اختر بلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹھ ناؤمل ہوت چند سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ اگر ان کا نام حذف کر دیا جائے تو سندھ کی تاریخ ادھوری رہ جائے۔
سندھ کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور کیا ہے اس پر بے شمار لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ یہاں تین ہزار سال قبل مسیح کے موئن جودڑو کے آثار بھی ہیں تو جنوبی سندھ کے شہر میرپورخاص میں کاؤ جو دڑو جیسا تاریخی ورثہ بھی موجود ہے۔ موئن جودڑو تو بچ گیا لیکن کاؤ جو دڑو کے ساتھ کیا ہوا، اس پر پھر کبھی لکھیں گے۔
بات ہورہی تھی سیٹھ ناؤ مل ہوت چند کی، تاریخ بتاتی ہے کہ ناؤ مل وہ شخص تھا جس نے سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے لیے ان کی مکمل مدد کی۔
اس نے ایسا کیوں کیا؟
ان تمام باتوں پر آگے چل کر بات کریں گے لیکن ایک حقیقت ہمیں ذہن میں رکھنی ہوگی کہ میروں کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب سندھ میں انگریزوں کا راج قائم ہوا تو ایک جدید سندھ نے جنم لیا۔ شہری علاقوں میں روڈ راستے بنے، بجلی آئی، اسکول اسپتال بنے، ریلوے کے نظام نے جنم لیا، جدید نہری نظام اور بہت کچھ نیا متعارف ہوا.
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ نہری نظام انگریز نے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بنایا، ریلوے افغانستان تک فوجی ساز و سامان پہنچانے کے لیے اور اسکول و اسپتال براؤن صاحبوں (جو گورے صاحبوں کے حاشیہ بردار تھے) کے لیے۔
انگریزوں کی دیکھا دیکھی ہندوؤں اور پارسیوں نے بھی ایسے بے شمار فلاحی ادارے قائم کیے جس کے بعد مسلمانوں کو بھی ایسے ادارے قائم کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے فلاحی اور تعلیمی ادارے قائم بھی کیے.
قصہ طویل ہوگیا، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی سیٹھ ناؤمل ہوت چند کون تھے اور کیوں غدار وطن ٹھہرے؟
محمد عثمان دموہی اپنی کتاب ‘کراچی تاریخ کے آئینے میں’، دوسری اشاعت مطبوعہ 2013میں ہوت چند کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛
"اس شخص کی دولت جاگیر اور مرتبہ حاصل کرنے کی ہوس کی وجہ سے سندھ کے وطن پرست مسلمانوں اور ہندوؤں کو نہ صرف آزادی وطن سے محروم ہونا پڑا بلکہ غلامی کی صعوبتوں کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس شخص نے انگریزوں کو سندھ پر قابض کرانے میں میران سندھ کے خلاف مکر و فریب اور دغا بازی کا دلیرانہ مظاہرہ کیا۔”
ناؤمل کے خاندانی پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں؛
"وہ 1729 میں کراچی شہر کی بنیاد رکھنے والے مشہور ہندو تاجر بھوجومل کا پڑپوتا تھا جو 1804 میں کراچی کے قدیم محلے کھارادر میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ہوت چند بھی ایک مشہور تاجر تھا۔ اس کا کاروبار نہ صرف سندھ بلکہ ہندوستان، افغانستان، ایران اور مسقط تک پھیلا ہوا تھا۔ سندھ کے جو ہندو تاجر میران سندھ کو قرض فراہم کرتے تھے ان میں اس کا نام بھی شامل تھا۔ اس کی حیدرآباد کے دربار تک رسائی تھی”۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بااثر ہونے کے باوجود ناؤمل کے خاندان کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ناؤمل نے سندھ پر انگریزوں کا قبضہ کروایا؟
سیٹھ ناؤمل اپنی یاداشتوں تیسری اشاعت مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ 1996 (یہ یاداشتیں 1930سے 1845) کے واقعات پر مشتمل ہیں.سندھی میں لکھی گئی یہ یاداشتیں بعد میں انگریزی میں ترجمہ کروائی گئیں.
1915 میں پہلی بار یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی، صفحہ نمبر 89 پر لکھتے ہیں؛
"1831-32 کی بات ہے کہ نصر پور کے ایک ہندو مزدور کا بیٹا اپنے استاد کی سختیوں سے تنگ آکر ایک مسجد کے دروازے کے قریب جا کھڑا ہوا کچھ مسلمانوں کی اس پر نظر پڑی وہ اسے مسجد میں لے گئے اس پر غصے میں آکر ہندو دکاندار نے اپنی دکانیں بند کریں اور مسلمانوں کو سودا سلف دینے سے انکار کر دیا۔ مسلمانوں نے انتقامی طور پر لیاری میں موجود پانی کے کنوؤں میں گندگی ڈال دی۔ ان کنوؤں سے ہندو پینے کا پانی بھرتے تھے
دوسرے دن نورل شاہ نامی ایک سید نے ہمارے محلے سے گذرتے ہوئے گالیاں دیں۔ میرا چھوٹا بھائی پرسرام جو اس محلے کے بیرونی دروازے پر کھڑا تھا اس نے نورل شاہ کو نرمی سے سمجھایا کہ اس طرح کی بات مناسب نہیں، دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور جوش میں آکر نورل شاہ نے کہا کہ پر سرام نے میرے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ہے۔ مسلمانوں کا ایک ہجوم اکھٹا ہوگیا۔
بعد میں نورل شاہ نے قرآن گلے میں ڈال کر سندھ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں کو بھڑکایا۔ اس دوران کسی طریقے سے میرا بھائی پرسرام جیسلمیر (موجودہ انڈیا) منتقل ہوگیا۔ معاملہ اس وقت سندھ کے حاکم میر مراد علی تالپور تک پہنچا، مسلمانوں کا دباؤ تھا، میر صاحب نے میرے والد ہوت چند کو فرمان بھیجا کہ سیٹھ پر سرام کو حیدرآباد روانہ کیا جائے۔
پرسرام کراچی میں نہیں تھا۔ میر صاحب نے دوسرا فرمان بھیجا کہ ہوت چند خود حاضر ہو۔ میرے والد حیدرآباد پہنچے میر صاحب نے جھگڑے کے حل کے لیے معاملہ نصر پور کے قاضی کی عدالت میں بھیجا (نصر پور حیدرآباد سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے). قاضی نے معاملہ سننے سے انکار کر دیا مسلمانوں نے اس کے بعد اچانک حملہ کرکے سیٹھ ہوت چند کو اغوا کرلیا. وہ دس سے بارہ دن مسلمانوں کی تحویل میں رہے جنہوں نے انہیں زبر دستی مسلمان کرنے کا ارادہ کیا (مراد یہ ہے کہ ان کی ختنہ کرنے کی کوشش کی) لیکن چوں کہ ان کی عمر 50 سال تھی اور ان کی ختنہ کرنا قرآن کے بھی خلاف تھا اس کے علاوہ مسلمانوں کا یہ خوف بھی تھا کہ اس کے نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں اس لیے وہ اپنے اس ارادے سے باز رہے ۔ بعد ازاں میر مراد علی کو پچھتاوا ہوا اور میرے والد کی بازیابی کا حکم جاری کیا۔ جس کے بعد میرے والد کو رہائی ملی”۔
اس وقت سندھ میں عام تاثر یہ تھا کہ سیٹھ ہوت چند کی ختنہ کردی گئی تھی، ناؤمل کی یاداشتوں میں یہ واقعہ خاصی تفصیل سے درج ہے ہم نے اس کا مختصر خلاصہ پیش کیا ہے۔
تقسیم سے قبل سندھ کی ہندو برادری بہت زیادہ امیر تھی اور سندھ کے وڈیرے اور جاگیردار تو چوٹی بات حکمران خاندان تک ان کا مقروض ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں وہ سماجی رتبہ حاصل نہ تھا جو مسلمانوں کو حاصل ہوتا تھا.
جیمز برنز کے مطابق؛ "سندھ میں ہندوؤں کو گھوڑے کی سواری منع ہے۔ اس لیے دولت مند تاجر بھی گدھے کی سواری کرتے نظر آتے ہیں. ہندوؤں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کسی مسلمان کی سواری گذرے تو اس کے راستے میں ادب سے ایک طرف کھڑے ہوجائیں۔”
ممتاز دانش ور اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب سندھ خاموشی کی آواز میں لکھتے ہیں کہ سیٹھ ہوت چند کا خاندان سندھ کا ممتاز ہندو خاندان تھا اس لیے جب اس خاندان کے سربراہ کے ساتھ یہ ذلت آمیز سلوک ہوا۔ اسے اغوا کیا گیا، قید میں بھوکا پیاسا رکھا گیا اور بعض شواہد کی بنا پر اس کی ختنہ بھی کردی گئی تو ان واقعات کا اثر اس کے خاندان کے افراد اور سندھ کے ہندوؤں پر زبردست ہوا۔ یہ تھی وہ صورت حال جس نے یقیناً ناؤ مل اور دوسرے ہندوؤں میں عدم تحفظ کے احساس میں شدت پیدا کی ہوگی”۔
ناؤمل کی انا کو زبردست ٹھیس لگی ہوگی۔ غالباً اسی بنا پر اس نے میروں کی حکومت کے خاتمے میں انگریزوں کی مدد کی ہوگی. ہمارے خیال میں تن تنہا ناؤ مل پر یہ الزام لگانا کہ اس نے میروں کی حکومت کا خاتمہ کروایا زیادتی ہوگی۔
میران سندھ کی حکومت 3 حصوں یعنی حیدرآباد، میرپورخاص اور خیرپور میں تقسیم تھی۔ وہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے ہندو تاجروں کے قرضوں کے محتاج تھے۔ ان کی کوئی باضابطہ تربیت یافتہ فوج نہیں تھی۔ ان تمام عوامل کے سبب انگریزوں کا سندھ پر باآسانی قبضہ ہوگیا۔
انگریزوں نے ناؤمل کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے بھی نوازا. برطانوی دور حکومت کے ایک اہل کار خداداد خان اپنی تالیف لب تاریخ سندھ، پہلی اشاعت 1900، دوسری اشاعت 2009 مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ میں لکھتے ہیں کہ؛
"سی آئ ای (CIE) کے لقب کا تمغہ جو انگریز سرکار نے سیٹھ ناؤمل کے لیے بھیجا تھا فرئیر محل عرف فرئیر ہال میں ایک شاندار دربار منعقد کرکے سیٹھ ناؤمل کو اپنے ہاتھ سے دیا۔ اس موقع پر انہوں نے جو خطاب کیا وہ خاصا طویل ہے ہم اس کا خلاصہ پیش کیے دیتے ہیں؛
"انہوں نے کہا، میں نہایت خوشی سے یہ تحریر تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ تم نے انگریز سرکار کی زبردست خدمت کی ہے۔ ملکہ معظّمہ نے بڑی شفقت سے تمہیں سی آئی ای (کمپینئین آف دی موسٹ ایگزالیٹڈ آرڈر آف دی اسٹار آف انڈیا) کا لقب ادا کرکے عزت بخشی ہے۔ سال 1843میں جب سندھ کے میر صاحبان اور انگریز سرکار کے بیچ لڑائی ہوئی، اگرچہ اس وقت تمہیں سخت جانی و مالی خطرہ تھا۔ تاہم تم نے کوشش کرکے میر صاحبان سے متعلق ایسی ایسی خبریں اور ایسی تجاویز پیش کیں جن کے مطابق انگریز سرکار کے عملدار اپنے لشکر میں تبدیلی کرسکیں۔ ان خدمات کے عیوض تمہیں جاگیر اور پنشن عطا کی گئی.”
ڈاکٹر مبارک علی اپنے مضمون "کیا ناؤمل غدار تھا” کے آخر میں لکھتے ہیں؛
"معاشرے میں اقلیت کا کردار بڑا نازک ہوتا ہے اگر اقلیت مالی اور اقتصادی لحاظ سے خوش حال ہو تو اس کے دشمنوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اکثر اقلیت کو وطن دشمن اور غدار کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں معاشرہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور اقلیت ملک و قوم کی محبت سے دور ہوتی چلی جاتی ہے ہندوستان اور سندھ میں انگریزی حکومت کے قیام میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کو بڑا دخل تھا۔”
ناؤمل کا انتقال 73 سال کی عمر میں 16 ستمبر 1878 کو کراچی میں ہوا۔ ان کی یاداشتوں پر مبنی کتاب کا دوسرا ایڈیشن آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 1986 میں شائع کیا تاہم کتاب کے تعارف میں بھی انھیں غدار ہی لکھا گیا ہے۔
بشکریہ :ڈان ڈاٹ کام
یہ بھی پڑھیے:
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر