محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھر کے کنویں میں کتا گر گیا وہ شخص عالم دین کے پاس گیا کہ اب پانی کیسے صاف ہوگا انہوں نے کہا کہ کنویں کا سو بوکے پانی نکال کر بہا دو پانی صاف ہوجائے گا وہ شخص ایسا کرکے پھر آیا کہ پانی میں اب بھی کتے کی بدبو موجود ہے عالم دین نے مزید ایک سو بوکے پانی نکالنے کا کہا تیسری بار پھر وہ شخص آیا اوروہی شکایت کی کہ پانی میں سے بدبو ختم نہیں ہورہی تو عالم دین نے پوچھا یہ تو بتاو وہ کتا بھی پانی سے نکالا ہے یا ابھی اندرہی پڑا ہے تو اس شخص نے کہا نہیں کتا تو ابھی کنویں میں پڑا ہوا ہے تو عالم نے سرپیٹھ لیا اورکہا کہ پہلے کتا نکالو پھر پانی نکال کر بہاو تو بدبو ختم ہوگی جب تک کتا پانی میں پڑا ہے سارا پانی بھی نکال کر بہادوگے تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔
یہی حال مملکت پاکستان کا ہے اس کے کنویں میں جو کتا پڑا ہے اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا سب لوگ پانی کے بوکے نکالی جارہے ہیں دھرنے میں کتنے لوگ تھے، پولیس نے شیلنگ کی، درخت جلائے گئے، انتخابی قوانین میں تبدیلی کی ترمیم منظورکرلی گئی، امریکہ نے سازش کی۔ کتنی بھی ضمنی چیزوں پر بحث کرلواصل مقصد اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک آئین کو بیچ میں رکھ کر پورا معاشرہ سیاسی جماعتیں، فوج، عدلیہ اوربیوروکریسی توبہ تائب نہ ہوجائے کہ اب کے بعد سے اصل پودوں کے گرد خود رو بڑھتے جھاڑ جھنکار کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔
عمران خان دھرنا کرکے کامیاب رہا یا ناکام، مسلم لیگ ن اوراس کے اتحادی پیپلزپارٹی اورجمعیت علما اسلام کے بھائیوں اوربچوں پر مشتمل حکومت کچھ کرپائے گی یا نہیں، لوگ چھ دن بعد عمران خان کے ساتھ پھر نکلیں گے یا نہیں یا ساری باتیں ضمنی اوربے معنی ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کی مندرجہ بالا اکائیاں اپنے مفادات سے ہٹنے کو تیار نہیں اوراس مقصد کے لئے سب نے اپنا اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے ان تمام اداروں اور میڈیا میں اپنی اپنی مرضی کے لوگ بٹھارکھے ہیں جو ان سب کے بارے میں یہ خبریں دیتے ہیں کہ انہوں نے غلطی سے بہت کچھ سیکھا ہے اوراب وہ بدل گئے ہیں اور اب کے بعد ان کا مقصد اپنے مفاد کے تحفظ کی بجائے صرف پاکستان کی خوشحالی اوربقا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا آنکھ اورکان کہلانے والا میڈیا مختلف گروہوں کے مفاد کا تحفظ کرنے میں مصروف اورمختلف قسم کی لائنز لے کر چل رہا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے گھر میں تو ایک کتا کنویں میں گرا تھا یہاں مملکت خداداد کے کنویں میں تو بہت سارے کتے گرے پڑے ہیں اوراگر کوئی خیرخواہ ان میں سے کسی ایک کی طرف ہاتھ بڑھا کر انہیں نکالنے کی کوئی کوشش کرتا ہے تو متعلقہ گروہ کے کارندے اسے ایسا کرنے سے روک لیتے ہیں۔
خود ہماری اپنی میڈیا کی حالت یہ ہے کہ اب اس میں اینکرز کے ساتھ ساتھ خطیبوں کی بھی ایک قسم پروگراموں کو چلاتی ہے وہ جب عمران خان کے حق میں بات کرتے ہیں تو ان کے لہجے صحافیانہ سے زیادہ خطیبانہ ہوتے ہیں وہ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ یہ سب ضمیر کی آواز پر کررہے ہیں حالانکہ ان کو نہیں معلوم کہ صحافت میں لوگوں کو صرف اطلاع دینا، ان کو اس معاملے پر آگاہی دینا اور ان کی تفریح کے لئے کام کرنا ہی صحافی کا کام ہے یہ کام تو اس کا کبھی رہا ہی نہیں جو یہ صحافی نما لوگ کسی بھی گروہ کی مفاد کے ٹھیکے دار کے طورپر اپنے ذمے لے کر اسے انجام دے رہا ہے۔
ان کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ صحافی وہ بھی ہیں جنہوں نے عمران خان کے دور میں حکومت کو کسی بھی طریقے سے ناکام ثابت کرنے کا کام اپنے ذمے لے رکھا تھا اوراب وہ ان ساری باتوں پر خاموش ہیں جن کے لئے وہ عمران خان کی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے تھے۔
یہ صحافی اخلاقیات کے نام پر مریم نواز کی تضحیک پر عمران خان کے خلاف کھلم کھلا بات کرتے تھے لیکن ان میں وہ بھی ہیں جو عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف مولانا فضل الرحمن کے راشد سومرو کی انہی قسم کی باتوں پر خاموش ہیں۔ مذہب کے استعمال پر لمبی لمبی تقریریں جھاڑنے والے اپنی پسند کے گروہ کے ہاتھوں ہونے والی حرکتوں پر بھی خاموش رہتے ہیں۔
انصاف کے نظام میں اگر اب بھی لوگوں کو سیف ایگزٹ دینے کا سلسلہ بند نہ ہوا، بیوروکریسی حالت نزع میں چلنے والے ملک کو بچانے کے لئے اگر اپنی تمام تر دانش و حکمت کو کام میں نہیں لاتی تو پھر اس کے بعد کسی کو بھی حالات پر افسوس کا حق نہیں رہے گا۔
الغرض جب تک تمام لوگ پوری ایمانداری سے اس کنویں سے اپنے اپنے کتے کی لاش کو نکال کر اپنے اپنے آئینی کردار تک محدود نہیں ہونگے تب تک یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا اوراس کے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اس کے بارے میں سری لنکا جیسی مثالیں زبانوں پرہونگیں۔
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ