نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ماہواری، کالا جادو اور باجی طاہرہ جلالی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

جنوبی ایشیا کے بہت سے علاقوں میں عورتیں آج بھی ماہواری کے استعمال شدہ کپڑے زمین میں دبا دیتی ہیں کہ ان پیڈز کی مدد سے کوئی ان پہ جادو نہ کر سکے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتھر دل محبوب آپ کے قدموں میں
سوتن کا روگ اور توڑ
شوہر کی بے رخی
من پسند شادی
سسرال سے تنگ
طلاق کا مسئلہ
افسر کو مطیع کرنا
ساس بہو کا جھگڑا
الو اور تیتر کے خونی تعویذوں کا نچوڑ!

حیرت زدہ ہو گئے نا کہ آج ان موصوفہ کو کیا ہوا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماہواری کا ورد کرتے کرتے تھک کر جلد ہی اپنا پیشہ تبدیل کرنے والی ہوں۔ مگر کیا کیجیے کہ جس پیشے کے ذکر سے ہم نے بات کا آغاز کیا ہے اس کی پہلی شرط نام تبدیل کرنا ہے۔ ایسا نام جو چار کوس دور سے صاحب نام کے کمالات کی خبر دے دے۔

کہیے کیا صلاح ہے آپ کی، ہمارے باجی طاہرہ جلالی کہلوانے کے بارے میں۔ ویسے سوچا جائے تو سید زادی طاہرہ عرف گائنی ڈاکٹر بھی برا نہیں۔ لیکن شہر کی دیواروں پہ لکھے ان اشتہاروں کی یاد کا کیا کریں جو اوائل عمری سے ہم بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے اور جن میں سر فہرست بابا بنگالی اور ہم نوا ہوا کرتے تھے۔ آپس کی بات ہے بنگال کا جادو مشہور بھی ہے، اور سر چڑھ کر بولتا بھی ہے تو چلیے میڈم طاہرہ بنگالی ہی ٹھیک رہے گا۔

ہمارے زور خطابت کی سب کو خبر ہے، انسانی نفسیات کا بھی کچھ کچھ علم ہے، نسخے لکھنے آتے ہیں، کہانیاں سننے کا بھی کافی شوق ہے، چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں سو خیال ہے کہ کام چل ہی پڑے گا۔

خیر باقی کی پلاننگ بعد میں، پہلے ایک قصہ سن لیجیے جو ہمارے گناہ گار کانوں نے اوائل عمری میں سنا۔
ارے لڑکیو، شوہر کو قابو کرنا چاہتی ہو کیا؟
ڈھولک زور زور سے بج رہی تھی۔ سب لڑکیاں رنگ برنگے ملبوسات میں تالیاں پیٹتے ہوئے شادی بیاہ کے الوداعی گیت گا رہی تھیں۔
نہ جانے کس وقت وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی آئیں اور ایک کونے میں ٹک گئیں۔
جونہی ڈھولک کی تھاپ ہلکی ہوئی، اپنی کھرکھراتی آواز میں لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سوال داغ دیا جو کسی بم کے گولے کی طرح پھٹا۔
جو شادی شدہ تھیں وہ کھی کھی کر کے ہنسنے لگیں، اور جو ابھی بور کے یہ لڈو کھانے کے چاؤ میں تھیں وہ جھینپ گئیں۔
ایک تیز طرار فوراً بولی،
کیسے قابو کریں خالہ؟
ارے نسخہ ہے میرے پاس، بڑا مجرب!
تو کیا اسی نسخے سے آپ نے خالو کو قابو کیا تھا؟
ایک شوخ ہنس کر بولی
ارے نوبت ہی نہیں آئی نسخے کے استعمال کی، وہ تو پہلے ہی ڈھیر ہو چکے تھے۔
خالہ ہنستے ہوئے بولیں۔
خالہ نسخہ تو بتائیے، ایک ستم رسیدہ بے چینی سے بولی۔
ارے جب کپڑے آئیں تم لوگوں کو نا۔
کپڑے آئیں۔ کیا مطلب؟
ایک انگلش میڈیم کچھ حیران ہو کر بولی
افوہ چپ کرو نا۔ کپڑے مطلب، ماہواری۔ اب یہ بھی تمہیں سمجھ نہیں آئے گا۔ پیریڈز۔ پیریڈز کا تو علم ہے نا، دوسری لڑکی جھٹ سے بولی۔
ہاں خالہ بتائیں پھر کیا کریں جب کپڑے، مطلب پیریڈز آئیں تو۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ جب کپڑے آئیں تو تھوڑا سا خون جمع کرو۔
خون جمع۔ یعنی آپ کا مطلب ہے گندا خون۔
ہاں بھئی وہی۔
پھر کیا کریں خالہ؟
کرنا کیا ہے، ڈالو روح افزا میں اور شوہر کو پلا دو، ساری عمر سر نہیں اٹھائے گا۔ اور اگر کسی کو مطیع کرنا ہو تب بھی قدموں میں بیٹھا رہے گا
نہیں۔
اف توبہ۔
یخ۔
گندا۔
کیا مذاق ہے۔
یا اللہ۔
ملی جلی آوازیں ابھریں اور ایک صاحبہ کو تو فوراً ابکائی آ گئی۔
ارے مفت میں نسخہ بتا رہی ہوں۔ مجرب ہے۔ سب جادو شادو کرنے والوں کے پاس یہی کچھ تو ہوتا ہے، خالہ نے صفائی پیش کی۔
برسوں پہلے یہ واقعہ ہمارے سامنے پیش آیا مگر ہم نے اسے ایک بڑھیا کی گپ سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ لیکن ماہواری بلاگز لکھتے ہوئے ہمیں علم ہوا کہ یہ تصور صدیوں سے لوگوں کے ذہن میں موجود تھا اور آج تک ختم نہیں ہوا۔ ماہواری اور ماہواری کا استعمال شدہ کپڑا آج بھی کالے جادو کے شعبدہ بازوں کے لیے اہم ہے۔
زمانہ قدیم سے عورت کا جسم، ساخت اور معاملات زیر بحث ہیں۔ صدیوں قبل ماہواری کے خون کو جادوئی اس لیے بھی سمجھا گیا کہ جسم کی اصلیت ماورائے عقل تھی۔ ماہواری کا خون جسم سے بہنے والے خون سے مختلف یوں تھا کہ روکنا چاہو تو رک نہیں سکتا تھا، وقت پر آتا اور جاتا تھا اور صرف ایک ہی صنف سے وابستہ تھا۔
مایان مائتھالوجی میں ماہواری کو چاند دیوی سے جوڑا گیا جو منع کرنے کے باوجود سورج دیوتا کے ساتھ شب بسری کر بیٹھی تو ماہواری کی صورت میں اسے سزا دی گئی۔ اس کے خون کو تیرہ مرتبانوں میں بند کیا گیا جو سانپ بچھو اور دوسرے حشرات الارض میں بدل گئے۔
دنیا کے کچھ حصوں میں ماہواری کے خون کو محبوب کی قربت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھا گیا۔ فرانس کے بادشاہ لوئی کے زمانے میں پرفیومز میں خون ڈال کر اس شخص کو تحفے میں دیا جاتا جسے اپنی زلف کا اسیر کرنے کی خواہش ہوتی۔
دو ہزار نو میں ہانگ کانگ میں ایک انڈونیشین ملازمہ کو گرفتار کیا گیا جو اپنے مالک کو ماہواری کا خون کھانے میں ملا کر دیا کرتی تھی تاکہ نوکری مستحکم رہے۔ نوکری تو ایک طرف رہی، اس بے چاری کو ان توہمات پہ یقین کے نتیجے میں جیل یاترا کرنی پڑی۔
جنوبی ایشیا کے بہت سے علاقوں میں عورتیں آج بھی ماہواری کے استعمال شدہ کپڑے زمین میں دبا دیتی ہیں کہ ان پیڈز کی مدد سے کوئی ان پہ جادو نہ کر سکے۔
ہمیں نہیں علم کہ ان توہمات میں کیا سچائی ہے؟ شوہر صاحبان پہ اثر ہوتا ہے کہ نہیں؟ ہمیں ماہواری میں جادو نظر تو آتا ہے مگر کسی اور رنگ میں۔ عورت کے بطن سے زندگی کو جنم دینے والا جادو!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author