وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کو جوڑنے والے کوہ سلمان پر واقع دنیا کا سب سے بڑا چلغوزہ جنگل اس وقت آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہ جنگل ساڑھے چھ لاکھ کلوگرام سالانہ چلغوزہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں چکور، ہرن، جنگلی بکرے، خرگوش سمیت بیسیوں بے زبان چرند و پرند پائے جاتے ہیں۔
مگر پچھلے ڈیڑھ ہفتے میں یہاں لگ بھگ سب بدل گیا۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔
نو مئی کو غیر معمولی خشک موسم میں آسمانی بجلی کڑکنے سے موسیٰ خیل کے علاقے میں پتوں نے آگ پکڑ لی اور 22 کلومیٹر کے دائرے میں آنے والے ہر درخت و پودے کو راکھ کرتی ہوئی چند روز میں خود ہی بجھ گئی۔ (موسی خیل جنگلی زیتون کے جنگلات کے سبب بھی جانا جاتا ہے۔ مگر یہاں تک پہنچنا آج بھی اٹھارویں صدی میں جانے جیسا ہے۔ جبکہ مکین اکیسویں صدی میں بھی پندرھویں صدی جیسی سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں۔)
موسیٰ خیل کی آگ کے دو روز بعد ضلع شیرانی کی جنگلاتی اونچائیوں پر آگ لگ گئی۔ اور یہ آگ تیرہویں روز بھی بھوکی ہے اور روز بروز لمبی ہوتی آتشیں زبان آٹھ سے دس کلومیٹر پرے ترائی میں آباد تقریباً 24 دیہاتوں کو چاٹنے کے لیے بے تاب ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کا جو ادارہ (این ڈی ایم اے) مشرف حکومت نے 17 برس قبل سنہ 2005 میں تشکیل دیا تھا وہ ہر قدرتی آفت کے موقع پر ہٹو بچو پکڑو کی تال پر تاتا تھئیا کے سوا کچھ کرنے کے قابل نہیں۔
ان 17 برسوں میں کسی بھی قدرتی آفت کے ماروں کے لیے تنبو، کھان پان یا انخلا کی مہارت دکھانے کے سوا کسی بھی نوعیت کی ناگہانی سے بروقت نمٹنے کی آلاتی و تربیتی صلاحیت اس ادارے کے جسدِ خاکی میں نہیں پھونکی جا سکی۔
جب موسیٰ خیل کی آگ خود ہی دم توڑ گئی اور جب شیرانی کے جنگلات کی آگ کو مقامی افراد محض جبلی صلاحیتوں کی بنیاد پر بجھانے کے لیے مقدور بھر کمر بستہ ہوئے اور اس کام کے دوران تین مقامی شہری بھی جاں بحق ہو گئے، تب کہیں جا کے این ڈی ایم اے ایک امدادی ہیلی کاپٹر ٹٹروں ٹوں جٹا پائی۔ ذرا آگ کا حجم دیکھیے اور ایک ہیلی کاپٹر پر بھروسہ چیک کریں۔
اب کہیں جا کے دو فوجی ہیلی کاپٹر پانی اور آگ بجھانے والے کیمیکل چھڑکنے کی صلاحیت آزما رہے ہیں۔ کچھ سامان لاہور سے منگوایا گیا ہے۔ سنا ہے ایران نے بھی جنگل کی آگ بجھانے کے خصوصی آلات سے مسلح طیارہ بھیجا ہے۔
ایسے موقع پر ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر آپ میں کسی آفت سے نمٹنے کی مقامی صلاحیت یا وسائل نہیں اور مقابلہ بھی وقت کے ساتھ ہے تو پھر بین الاقوامی امداد کا الارم بجا دینا چاہیے۔ تاکہ وہ ممالک اور ادارے جنھیں اس طرح کی ناگہانیوں سے نمٹنے کا تجربہ ہے آپ کے لیے عاریتاً یا رضاکارانہ کچھ کر سکیں۔
جب آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے آگے ہاتھ پھیلانے میں عار نہیں تو قیمتی قومی اثاثے بچانے کے لیے امداد کی اپیل میں آخر کس قسم کی غیرت مانع آ جاتی ہے۔
البتہ عالمی برادری سے اس طرح کی اپیل صرف وفاقی حکومت کرنے کی مجاز ہے۔ لیکن وفاقی حکومت کو تو عدالتی اپیلوں سے فرصت نہیں۔
رہی بلوچستان کی صوبائی حکومت تو وہاں ہمیشہ کی طرح ’گنجا کیا نہائے گا کیا نچوڑے گا‘ والا معاملہ ہے۔ متاثرین کے لیے معاوضے کا اعلان، متاثرہ علاقے کا زمینی و فضائی جائزہ اور ایک کے بعد دوسرا اجلاس، روزانہ تازہ رپورٹ کی طلبی اور امدادی گرانٹ کے اعلان کے سوا جو کبھی بھی متاثرین کی ہتھیلی تک نہیں پہنچے گی۔ بے چاری کوئٹہ حکومت کے بس میں اور ہے ہی کیا۔
جو ریاست اور اس ریاست کا ایک صوبہ صرف ایک ضلع ڈیرہ بگٹی کی ایک تحصیل پیرکوہ میں 40 ہزار کی آبادی کو ہیضے سے نہ بچا سکے اور پینے کا صاف پانی آج بھی وہاں آبِ زم زم کی طرح نایاب ہو، اس ریاست اور صوبائی حکومت سے سینکڑوں مربع میل پر پھیلے چلغوزہ جنگل کی آگ بجھانے کی مہارت کا مطالبہ کرنے والوں کو کچھ شرم اور کچھ حیا ہونی چاہیے۔
جس طرح پیر کوہ میں پھیلنے والا ہیضہ خود بخود ہی شرمندہ شرمندہ سمٹتا جا رہا ہے۔ اسی طرح اگر چلغوزہ جنگل چاٹنے والی آگ بھی کچھ اعلٰی ظرفی دکھا دے تو اس کی مہربانی۔
تو آئیے دوبارہ چلتے ہیں لکی پاکستانی سیاسی سرکس کے تنبو کی طرف۔ جہاں آج بھی پرانے مسخرے کچھ نئے کرتب دکھائیں گے اور آپ کو پہلے کی طرح پسند بھی آئیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر