ ہے اور نہ ہی اس خطے کی تہذیب و ثقافت کا ادراک رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں نے ہماری کیا رہنمائی کرنی ہے؟ اور ہمیں کیا راستہ دکھانا ہے؟ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کے 99 فیصد رہنماؤں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ سقوطِ ملتان کیا ہے اور ملتان کے لئے اپنے اہل و عیال کی قربانی دینے والے نواب مظفر خان شہید کا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اور تو اور انہیں اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ مظفر آباد اور مظفر گڑھ کس شخصیت کے نام پرموسوم ہیں ؟ پوری دنیا میں سرائیکی شاید واحد خطہ ہو جسے آشکار ہونے کی ضرورت ہے ‘ اگر ریسرچ سکالر اس بارے توجہ کریں تو حیرتوں کے بہت سے جہان تلاش کر سکتے ہیں ۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author