عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کے آخر میں ولیم چیسٹر مائنر امریکی آرمی میں سرجن تھا۔ زندگی ہیجان اور جنگوں میں گزری یہاں تک کہ برطانیہ کے ایک پاگل خانے میں پہنچایا گیا۔ پاگل خانے کے تنہا کمرے میں مائنر تک یہ خبر پہنچی کہ لندن میں انگلش ڈکشنری کی ترتیب و تدوین کے لیے رضاکاروں کی ضرورت ہے۔
مائنر نے پاگل خانے کی تنہائی میں خود سے لڑتے لڑتے اپنے ہی آگے ہتھیار ڈالے اور اسی دیوانگی کے ساتھ اپنی ذاتی لائبریری کی کتابیں پاگل خانے منگوا کر انگلش کے الفاظ، ان کے معنی اور استعمال لکھنے شروع کیے۔ مائنر کو آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں الفاظ کے بڑے ذخیرے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ مائنر قید تنہائی میں اپنی موت تک آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے لیے لفظ چُنتا رہا۔ مائنر کو تنہائی میں یکسوئی کی شعوری کوشش نے ایک جنونی سے لیجنڈ بنا دیا۔
تنہابھلا کون جیا ہے، کیسے جیا ہے۔ پیدائش سے کاندھا دینے تک حضرت انسان کی دوا اس جیسا انسان ہی ہوتا ہے۔ سماجیات کے سیانوں نے انسان کو سماجی جانور کہا ہے جسے اپنے جیسے انسانوں میں رہنے بسنے اور زندگی گزارنے کی حاجت ہوتی ہے۔
ایک آدمی کی مشکلوں کا تریاق دوسرے آدمی کے پاس ہے۔ ہم انسان اک دوجے کا سہارا ہوتے ہیں اور اس موضوع پہ لکھنا شروع کیا تو پورا دیوان کالا ہوسکتا ہے۔
مگر آج موضوع سخن ہے تنہائی اور اس کے جملہ فائدے۔کچھ موقعے زندگی میں ایسے بھی آتے ہیں جہاں اپنے ہی جیسے انسانوں سے بچ بچا کر گوشہ نشینی اختیار کرلینا دکھ کی دوا، مشکل کا حل بن جاتا ہے، تنہائی یہ فائدہ دیتی ہے کہ الجھی گتھیاں خود بخود سلجھنے لگتی ہیں، سوچوں کے بھنور کو کنارا مل جاتا ہے۔
سوچ کے گھوڑے یہاں وہاں دوڑنے لگیں تو بڑے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ سوچ کا زاویہ بدلو، اپنے سمت سیدھی رکھو۔ مگر ایسی آپادھاپی ، ایسی ہما ہمی میں یہ کیسے ممکن ہے۔ ہم میں سے بہت سوں کو تو یہ بھی نہیں پتا کہ میری سمت کیا ہے تو اسے سیدھا بھلا کیونکر کریں۔ اس کا جواب ہے تنہائی اور خاموشی۔
تنہائی اردو لغت میں اچھے معنوں کا لفظ نہیں۔ شاعروں نے اسے عذاب سے تشبیہ دی، نفسیات والے اسے ذہنی صحت کے لیے زہر قاتل کہتے ہیں اور سماجیات و سیاست میں تنہائی موت کہلاتی ہے۔
لیکن اگر توازن، مقصد اور شعوری فیصلہ ہمراہ ہو تو یہی تنہائی آگہی کے در وا کرتی ہے۔ تنہائی خود سے ملاقات کراتی ہے، رب سے ملاتی ہے، علم کے خزانوں کی چابی ہاتھ آتی ہے۔
تنہائی میں ہیجان کو قرار آتا ہے اور خود کو ٹٹولنے کی اسی کشمکش میں آدمی کا ڈگمگاتا قدم وجدان کی پہلی سیڑھی پہ جا پڑتا ہے۔
ہندو مت، جین مذہب اور بودھ مت میں ‘نروانا‘ وہ منزل ہے جہاں انسان بڑی محنت سے پہنچتا ہے۔ نروانا یعنی دنیاوی جھنجھٹ، رشتوں، بندھنوں اور مصروفیت سے مکمل آزادی۔ یہ اطمینان کی آخری منزل کہلاتی ہے۔ اس لیے نروانا کے بعد سناٹا یا پھر نہ ختم ہونے والی تنہائی ہے۔ نروانا کی منزل تک کم کم ہی پہنچ پاتے ہیں۔ تاہم مختصر وقفوں کا نروانا، تنہائی اور شعوری فوکس کو میڈیٹیشن کا نام دیا جاتا ہے۔
ایسے ہی رہبانیت کا فلسفہ ہے جس میں دنیاوی ضرورت اور انسانی جبلت کو کچل کر روح کی پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ اس طریقت میں بھی تنہائی بنیادی جزو ہے۔
اسلام اگرچہ دنیا سے کنارہ کشی کا حکم نہیں دیتا تاہم کچھ عبادتیں ضرور ہیں جن کی وجہ سے اسلام کے ماننے والوں کو دنیا سےکچھ دیر کا عارضی بریک ضرورمل جاتا ہے۔ جیسے کہ رمضان کے مہینے میں اعتکاف کی عبادت یا پھر اسلامک صوفی ازم میں مراقبہ یا درویشوں کی چلہ کشی ۔
نروانا، یوگا، میڈیٹیشن، مراقبہ سب میں خاموشی، سکون، تنہائی بنیادی جزو ہیں۔ یہ دنیاوی الجھنوں سے بریک لینے کی وہ شعوری کوشش ہے جس کا پھل خیال و فکر کی یکسوئی کی صورت میں ملتا ہے۔
بڑی جامعات شہر سے پرے بنانے کے پیچھے اک سوچ کار فرما ہے، لائبریری میں یونہی نہیں شور مچانا منع ہوتا، ملنگ، درویش اور فلاسفر سکون کی تلاش میں ایسے ہی نہیں گھر چھوڑتے۔ شور میں شدت ہے، جنون ہے اور شور کبھی کوئی فیصلہ نہیں کرنے دیتا۔ دوسری جانب تنہائی کا سکون ہے جو منتشر خیالات کو سیدھی راہ لگاکر دنیا کو خلیل جبران دیتا ہے۔
ہمارے پاکستانی معاشرے میں اول تو علم و عرفان اور اپنی ذات کی آگہی کا کوئی شعور سرے سے ہے ہی نہیں۔ لوئر اور مڈل کلاس کے اپنے بڑے جھمبیلے ہیں جن میں وہ الجھے ہوتے ہیں ایسے میں کسی کو اگر میں یہ کہوں کہ چوبیس گھنٹے میں ایک وقت خود کو بھی دینا ہوتا ہے، کبھی اپنے اندر بھی جھانک لیا کریں، کبھی تنہائی میں بیٹھ کہ جب کسی کتاب کو پڑھا کریں تو اپنے آپ سے باتیں کیا کریں۔ تو خود اندازہ لگالیں مجھے جواب میں کیا کچھ سننے کو ملے گا۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ علم و آگہی کے راستے میں خالی جیب نہیں آیا کرتی۔ کمال یہ ہے کہ میڈیٹیشن یا خیال کی یکسوئی حاصل کرنے کے لیے گھر کا ایک خاموش کونا، لائبریری کا ساکت ہال، مسجد کے پنکھے کے نیچے بچھی چٹائی، پارک کی ایک بنچ یا پہاڑی علاقوں میں پہاڑ کا دامن کافی ہے۔ لکھنے والوں نے تو جیل کی قید میں کتابیں لکھ ڈالیں۔
جب آپ کو اس بات کا ادراک ہو کہ آپ کی زندگی کی آدھی مثبت توانائی ملازمت ، دنیاوی ضرورت اور رشتوں کی سیاست چوس رہی تب کتابوں میں پناہ ڈھونڈیں۔ جب روزانہ شام دوستوں کے ساتھ چائے کے کپ پہ گپ لگاتے لگاتے دل و دماغ اور بھی الجھنے لگے تب تنہائی کو دوست بنائیں۔
اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات مصنفہ کے ہیں ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر DWاردو پر شائع ہوچکی ہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر