ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم شہباز شریف لندن میں پارٹی سربراہ میاں نوازشریف سے ہدایات لینے کے بعد پاکستان پہنچ گئے ہیں اور موجودہ سیاسی و معاشی بحران پر غور کیلئے اتحادی جماعتوں کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کے مشورے سے فیصلے کئے جائیں گے جبکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب کابینہ کا فیصلہ بھی میاں نواز شریف نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس بناء پر دیکھا جائے تو اتحاد کا صرف نام رہ جاتا ہے۔ ملک کے نامور اور سینئر صحافی جناب ارشاد عارف نے موجودہ صورتحال کے حوالے سے لاجواب تبصرہ کیا ہے آپ لکھتے ہیں کہ یہ پہلی بار ہے کہ قوم داد دینے کو بے تاب ہے مگر ہر فن مولا پولیٹیکل انجینئر کہیں دکھائی دیتا ہے نہ سنائی، جس نے ایک ناتجربہ کار اور ناکردہ کار حکومت کو رخصت کرکے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا اکٹھا کیا بھان متی کا کنبہ جوڑا اور پاکستان کی حکمرانی سونپ دی۔ اس تجزیہ کار کنبے کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ پٹرول کی قیمت بڑھائے یا برقرار رکھے۔ آئی ایم ایف کی مان کر سبسڈیز کا خاتمہ کرے یا سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیاں برقرار رکھ کر یہ بدنامی مول لے کہ وہ سخت فیصلے کرنے کا اہل نہیں، میاں شہباز شریف جیسا علمیت پسند سیاستدان پہلی بار یہ پوچھتا پھرتا ہے کہ مجھے دھکا کس نے دیا مگر جواب ندارد۔مہنگائی پہلے بھی کم نہ تھی مگر موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ حکمران تمام عذابوں کا باعث عمران خان کو ٹھہرا رہے ہیں۔ جب عمران خان برسراقتدار آئے تھے تو وہ بھی مہنگائی سمیت ہر منفی کام (ن) لیگ کے کھاتے میں ڈالتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ وہ کوئی بھی ناکامی اپنے سر نہیں لیتیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عوام چونکہ پہلے ہی سخت تکلیف میں ہے۔ اسے ریلیف ملنے کی بجائے اس کی تکالیف میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر 200 روپے کے قریب ہے، آٹے کے بیس کلو تھیلے میں چھے سات سو روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، سونے کی قیمت میں بھی سات سو اضافہ ہوا ہے۔ ادارے مضبوط ہونے کی بجائے مزید کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف سیاسی جماعتیں نہیں، پوری قوم بھی تقسیم کا شکار نظر آتی ہے۔ پاکستانی قوم میں ضیاء الحق آنے کے بعد چالیس سال مذہبی تشدد اور انتہاء پسندی کا عذاب بھگتا ہے مگر موجودہ سیاست بھی تشدد اور انتہاء پسندی کا شکار نظر آتی ہے۔ پوری قوم پریشان ہے، کوئی حل بتانے والا نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے اعدادو شمار شائع کئے گئے ہیں جس کا مقصد عمران خان کی حکومت کو دوش دینا ہے۔ بلا شبہ یہ باتیں غلط بھی نہیں، جیسا کہ بتایا گیا کہ 2018ء میں ڈالر 116 کا تھا اور 2022ء میں 189 تک چلا گیا۔ مہنگائی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 20 کلو آٹے کی قیمت میں 1100روپے، چینی کی قیمت میں 40 روپے، گھی کی قیمت 151 سے 470 تک چلی گئی، بجلی کا یونٹ 11روپے تھا جو کہ 25 کا ہو گیا، گیس 600 سے 1400 تک چلی گئی، یوریا کھاد کی بوری 1380 سے 1918تک جا پہنچی، مالی خسارہ 5600 تک بڑھ گیا۔ حکومتی اعدادو شمار میں کہا گیا کہ 1947ء سے لیکر 2018ء تک ٹوٹل بیرونی قرضہ 24953 تھا جو کہ عمران خان کے ساڑھے تین سال کے دور میں 42745 ہو گیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمرانی دور میں بیروزگاروں کی تعداد میں 60 لاکھ کا اضافہ ہوا، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عمران خان کے دور میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دو کروڑ افراد تک چلی گئی۔ ان تمام باتوں کا جواب دینے کا اختیار تو تحریک انصاف کے پاس ہے .بلا شبہ انہیں جواب بھی دینا چاہئے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ پہلے والے جو تھے اپنے بارے میں بتانا چاہئے کہ آپ نے کتنا ریلیف دیا؟ عمران خان کی طرف سے الیکشن پر زور دیا جا رہا ہے۔ ان کے ہر جلسے کا پہلا مطالبہ الیکشن کے حوالے سے ہوتا ہے۔ الیکشن بھی ضروری ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن جو کہ سالہا سال سے زیر التواء ہیں اور بلدیاتی الیکشن کا نہ ہونا آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح توجہ نہیں دی جا رہی حالانکہ بلدیاتی الیکشن سے عوام کے بہت سے مسائل مقامی سطح پر حل ہوتے ہیں اور بلدیاتی الیکشن کو سیاست کی نرسری بھی کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے سیاستدان بلدیات سے قومی سیاست میں شامل ہوئے۔ روزنامہ 92 نیوز کے تجزیہ نگار اشرف شریف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ شہری حکومتیں یا سٹی گورنمنٹ مرکز سے اختیار اور وسائل حاصل کرکے براہ راست نچلی سطح پر کام کر سکتی ہیں۔ اس سے عام آدمی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسے سینکڑوں کلو میٹر کا سفر کرکے ایک درخواست کسی دفتر میں جمع کرانے کی اذیت سے نجال مل سکتی ہے۔ اس کا میئر ہر وقت اس کی رسائی میں ہو گا۔ ملک میں باتوں کی جمہوریت کی جگہ عمل کی جمہوریت فروغ پائے گی۔ سرکاری وسائل پر بالائی طبقات کی پرورش کا عمل رک سکتا ہے۔ اب تھوڑا سا ذکر چولستان کا بھی ہو جائے۔ چولستان میں پانی کی قلت سے موت کا رقص آج بھی جاری ہے۔ بڑی روہی میں آج بھی جانوروں کی لاشیں مل رہی ہیں۔ ایک ایک جانور کے تڑپنے کے بڑے بڑے نشانات موجود ہیں۔ چولستان میں بہت بڑے المیے نے جنم لیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے معمولی سطح پر اقدامات ہوئے مگر یہ اقدامات صرف نمائشی ہیں۔ قوم پرست سرائیکی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے اور کہا گیا ہے کہ پانی کی بوتلوں کی نہیں وسیب کیلئے پانی کے پورے حصے اور ارسا میں نمائندگی کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ چل رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میاں نوازشریف، وزیر اعظم شہباز شریف، آصف زرداری، لغاری، مزاری، کھر، کھوسے، دریشک اور گیلانی، قریشی میں سے کسی نے چولستان سے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ ایک یہ بھی کہ کیا عمران خان ملتان میں 20 مئی کو چولستان اور سرائیکستان کا پُرسہ دیں گے؟ اور کیا مخدوم شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کی قیادت سرائیکی صوبے کے بارے میں وسیب کے کروڑوں لوگوں کو اعتماد میں لیں گے؟
یہ بھی پڑھیں:
ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ
سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ
ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ
میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر