ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں جاری سیاسی بحران سے بہت نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی طور پر پہلے ہی ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، رہی سہی کسر سیاسی جھگڑوں نے پوری کر دی۔ معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، بہت ہو چکا اب آئندہ کیلئے ملک کی بہتری کا سوچنا چاہئے ، اس سلسلہ میں دونوں فریق تحریک انصاف اور پی ڈی ایم اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ملک بچانے کا ٹھیکہ صرف ہم نے نہیں لے رکھا، اداروں کو بھی ذمہ داری نبھانی چاہئے، ان کا کہنا ہے کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ ادارے تماشہ دیکھ رہے ہیں، اداروں سے مراد فوج اور عدلیہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان پہلے خود کہتے رہے ہیں کہ اداروں کو سیاست سے دور رکھا جائے اور ان کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ اداروں کو مداخلت کی دعوت دینے کی بجائے عمران خان کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہئے۔ غلط فیصلوں سے پہلے ہی وہ اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا چکے ہیں، اب ان کو آگے کا سوچنا چاہئے ، وہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں ، اگر الیکشن کا اعلان نہیں ہوتا تو ان کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان جب برسراقتدار تھے تو مسلسل کہتے رہے کہ کسی کو این آر او نہیں دونگا عمران خان کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں خصوصاً (ن) لیگ کو بھی عوام کی بہتری کیلئے درست فیصلے کرنے چاہئیں اور آئندہ کا سوچنا چاہئے۔ سابقہ دور ہو یا موجودہ غریب عوام کا مہنگائی سے کچومر نکال دیا گیا ہے۔ پہلے والے اور موجودہ حکمران ایک دوسرے کو الزام دیتے آ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے غریبوں پر پٹرول بم گرایا اور ایک دم 30 روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا، ابھی وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ مزید اضافہ ہوگا۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ پر سوشل میڈیا بھی تنقید کی جا رہی ہے ، ایک صارف نے پوسٹ کی کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پٹرول سمری پر دستخط کرنے کے بعد وزیر اعظم پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ اس پر ایک لطیفہ یادآیا کہ قاضی کے پاس دو آدمی ایک خوبصورت عورت کے ساتھ پیش ہوئے، دونوں نے عورت سے شادی کا دعویٰ کر دیا اور انصاف کی التجا کی۔ قاضی نے دونوں سے طلاق لکھوا کر عورت سے خود نکاح کر لیا اور دونوں کا کیس خارج کرنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، پھوٹ پھوٹ کر رونے کی وجہ پوچھی گئی تو قاضی صاحب نے آنسو پونچھتے ہوئے درد بھرے لہجے میںکنا میرے مرنے کے بعد ایسے منصفانہ فیصلے کون کرے گا؟۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ٹرانسپورٹرز نے بھی کرایوں میں 20 فیصد اضافہ کر دیا ہے نام 20فیصد کا ہوتا ہے ، نجی ٹرانسپورٹر حالات میں اس سے بھی زیادہ اضافہ کر دیتے ہیں۔ بہاولپور آنا جانا رہتا ہے، ایک نجی کمپنی کچھ عرصہ پہلے ملتان سے بہاولپور کا کرایہ 280 روپے لیتی تھی مگر گزشتہ روز سے بہاولپور جاتے وقت 350 روپے لئے گئے اُسی دن شام کو واپس ملتان کیلئے روانہ ہوا تو 400 روپے لئے گئے، اب بتائیں عام آدمی جائے تو جائے کہاں؟۔ پاکستان ریلوے نے بھی یکم جون سے کرائے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے ، غربت اور بیروزگاری کی حالت ہر آئے روز زبوں ہوتی جا رہی ہے، جس کے پاس بہت دولت ہے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران روسٹرم پر آکر کہا کہ میں صوبے کا خادم رہا ہوں، سرکاری خزانے سے تنخواہ لی نہ کبھی ٹی اے ڈی اے لیا۔ پٹرول بھی خود ڈلواتا ہوں، میری تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے کی رقم 7، 8 کروڑ روپے بنتی تھی جو میرا قانونی حق تھا، میں نے تو سبسڈی نہیں دی جس سے میرے خاندان کو 2 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ وزیر اعظم خود کو 2 ارب روپے کے نقصان کا کہہ رہے ہیں ان کو 200 ارب کا نقصان بھی ہو جائے تو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ گزشتہ روز (ن) لیگ نے بہاولپور سٹیڈیم میں جلسہ کیا، جلسہ سے مسلم (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے خطاب کے دوران عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ، تقریر کا بیشتر وقت عمران خان کے خلاف ہی تھا، ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد چڑھائی کے دوران خیبرپختونخواہ کے سرکاری وسائل خرچ کئے گئے اور ہیلی کاپٹر بھی وزیر اعلیٰ کا استعمال ہوا، دونوں رہنمائوں کی یہ بات درست ہے کہ عمران خان اب وزیر اعظم نہیں رہے۔مگر کیا حکومت یہ بتا سکتی ہے کہ مریم نواز کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے نہ ہی ان کا استحاق پھر حکومت ان کی سکیورٹی پر سرکاری خزانے سے کروڑوں کس قانون کے تحت خرچ کر رہی ہے۔ سچ تو ہی ہے کہ اس حمام میں سب بے لباس ہیں۔ سیاسی مقاصد کیلئے ان کو سرکاری وسائل خرچ کرنے کا حق حاصل نہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہاولپور کے جلسہ میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہوا، کارپوریشن کے ملازمین کی جلسہ میں حاضریاں لگوائی گئیں، دونوں فریقین کو اس سے اجتناب برتنا چاہئے۔ حمزہ شہباز نے اپنی گرج دار تقریر میں کہا کہ صوبہ محاذ بنانے اور صوبہ بنانے کا ڈھونگ رچایا گیا، اب عمران خان جواب دیں کہ صوبہ کہاں ہے؟۔ معذرت کے ساتھ یہی ڈھونگ 2013ء کے الیکشن میں (ن) نے بھی رچایا اور منشور میں لکھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد ہم دو صوبے بنائیں گے۔ اسی نعرے پر (ن ) لیگ نے الیکشن لڑا ، دو تہائی اکثریت کیساتھ برسراقتدار آئی مگر پورے پانچ سال کے عرصہ میں صوبے کا نام تک نہ لیا، حالانکہ وہ صوبہ بنا سکتے تھے۔ سوال اتنا ہے کہ وسیب کے لوگ کس کس ڈھونگ کی بات کریں اور کس کس ہاتھوں پر اپنے خون کا لہو تلاش کریں کہ سب نے دستانے پہن رکھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر