حسن مجتبیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مقولہ سب سے پہلے نیٹو امریکیوں نے ایجاد کیا تھا کہ ‘تالاب کے اندر اگر مچھلیوں کو لڑتے دیکھو تو سمجھو کہ یقیناً کوئی گورا آدمی وہاں سے گزرا ہوگا’۔ پھر یہ کہاوت عرب دنیا میں پہنچی اور کچھ ترمیم کے ساتھ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں جدید عرب قوم پرستی کے بانی مصر کے اس وقت کے صدر جمال عبدالناصر سے منسوب ہوئی کہ "اگر سمندر کی تہ میں بھی دو مچھلیوں کو لڑتے دیکھو تو سمجھو کہ یہ ‘امریکی سازش’ ہے”۔
1950 کی دہائی انقلابات، فوجی بغاوتوں، حکومتوں کے تختے الٹے جانے، لیڈروں کے قتل اور سازشوں کی کہانیوں کی دہائی تھی۔ کانگو کا پیٹرس لوممبا، گھانا کا این کروما، ایران کا مصدق؛ ان کے تختے الٹنے کے پیچھے سازشوں کی کہانیاں۔
لیکن سازشوں کی کہانیوں میں پاکستان بھی ہرگز پیچھے نہیں رہا۔ بلکہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کو باقاعدہ ‘سازش’ کے جلاب لگے ہوئے تھے/ہوتے ہیں۔ پاکستان میں سازشوں کی الف لیلیٰ کی تازہ کہانی عمران خان کا مبینہ خط والا آئٹم ہے۔
راولپنڈی سازش کیس یا امید کی سازش؟
پاکستان بننے کے بعد منظر عام پر سب سے پہلی سنسنی خیز اور بڑی سازش کی کہانی اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دور حکومت میں ‘راولپنڈی سازش’ یا ‘راولپنڈی سازش کیس’ تھی۔ اس تاریخی مقدمے میں اس وقت فوج کے سینیئر ترین جنرل میجر جنرل اکبر خان (جو کشمیر پر ‘آپریشن جبرالٹر’ کے کمانڈر، اور ہیرو مانے جاتے تھے)، ان کی بیگم نسیم اکبر خان سمیت فوج کے سینیئر و جونیئر افسران اور عظیم شاعر فیض احمد فیض، اور اس وقت کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سجاد ظہیر سمیت معروف سویلین و سیاسی شخصیات و کارکنان، شاعر و ایک صحافی حیدرآباد کے بدرجالنوی (جو ان دنوں پاکستان پروگریسو پیپرز کے اردو اخبار امروز کے مقامی نمائندہ تھے کچھ دنوں بعد رہا کر دیے گئے) گرفتار کر لیے گئے تھے۔ اس طرح یہ پہلا سازش مقدمہ تھا جس میں شاملِ سازش و قید ایک خاتون بھی تھی۔ ان خاتون و حضرات پر الزامات یہ تھے کہ انہوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے ملک کے گورنر جنرل خواجہ شہاب الدین اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کر کے ملک میں انقلاب برپا کرنے کی سازش تیار کی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پہلی مگر ناکام فوجی بغاوت میں بائیں بازو کے یا کمیونسٹ و سوشلسٹ خیالات رکھنے والے لوگ بتائے گئے تھے۔ ملکی میڈیا میں اس کے خلاف خوب پراپگنڈا یا ‘راولپنڈی سازش کیس’ ظاہر کرنے کے حکومتی اقدامات کی خوب تشہیر کی گئی تھی۔
یہ اب کھلا راز ہے کہ لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ تلے تقسیم کے وقت ہندوستان سے آئی ہوئی آئی سی ایس (انڈین سول سروس) بیوروکریسی کی ایک ہٹی اور ان کی پنجابی و پشتون سول ملٹری بیوروکریسی کے درمیان زبردست چپقلش تھی۔ لیاقت علی خان کو آئندہ انتخابات کے لئے ایک حلقہ بھی چاہیے تھا۔
اب یہ ایک الگ کہانی ہے کہ بعد میں دوران مقدمہ راولپنڈی سازش کیس لیاقت علی خان کسی اور سازش کے تحت کمپنی باغ راولپنڈی جو پھر ان کے نام لیاقت باغ کہا گیا میں سید اکبر نامی قاتل کی گولی سے ہلاک ہوئے۔ لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو بھی وہیں موقع پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اگر کوئی غور سے دیکھے تو بےنظیر بھٹو اور لیاقت علی خان کے قتلوں کی کوریو گرافی، اور تانوں بانوں میں کہیں کہیں بہت سی مماثلت ہے چاہے زمانوں کا فرق ہے (خیر، یہ ایک اور بادشاہی کا قصہ ہے)۔
ذرا ان دنوں کا دلچسپ، ڈرائونا و خطرناک ملکی منظرنامہ ملاحظہ کیجیے:
ملک میں تقسیم کے وقت حقیقی لٹے پٹے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے وعدے ایفا ہونے کے بجائے settlement and rehabilitation یا محکمہ برائے آبادکاری مہاجرین میں فراڈ، رشوت ستانی، اقربا پروری و لوٹ مار زوروں پر تھی۔ مہاجرین کا زیادہ تر زور کراچی و حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص، سمیت سندھ اور وہاں ہندوؤں اور سکھوں کی متروکہ املاک پر تھا۔ سچے جھوٹے کلیموں کی مارا ماری تھی کہ پورا سندھ و پنجاب متروکہ سندھ و پنجاب بنے ہوئے تھے۔ ترقی پسند سوچ والے وزیر میاں افتخارالدین ہٹائے جا چکے تھے اور ان کے اخبارات نے لیاقت علی خان اور مسلم لیگ کی موقع پرست حکومت و قیادت پر سخت ‘وختہ پایا’ ہوا تھا۔ اس گروپ پاکستان پروگریسو پیپرز کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے جن کے لکھے ہوئے اداریے اس زمانے کے حکمران ٹولے کی آنکھ میں چبھتے تھے۔ عالمی منظرنامے میں سابقہ سوویت یونین سے تعلقات بڑھانے کی باتیں ہو رہی تھیں اور لیاقت علی خان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف تھا۔ یعنی کہ اس وقت بھی یہی روس تھا۔ میجر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں قبائلی علاقوں سے مجاہدین بھرتی کر کے کشمیر کی لڑائی یا چڑھائی ہو چکی تھی۔ اور اکبر خان کو اعتراض ہندوستان سے جنگ بندی کے اعلان پہ تھا۔
باقی سب اس کی تاریخ ہے۔ کشمیر چڑھائی یا جنگ میں مقبولیت کے بعد اکبر خان برگیڈیئر کے عہدے سے ترقی پا کر میجر جنرل کے عہدے پر پہنچ چکے تھے۔ فوج کے سربراہ میجر جنرل ایوب خان کی ان سے مسابقت لازمی تھی۔ لیکن میجر جنرل اکبر خان کی سیاست سے دلچسپی (یا کہا جائے کہ پہلے سینیئر فوجی عملدار تھے جن کے سیاسی عزائم تھے) فوج کے اندر ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ میرے دوست اور صحافی علی حسن کو ان کی طبع شدہ کتاب ‘جنرل اور سیاست’ کے لئے انٹرویو کے دوران اکبر خان نے بتایا تھا کہ ان کا تعلق موجودہ خیبر پختونخوا کے اتمان زئی قبیلے سے تھا اور ان کا آبائی گائوں چارسدہ میں تھا۔ ان کا خاندان باچا خان کی تعلیمات سے متاثر تھا۔ نیز یہ کہ ان کے والد باچا خان عبدالغفار خان کے خدائی خدمتگار سکول قائم کرنے میں مددگار بھی رہے تھے۔
جب علی حسن نے اکبر خان سے ان کی فوجی بغاوت کے عزائم بارے پوچھا تو انہوں نے کسی سازش کی تردید کرتے ہوئے الٹا سوال کیا تھا "کیا فیض احمد فیض جیسے شاعر آمریت کے حامی ہو سکتے تھے؟”
مارچ 1951 میں راولپنڈی سازش کیس میں سب سے پہلے اکبر خان، ان کی بیگم نسیم اکبر خان اور فیض احمد فیض گرفتار ہو ئے تھے (بلکہ سجاد ظہیر تو شاید راولپنڈی سازش کیس سے کئی دن پہلے پبلک سیفٹی ایکٹ میں گرفتار تھے جنہیں بعد میں اس مشہور مقدمے میں شامل جرم کیا گیا تھا)۔ ان سمیت اس مقدمہ سازش کے پندرہ ملزمان تھے جن میں میجر جنرل نذیر، کوئٹہ کور کے برگیڈیئر صدیق خان، برگیڈیئر لطیف خان، کرنل ضیاالدین ایئر کموڈور ایم کے جنجوعہ، میجر یوسف سیٹھی، میجر صدیق راجہ، میجر اسحاق محمد، کیپٹن ظفر اللہ پوشنی، کیپٹن خضر حیات، میجر حسن خان، کرنل نیاز محمد ارباب (جو بعد میں ضیا الحق کی کابینہ مین وزیر بھی بنے)، بائیں بازو کے سرگرم کارکن محمد حسین عطا سمیت اس مقدمے کے ملزمان کو مختلف شہروں اور بہت سوں کو شہروں کی چھاؤنیوں سے گرفتار کر کے لاہور اور پھر کراچی اور آخرکار حیدرآباد سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ حیدرآباد سنٹرل جیل میں ان کے خلاف ‘راولپنڈی سازش کیس’ چلائے کی شروعات کی گئی۔ اس بند کمرہ مقدمے کے لئے خاص ٹربیونل حیدر آباد سنٹرل جیل کے اندر ہی قائم کیا گیا جس کے جج جسٹس سر عبدالرحمان (بالمعروف ایس اے رحمان جو 1970 کی دہائی کے دو بائیں بازو کے تاریخی کرداروں اور بلوچستان کے پہاڑوں پر سابق گوریلوں راشد رحمان اور اسد رحمان کے والد تھے)، جسٹس شریف اور ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جسٹس امیر الدین تھے۔ جب کہ استغاثہ کے وکیل اے۔ کے۔ بروہی تھے۔ مقدمے کے ملزمان کے وکیل حسین شہید سہروردی اور ظہیر حسین لاری تھے۔ ایک پاکستانی جرنل میں شائع اپنے تحقیقی تجزیے Rawalpindi Conspiracy Case: Myth or Reality میں ایم حمزہ لکھتے ہیں کہ جنرل اکبر خان کے معتمد خاص سینیئر پولیس افسر عسکر علی شاہ سابقہ سرحد صوبے میں تعینات تھے اور سب سے پہلے انہوں نے اس کی اطلاع اپنے انسپیکٹر جنرل کو دی کہ وزیر اعظم کو یہ اطلاع پہنچائی جائے کہ جنرل اکبر خان نے دیگر فوجی و سول شخصیات کے ساتھ میٹنگ کی اور جس میں سازش کا منصوبہ زیر بحث آیا۔ جب کہ سجاد ظہیر کی قید و بند پر کتاب ‘سجاد ظہیر کا دور اسیری’ کے مصنف اندر جان بھیسن اندر نے راولپنڈی سازش کیس کے حوالے سے لکھا ہے کہ میجر جنرل ایوب خان نے پشاور کا خفیہ سفر کیا اور مذکورہ پولیس افسر کو اس گواہی پر آمادہ کیا تھا۔ ایوب خان کو پھر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔
وفات سے چند ماہ قبل ظفر اللہ پوشنی نے نیا دور ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس ‘سازش’ کے حوالے سے اپنا مؤقف پیش کیا تھا۔ یہ بھی دیکھیے:
میجر یوسف سیٹھی اور صدیق راجہ اس مقدمے میں وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے۔
یہ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا اور اس میں ملزمان کو چار سے بارہ سال کی سزائیں ہوئی تھیں۔ سوائے بیگم اکبر خان کے جن کو بری کردیا گیا تھا (بیگم نسیم اکبر پنجاب کے مشہور سیاستدان سر محمد شفی کی نواسی اور میاں شاہنواز اور بیگم شاہنواز کی بیٹی تھیں۔ نسیم اکبر خان کی ایک بہن ممتاز شاہنواز مشہور ناول نگار بھی گزری ہیں جنہوں نے تقسیم پر ایک ناول The Heart Divided لکھا تھا)۔ جب کہ میجر جنرل نذیر کو عدالت کے برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی تھی۔
راولپنڈی سازش کیس کا ملک اور عوام کو کم از کم فائدہ یہ ہوا کہ فیض احمد فیض کی شاعری کا سب سے طاقتور حصہ راولپنڈی سازش کیس کی اسیری کے دوران اور وہ بھی زیادہ تر حیدرآباد سنٹرل جیل میں تخلیق ہوا تھا۔
اگر تلہ سازش کیس
1960 کی دہائی بھی اس سے گذشتہ دہائی کی طرح سازشوں کی کہانیوں کی دہائی تھی۔ جیسے سنہ 2006 میں ایک غائب شدہ سندھی قوم پرست کو اس کے پہلے تفتیش کار نے کہا تھا کہ: "بس کردار اور کہانی وہی رہتے ہیں صرف ایکٹر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔”
1964 میں عوامی لیگ کے سربراہ اور راولپنڈی سازش کیس میں جنرل اکبر خان و دیگران کے وکیل حسین شہید سروری کا انتقال ہوا۔ اپنے دور کے پکے مسلم لیگی اور سابق طالب علم رہنما شیخ مجیب الرحمان اپنے اس پیشرو کے برعکس اب اپنے عوامی لیگ کے دھڑے کے سربراہ قدرے سخت گیر سیاسی لائن کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کو منظم و سرگرم کرنے کے لئے مغربی و مشرقی پاکستان کا طوفانی دورہ کیا۔ لاہور میں سہروری کے چہلم اور پھر اگلے سال برسی کے موقع پر لاہور کراچی سمیت ان کے سابقہ مغربی پاکستان کے دورے ان کو ایوب خانی حکومت کی جاسوسی مشینری اور مغربی پاکستانی مرکزیت پسند پریس کے راڈار پر لے آئے۔ ان کے کردار و سیاست کو انتہائی منفی کر کے پیش کیا گیا۔
اگرچہ ایوب خان پہلے سے ہی فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے بعد مشرقی چاہے مغربی پاکستان کی متحدہ حزب مخالف پارٹیوں کے اتحاد ڈیموکریٹک الائنس (ڈیک) کی زبردست مخالفت اور سیاسی بحران کی زد میں تھے، اوپر سے 1965 کی پاک بھارت جنگ اور اس پر اس کے وفادار وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی علیحدگی نے ان کی نیا کو اور ڈانواں ڈول کر دیا تھا۔ 1966 میں ایوب خان نے اس بحران سے نکلنے کو گول میز کانفرنس بلائی۔ جس میں سوائے بھٹو کے شیخ مجیب الرحمان سمیت مشرقی و مغربی پاکستان سے حزب اختلاف کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ شیخ مجیب الرحمان نے اپنے مکمل صوبائی خود مختیاری کے پروگرام پر مشتمل چھ نکاتی مطالبات پیش کیے تھے۔ جن میں سوائے دفاع، خارجہ پالیسی، اور کرنسی کے تمام اختیارات صوبوں کو سونپنے کی بات کی گئی تھی۔ تب سے شیخ مجیب الرحمان غدار ٹھہرائے جانا شروع ہوئے۔ انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان کے کونے کونے کے دورے شروع کیے۔
آخر کار جنوری 1968 کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ان کو ‘اگرتلہ سازش کیس’ میں گرفتار کیا گیا۔ اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شدگان شیخ مجیب الرحمان اور ان کے عوامی لیگ کے ساتھیوں سمیت 28 افراد تھے جن میں بنگالی فوجی افسران بھی شامل تھے۔ ان پر الزامات تھے کہ انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں کومیلا کے قریب بھارتی گائوں اگرتلہ میں بھارتی فوج کے عملداروں کے ساتھ ملاقات کر کے پاکستان توڑنے کی سازش کی۔
ڈھاکہ میں ایک بنگلے میں ‘اگرتلہ سازش کیس’ چلانے کے لئے خصوصی ٹربیونل قائم کیا گیا جس کے سربراہ وہی راولپنڈی سازش کیس کے جج اور پھر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ایس اے رحمان کو مقرر کیا گیا۔ ایوب حکومت میں سابق وزیر خارجہ منظور قادر استغاثہ کے وکیل مقرر ہوئے۔
لیکن جلد ہی ایوب خان کے دس سالہ طویل دورانیے کی آمریت کے خلاف آخرکار حزب مخالف کی جماعتیں، ان کا منحرف سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی اس وقت نو قائم شدہ پاکستان پیپلز پارٹی، طلبہ، کسان و مزدور تنظیموں کے سڑکوں پر تحریک کے دوران، اور دوسری جانب خاص طور پر سابقہ مشرقی پاکستان میں احتجاجی لہر کا ایک مطالبہ اگرتلہ سازش کیس کا خاتمہ بھی تھا۔ جس کے دبائو میں اگرتلہ سوش کیس کا خاتمہ اور شیخ مجیب الرحمان و دیگران کی رہائی عمل میں آئی۔
شیخ مجیب لائلپور اور میانوالی جیلوں میں
1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان اسی چھ نکاتی پروگرام پر سابقہ مشرقی پاکستان میں زبردست اکثریت سے انتخابات جیت کر آئے اور ان کی پارٹی پاکستان عوامی لیگ ملک میں سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر کر آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متحدہ پاکستان میں اقتدار عوامی لیگ اور شیخ مجیب کے حوالے کیا جاتا لیکن بجائے اس کے سابقہ مشرقی پاکستان پر یحییٰ خانی فوجی جنٹا نے فوجی چڑھائی کر ڈالی۔ باقی سب تاریخ ہے۔
مارچ 1971 میں شیخ مجیب الرحمان کو ان کی ڈھاکہ میں دھان منڈی کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے سابقہ مغربی پاکستان لایا گیا اور ان پر ملک توڑنے کی سازش کا مقدمہ ڈالا گیا (وہی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات)۔ لائلپور جیل میں انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ انہیں اخبارات تک نہیں دیے جاتے تھے۔
بعد میں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ لائلپور جیل میں وہاں ان کی آنکھوں کے سامنے ہر روز ان کے لئے قبر کھودی جاتی تھی۔ جیل میں ہی خفیہ طور پر ان پر مقدمہ چلایا جانے لگا۔ شیخ مجیب نے پاکستان حکومت کو اپنے لئے صفائی یا دفاعی وکلا کے لئے تین ناموں کی درخواست کی تھی جن میں پہلا نام اے۔کے۔ بروہی کا تھا۔
اے کے بروہی شیخ مجیب الرحمان کے دفاع کے لئے رضا مند ہوئے تھے۔
شیخ مجییب الرحمان نے بعد میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”میں نے عدالت کے ججوں کو بتایا تھا کہ جس جگہ تم کرسی نشین ہو اسی جگہ مجھے ہونا چاہیے تھا اور جس کٹہرے میں آج میں کھڑا ہوں وہاں آپ کو ہونا چاہیے تھا”۔
پھر ہم نے دیکھا (بقول شاعر) "بنگالی آزاد ہوئے اور غازی جیل سدھائے” کہ شیخ مجیب الرحمان جسے تقریباً پورا مغربی پاکستان ‘غدار’ کہا کرتا تھا اسے 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔
لندن پلان یا لندن سازش
16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان دنیا کے نقشے پر پاکستان سے علیحدگی کے نتیجے میں ایک آزاد ملک بنگلہ دیش کے نام سے ابھر آیا۔ ادھر باقی ماندہ پاکستان کے بطور صدر اور چیف سولین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کی باگ ڈور سونپی گئی۔ اگرچہ شروع شروع میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (مفتی محمود گروپ) صدر بھٹو کی حکومت کی حلیف جماعتیں تھی۔ دو صوبوں بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں یا نیشنل عوامی پارٹی کے بلوچ اور پشتون منتخب نمائندوں نے جے یو آئی مفتی محمود گروپ کے ساتھ مخلوط حکومتیں بنائیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عطا للّٰہ مینگل اور گورنر غوث بخش بزنجو اور سابقہ صوبہ سرحد میں وزیر اعلیٰ مفتی محمود اور گورنر ارباب سکندر خان خلیل بنے۔
پاکستان کے عبوری آئین اور پھر 1973 کے آئین پر بھی ان جماعتوں کے منتخب اراکین (سوائے خیر بخش مری اور عبدالحئی بلوچ کے) مستقل آئین 1973 کے مسودے پر دستخط بھی کیے۔ لیکن بھٹو مرکزی حکومت اور بلوچستان NAP حکومت یا بلوچ قوم پرستوں اور باقی ماندہ پاکستان کے وفاقی اسٹبلشمینٹ کے درمیان کشیدگی کب کی چل پڑی تھی۔
لندن میں حصول تعلیم کے لئے گئے نوجوانوں راشد رحمان اور اسد رحمان، نجم سیٹھی اور احمد رشید نے ایک بائیں بازو کی سوچ رکھنےوالے ہم خیال دوستوں کا گروپ ‘لندن سٹڈی گروپ’ کے نام سے قائم کیا تھا جن کی زبردست ہمدردیاں بلوچ قوم پرستوں، خاص طور پر بلوچ قوم پرست رہنمائوں خیر بخش مری و شیر محمد مری والوں سے تھیں۔ نیز یہ کہ باقی ماندہ پاکستان میں کراچی سمیت شہری بائیں بازو کے پڑھے لکھے نوجوانوں اور سرگرم کارکنوں خاص طور پر لیاری سمیت کراچی میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے کئی لوگوں یا حلقوں کے نظریاتی ڈانڈے اس غیر منظم غیر رسمی ‘لندن سٹڈی گروپ’ سے ملتے تھے۔ ان میں ڈاکٹر، انجینیئر و اساتذہ بھی شامل تھے جن کا واسطہ بائیں بازو کی طالب علم تنظیموں خاص طور پر این ایس ایف اور اس سے قبل ڈی ایس ایف سے رہا تھا۔
تو غیر سرکاری و سرکاری طور پر لندن میں قیام پذیر ایسے نوجوانوں کے رابطوں و سرگرمیوں کو ‘لندن گروپ’ کا نام دیا گیا۔ مزید یہ کہ ان دنوں بھٹو حکومت کے جبر سے فرار اس کے نشانے پر اس کے سیاسی مخالفین کی جائے پناہ دو شہر تھے۔ یا لندن یا پھر کوئٹہ، جہاں ان دنوں NAP کی حکومت تھی۔ بھٹو حکومت کو مطلوب کئی بائیں بازو و قوم پرست تنظیموں کے سرگرم لیڈر و کارکن بلوچستان کے گورنر یا چیف منسٹر ہائوس کے مہمان خانوں میں مہمان ہوتے۔ ان میں چند معروف نام NAP سندھ سیکرٹری جنرل مہر حسین شاہ، نبی بخش کھوسو (جو بعد میں وفاقی و صوبائی سیکرٹری سطح کے بیوروکریٹ بنے بلکہ کیبینٹ ڈویژن کے رولز آف بزنس کھوسو کے ہی تحریر کردہ ہیں)، ہاری لیڈر غلام محمد لغاری، جام ساقی، شاہ محمد شاہ، اور زاہد مخدوم تھے۔ نبی بخش کھوسو نے کوئٹہ میں بھٹو حکومت مخالف پرنٹنگ پریس قائم کیا جب کہ غلام محمد لغاری نے سندھ میں بندش شدہ اپنا اخبار ‘سچائی’ کوئٹہ سے شائع کیا۔
نیز لندن میں دیگر قیام پذیر سایسی منحرفین جلا وطنوں میں راولپنڈی سازش کیس کے سابق اسیر ایئر ایم کے یا محمد خان کموڈور جنجوعہ تھے جو وہاں سے انگریزی زبان میں جریدہ ‘ڈیموکریٹک پاکستان’ شائع کر رہے تھے جس میں کئی پاکستانی منحرف لکھاریوں کی تحریریں شائع ہوا کرتیں۔
تو لندن گروپ اور لندن میں سیاسی منحرفین و جلا وطنوں کی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر بھٹو حکومت نے اسے ‘لندن پلان’ یا لندن سازش کا نام دیا جس کی تشہیر کا کرتا دھرتا بھٹو حکومت کا وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی تھا۔ بھٹو کے بعد بھی جس جگہ دو چار حکومت کے منحرفین کسی پب یا کافی ہائوس میں ماضی قریب تک ملتے رہے تو اسے ‘لندن پلان’ یا ‘لندن سازش’ قرار دینے سے سنسنی پسند میڈیا اور مہم جو طالع آزما اسٹیبلشمنٹ نے کوئی تامل نہیں کیا۔
عراقی اسلحہ سکینڈل، غیر ملکی سازش
15 فروری 1973 کو اسلام آباد میں عراقی سفارتخانے کے لئے آنے والے سفارتی سامان کی کارگو میں بھٹو حکومت نے روسی ساخت کے اسلحے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ نیز یہ دعویٰ بھی کیا کہ سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی طرف سے عراقی سفارتخانے پر چھاپے میں غیر ملکی سازش کے تحت یہ روسی ساخت کا اسلحہ بلوچستان میں شورش برپا کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ اس اسلحہ سکینڈل میں ملوث عراقی سفارتی عملہ (جن کو تو بہرحال سفارتی استثنیٰ حاصل تھی) اور ایک اہم ملزم قادر بخش نظامانی کو قرار دیا گیا تھا۔ سندھی نژاد قادر بخش نظامانی جو جدید بلوچ قوم پرستی کے نظریہ دان تھے اور ان دنوں کراچی کے روسی قونصل خانے میں بھی کام کرتے رہے تھے۔ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اور بلوچستان کی حکومت، بلوچ قوم پرستوں نے بھٹو حکومت کے ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کو غیر ملکی اسلحہ مطلوب ہوتا تو ایران اور افغانستان سے کئی مقامات ان کے لئے آسان راستے و ذرائع تھے۔ اگرچہ ایران میں ان دنوں شہنشاہ پہلوی شاہ رضا کی حکومت تھی اوراس کے ایرانی بلوچستان کی سرحد پر پاکستانی بلوچستان میں NAP کی حکومت اسے کھٹکتی تھی۔ بعد میں اب یہ کھلا راز ہے کہ بلوچستان میں فوجی کارروائی میں استعمال کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر پر ایرانی پائیلٹ بھی بتائے جاتے ہیں۔
‘عراقی اسلحہ سکینڈل اور غیر ملکی سازش’ کو بنیادی جواز بناتے ہوئے بھٹو حکومت نے بلوچستان میں NAP کی حکومت برطرف کر کے گورنر راج نافذ کر دیا۔ اکبر بگٹی کو گورنر مقرر کیا۔ کوئٹہ میں ہی اکبر بگٹی کے دنوں میں NAP کا کنونشن منعقد ہوا تھا اور اس کے عام اجلاس میں حبیب جالب نے اپنی نظم پڑھی تھی:
سنو بھائی اکبر بگتی
میں بات کہوں یہ چکتی
جمہوریت کی تحریکیں
گولی سے نہیں دبتیں
(لیکن اکبر بگٹی نے اپنے اوپر لگنے والا یہ داغ مشرف دور میں اپنے ہی خون سے دھو ڈالا اور آج وہ بلوچوں اور بلوچ قوم پرستوں کا غیر متنازع ہیرو بنا ہوا ہے)۔
بہرحال بلوچستان میں NAP حکومت کی معزولی کے خلاف سرحد میں بھی مفتی محمود اور گورنر ارباب سکندر خان خلیل نے استعفے دیے۔ اور اس سے قبل ہی بلوچ سرمہ چاروں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مری، مینگل علاقوں میں پہاڑوں پر لڑنے چلی گئی جہاں لندن گروپ کے نوجوان اور خیر بخش مری کی بلوچ پیپلز لبریشن آرمی (بی پی ایل ایف) کے بینر تلے بلوچ “سرم چار” جمع تھے۔ 1973 کی بلوچ بغاوت بالکل ایک الگ کہانی ہے۔ اس بغاوت میں بلوچ لڑاکا کاروں کے شانہ بشانہ غیر بلوچ جیسے لندن گروپ کے کچھ پنجابی نوجوان، سندھی نژاد تالپور براداران، میر محمد علی اور میر حیدر (جو بعد میں ضیاالحق کی حکومت کے دنوں میں سندھ میں صوبائی وزیر بھی بنے)، کراچی کے اردو بولنے والے حسن ناصر، جانی ٹی داس (یہ دونوں آج تک غائب ہیں) جنوبی افریقہ سے آغا خانی محمد بھابھا (جس نے کچھ سال قبل خودکشی کی) اور کئی شامل تھے۔ یہ نوجوان، بلوچ سرداروں اور NAP کی لیڈرشپ کے بھی کوئی زیادہ مداح نہیں تھے۔
کئی برسوں بعد ان دنوں امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ڈی کلاسفائیڈ یا عام کیے گئے دستاویزات میں لکھا گیا تھا "بعث پارٹی تلے عراق سے اپنے سفارتخانے پاکستان بھیجے جانے والے اسلحے کے مقاصد مبہم ہیں۔ لیکن اس سے قبل بھی عراق اپنے پڑوسی ممالک جیسا بحرین، عمان اور ایران میں اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔ مگر ایک بات واضح ہے یہ عراقی اسلحہ بھٹو کے لئے اپنی خارجہ پالیسی اور ملک میں NAP جیسے مخالفین پر آہنی ہاتھ سے نمٹنے کو ایک ‘ونڈ فال’ یا غیر متوقع لیکن بڑا موقع غنیمت ہے۔”
حیدرآباد یا بلوچستان سازش
ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی حکومتی مشینری نے عراقی اسلحہ سکینڈل اور بلوچستان میں بغاوت کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے NAP کے لیڈروں و مرکزی کمیٹی سمیت دیگر بلوچ و پشتون لیڈروں و اپنے دیگر سیاسی مخالفین کے خلاف ‘بلوچستان سازش کیس’ المعروف ‘حیدرآباد سازش کیس’ کے نام سے ایک وسیع مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمے میں خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، سینیٹر زمرد حسین، ڈاکٹر علی محمد کرد، نجم سیٹھی، اظہر جمیل، معراج محمد خان، مشتاق راج، یوسف مستی خان، اکبر مستی خان، میر علی بخش تالپور (فریال تالپور کا سسر)، شیر محمد مری عرف جنرل شیروف، حبیب جالب، بلوچ قومی شاعر میر گل خان نصیر، جام ساقی، لال بخش رند، سید قصور گردیزی، کرنل سلطان مینگل، افراسیاب خٹک، نسیم آغا سمیت پچاس سے زائد لوگ شامل تھے۔
1975 میں پشاور یونیورسٹی کی ایک تقریب میں بھٹو حکومت کا سینیئر وزیر اور پارٹی لیڈر حیات محمد خان شیر پائو قتل ہوا۔ جس کو جواز بنا کر NAP کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا۔ چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے NAP کو کالعدم قرار دیا اور شیرپائو قتل کے بعد NAP اور اس سے وابستہ کئی رہنمائوں اور کارکنوں کو بھی حیدر آباد سازش کیس میں شامل کیا گیا۔
1975 میں قائم پہلے یہ تاریخی مقدمے ‘بلوچستان سازش کیس’ کی شروعاتی سماعتیں سکھر سنٹرل جیل میں ہوئی۔ اور پھر قیدی اور مقدمہ حیدر آباد سنٹرل جیل منتقل کیے گئے۔ مقدمہ آخر تک حیدرآباد سنٹرل جیل کے اندر چلایا گیا تھا۔ سنٹرل جیل کے اندر چلائے جانے والے اس تاریخی مقدمے کو ‘حیدرآباد سازش کیس’ کہا جاتا ہے۔ حیدر آباد سنٹرل جیل کو تاریخی جیل اس لئے کہ اسی جیل میں انگریزوں نے پیر پگاڑو کو پھانسی دی تھی، اسی جیل میں راولپنڈی سازش کیس کے اسیروں کو قید رکھ کر مقدمہ چلایا گیا تھا، اسی جیل میں بلوچ سردار نوروز خان کے قریبی عزیزوں کو پھانسیاں ہوئی تھیں۔ حیدرآباد سازش کیس چلانے کو خصوصی ٹربیونل مقرر کیا گیا تھا جس کا سربراہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مشتاق علی قاضی۔ شاید اس ٹربیونل کا ایک رکن پشاور ہائی کورٹ کا جسٹس عبدالغنی تھا۔ اس مقدمے میں جب سید نسیم آغا پر الزام پڑھ کر سنایا گیا تھا کہ اس کیس میں چودہ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے تو نسیم آغا نے ٹربیونل کے سربراہ سے کہا تھا کہ "چودہ سال تک نہ تم ہوں گے نہ تمہارا باپ بھٹو ہوگا تو مجھے سزا کیسا لگے گا”۔ اس مقدمے کی کارروائی بہت بڑا کورٹ روم تھیٹر تھا۔ ملزمان سیاسی کارکن و نوجوان نعرے لگاتے آتے تھے اور کمرہ عدالت نعرہ بازی سے گونجتا رہتا تھا۔ ججوں اور ملزمان کے درمیان بھی دلچسپ مکالمے ہوا کرتے۔
انہی دنوں مقامی سیشنز جج ولی خان کے اے کلاس وارڈ میں ان کے ایئر کںڈشنر خراب ہونے کی شکایت پر جب ان سے معلوم کرنے گئے تھے تو ولی خان نے جج صاحب سے کہا تھا: "اب بھٹو سے جا کر پوچھی۔ کہ اب یہاں ہمیں نہیں رہنا اسے یہاں آنا ہے”۔
اور یہ کہ حیدرآباد سازش کیس یا بلوچستان سازش کیس کا ملک پاکستان کی قسمت سے بھی گہرا تعلق ہے۔
1977 میں جب بھٹو کے خلاف بائیں بازو کی پاکستان نیشنل الائنس یا پی این اے تحریک ملک کے بڑے شہروں میں چلی۔ اس تحریک نے پرتشدد بحران اختیار کیا۔ اس تحریک کو بھی اس کے مخالفین اور بھٹو حکومت نے ‘غیر ملکی سازش’ اور ‘ڈالر تحریک’ قرار دیا تھا۔ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور پی این اے کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ پی این اے کی طرف سے مطالبات میں ایک مطاالبہ حیدرآباد ٹربیونل توڑنا بلوچستان سازش کیس ختم کر کے تمام ملزمان یا اسیروں کو رہا کرنا بھی شامل تھا۔ اس پر اس وقت کا فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق بضد تھا اور مذاکراتی ٹائم کو بریف کیا کہ ‘حیدرآباد سازش کیس’ کو تو کسی بھی صورت میں ختم نہیں کیا جا سکتا یہ ایک بہت حساس قومی سالمیت معاملہ ہے۔ لیکن جب مذاکرات میں تعطل پیدا کیے جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کرنے کے بعد حیدرآباد سازش کیس ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس ضمن میں 1978 میں جنرل ضیا نے حیدرآباد سنٹرل جیل جا کر ولی خان کی سربراہی میں بلوچستان سازش کیس کے اسیروں سے ملاقات کی۔ خیر بخش مری اور ساتھیوں نے پہلے ضیا سے ملنے سے انکار کیا لیکن پھر باقی ساتھیوں کے اصرار پر ملاقات کی۔ جنرل ضیا نے بلوچستان میں ‘عام معافی’ کا اعلان کیا۔ بلوچستان ٹربیونل اور بلوچستان یا حیدرآباد سازش کیس کا خاتمہ اور تمام اسیروں کی رہائی ہوئی۔ جنرل ضیا سے مزاکرات پر ولی خان اور میر غوث بخش بزنجو سے ان کے ساتھیوں کے اختلافات ہوئے۔ ولی خان، بزنجو، خیر بخش مری، عطااللّٰہ مینگل نے سیاست میں اپنی اپنی راہیں ا لگ کرلیں۔ حیدرآباد ٹربیونل تو ٹوٹا بلوچستان سازش کیس تو ختم ہوا لیکن اس شعر کے مصداق کہ:
‘چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا’
اٹک سازش کیس 1973
اٹک سازش کیس 1973 پاکستان کی فوجی اور سیاسی تاریخ کا پہلا کیس تھا جس میں نہ فقط زیادہ تر افواج پاکستان کے جونیئر افسران (جن میں اچھی خاصی تعداد فضائیہ کے جونیئر افسران کی تھی) ملوث قرار پائے تھے بلکہ اس ‘سازش کیس’ نے آج تک پاکستان کی قسمت بدل ڈالی۔ یعنی کہ یہ وہ ناکام فوجی بغاوت کا کیس تھا جو اس وقت کے میجر جنرل ضیاالحق کے لئے اوپر کی منزل پر پہنچنے کی سیڑھی اور بقول اس کیس کے متعلق اندرونی کہانی جاننے والوں میں سے ایک کے "ضیا کے لئے ایک سنگ میل اور باقی ملک کے لئے سنگ لحد ثابت ہوا”۔ اس وقت میجر جرنل ضیاالحق اٹک سازش کیس کے ٹربیونل کا سربراہ تھا اور یہی وہ موڑ تھا جہاں اس نے بھٹو کا اعتماد حاصل کیا اس وعدے پر کہ وہ اس کی حکومت کے خلاف اس سازش کیس کے تمام ملزمان کو سخت سے سخت سزائیں دے گا۔
ابھی مشرقی پاکستان کو الگ ہوئے بمشکل دو سال ہی ہوئے تھے کہ پاکستان کی بری فوج اور فضایئہ کے نوجوان افسروں میں (ان میں چند وہ افسر بھی شامل تھے جو 71 کی جنگ میں بھارت میں جنگی قیدی اور وہ بھی جو ان 65 اور 71 جنگوں کے ہیرو یا ان کی اولاد تھے جیسا ایک ملزم میجر سعید اختر ملک) اور کچھ وہ بھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے ہونے تک مداح تھے۔ لیکن سنہ 71 کے واقعات اور اس کے بعد والی صورتحال میں بھٹو کی حکومت اور اس کی پالسیوں سے نالاں اور فرسٹریٹیڈ تھے۔
مارچ 1973 میں ملک کی مختلف چھاؤنیوں اور ایئر بیسز سے نوجوان افسران جن میں بری فوج سے کرنل اور میجر، کیپٹن، اور دو برگیڈیئر، فضائیہ سے سکواڈرن لیڈر بھے شامل تھے گرفتار کر لیے گئے تھے۔ ان پر الزامات تھے کہ انہوں نے اس وقت کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے ذریعے تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کرنے کی سازش تیار کی تھی۔ ان میں ایک اس ‘سازش’ کے دیگر ملزمان میں اہم ترین ملزم میجر سعید اختر ملک اور پرویز مشرف دور میں احتساب کے چیف پراسیکیوٹر سابق میجر فاروق آدم خان تھے۔ اٹک سازش کیس 1973 کے دیگر ملزمان کی فہرست کچھ اس طرح سے تھی: میجر رینک کےآصف شفیع، اشتیاق آصف، فارق نواز جنجوعہ، نادر پرویز (بعد میں مسلم لیگ نواز والے)، طارق پرویز (نادر پرویز کے بھائی اور پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کے وقت کوئٹہ کے کور کمانڈر)، نصراللہ خان، میجر ایاز سپرا (جو پنجابی زبان کے منجھے ہوئے لکھاری، ڈرامہ نگار کرنل نادر علی کے برادر نسبتی تھے۔ میجر ایاز سپرا کا کچھ عرصہ ہوا امریکہ میں انتقال ہو گیا)۔
کیپٹن سطح کی رینک کے سرور محمود اظہر، نوید رسول مرزا اور کرنل سطح کے افسران میں علیم آفریدی (جو ایئر مارشل اصغر خان کے برادر نسبتی تھے)، مظفر ہمدانی، افتخار احمد، افضل مرزا، تنویر، اور یہاں تک کہ دو برگیڈئیر واجد علی شاہ، برگیڈیئر عتیق احمد اور پاکستان فضائیہ سے سکواڈرن لیڈر غوث اور ونگ کمانڈر ہاشمی اور گروپ کیپٹن سکندر مسعود شامل تھے۔ سابق برگیڈیئر ایف بی علی یا فرخ بی علی جو جنرل گل حسن اور ایئر مارشل اے رحیم کو پیغام بھیجنے کے حوالے سے مشہور تھے وہ بھی اٹک سازش کیس میں اس طرح ملوث کر دیے گئے تھے کہ بالا ذکر نوجوان افسران میں سے کس نے ان سے ملاقات کی تھی اور انہیں مبینہ طور پر ایسے منصوبے کا بتایا تھا۔ جس پر برگیڈیئر ایف بی اے علی نے ان سے کہا تھا کہ یہ ان کا منصوبہ حقیقی طرح ناممکن ہے۔ لیکن اب انہوں نے ملاقات کر کے ان کو ملوث کر ہی لیا ہے۔ برگیڈیئر ایف بی علی کے لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مقدمے کے دوران میجر جنرل ضیا سمیت خصوصی فوجی ٹربیونل کے کسی بھی رکن کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
جب کہ ان نوجوان فوجی افسران نے پکڑے جانے سے قبل ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان سے بھی یہ کہہ کر ملاقات کی تھی کہ ان کے ایسے منصوبے میں ان کے برادر نسبتی کرنل علیم آفریدی بھی شامل ہے۔ اس پر اصغر خان نے ان نوجوان افسروں کے ایسے منصوبے کو خام خیال قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں چھاؤنی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جیت بھی جائے تو اس کی حرکت بھی سینیئر افسر کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور یہاں ‘آپ لوگ ایک بٹالین کو نقل حرکت کرانا چاہتے ہو’۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس سازش کے پہلے ہی دن سے اس کی اعلیٰ سطح پر جاسوسی معلومات مل چکی تھی۔ اس وقت کے ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ جنرل جیلانی تک یہ اطلاعات پہنچ چکی تھیں اور وہ اس سازش کیس کو بہانہ بنا کر اس میں مولانا مودودی اور اصغر خان تک کو ملوث کرنا چاہتے تھے۔
ان افسران کے ایک ساتھی کی طرف سے راز افشا ہونے پر یہ گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کو بری طرح ٹارچر کیا گیا۔ اٹک قلعے میں لا کر ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ اٹک قلعے میں قائم کی اس خفیہ فوجی عدالت کے سربراہ میجر جنرل ضیاالحق کے تحت تب برگیڈیئر جہانداد خان (جو کہ ضیا مارشل کے دنوں میں سندھ کا گور جنرل بھی بنا) اور ایک اور برگیڈیئر اس ٹربیونل کے ممبر تھے۔ شیخ منظور قادر (جو ایوب خان کابینہ میں وزیر اور اس کے بعد اگرتلہ سازش کیس میں استغاثہ کا وکیل تھا)، اعجاز بٹالوی، وسیم سجاد اور اعتزاز احسن اٹک سازش کیس کے ملزمان کے دفاع میں وکیل تھے۔
سابق برگیڈیئر ایف بی علی نے کورٹ مارشل ٹربیونل سے مخاطب ہوتے سعید اختر ملک نے کہا تھا: "ملک میں بڑے بڑے لوگ اپنی دادی کو غیر کے ہاتھوں بیچ رہے ہیں”۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی انگلی صدر عدالت ضیاالحق کی طرف سیدھی کی تھی۔
اس خصوصی کورٹ مارشل عدالت نے تمام ملزمان کو سزائیں دیں جس میں زیادہ سزا فاروق آدم خان کی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جب اس عدالت کے سربراہ میجر جنرل ضیاالحق نے بھٹو کو ‘جیت لیا تھا’۔ جب 1976 میں جنرل ٹکا خان کی جگہ آٹھ جنرلوں کے اوپر ضیاالحق کو لیفٹننٹ جنرل کی ترقی دی گئی اور آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ انتہائی منجھے ہوئے سابق سفیر اقبال آخوند نے اپنی کتاب Memories of a Bystander: A Lofe in Diplomacy میں لکھا ہے کہ جنرل ضیاالحق کو آرمی چیف مقرر کرنے کو دو شخصیات کی سفارش شامل تھی۔ ایک اردن کے شاہ حسین کی کیونکہ اس وقت برگیڈیئر ضیاالحق نے فلسطینیوں کے خلاف عمان میں فوجی آپریشن کیا تھا۔ دوسری سفارش عبدالحفیظ پیرزادہ کی تھی کیونکہ پیرزادہ کی بیگم سعدیہ حفیظ پیرزادہ اور بیگم شفیق ضیاالحق آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔
لیکن یقیناً اس سے بھی بڑی سفارش جنرل ضیا کا اٹک سازش کیس میں کردار کہ بھٹو حکومت کے باغی فوجی افسران کو سخت سزائیں دے کر بھٹو کا زبردست اعتماد حاصل کرنا تھا۔
کرنل نادر علی اپنے قریبی دوستوں اور ملنے والوں کو بتایا کرتے تھے کہ وہ اور ان کی بیگم اٹک سازش کیس مقدمے کی سماعت کے دنوں میں میجر جنرل ضیا الحق سے اپنے عزیز میجر ایاز سپرا کے کیس کے سلسلے میں ملتے رہا کرتے تھے۔ وہ انہیں کہتے کہ ان کا بھائی مخبوط الحواس ہے، ذرا ہاتھ ہولا رکھیں تو ضیاالحق ان سے کہا کرتا تھا "فکر نہ کریں یہ لوگ (اٹک سازش کیس کے ملزمان) تو مجاہد ہیں”۔ ضیاالحق نے اپنے دور حکومت میں 1978 میں اٹک سازش کیس کے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
فرض کرو کہ اگر اٹک سازش کیس نہ ہوتا تو پاکستان کے جو آج اور گذشتہ کچھ دہائیوں سے حالات ہیں وہ یکسر مختلف ہوتے۔ اٹک سازش کیس کا ایک سابقہ ملزم میجر ایاز سپرا مستقل امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ لیکن ان کی قسمت خراب تھی کہ ان پر ایک قتل کا کیس ہو گیا تھا جس میں انہیں سزا لگی تھی، اسی لئے نہ تو وہ نیویارک شہر سے کہیں باہر جا سکتے تھے اور نہ ہی انہیں کرنے کو کوئی ڈھنگ کا روزگار بھی ملا۔
جام ساقی کیس
جنرل ضیا الحق کے مارشل کے ایک سال کے اندر 1978 میں کمیونسٹ رہنما اور اپنے دور کا لیجنڈری طالب علم رہنما جام ساقی گرفتار ہوا جو 1972 سے ریاستی اداروں کو مطلوب تھا۔ یہی وہ سال تھے جب پاکستان کی سرحد پر ایران میں اسلامی انقلاب اور افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آ چکے تھے جس سے سرد جنگ اور تیز ہو گئی تھی۔ اپریل 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی۔ ان کی پہلی برسی کے موقع پر گڑہی خدابخش میں ‘ویلکم ویلکم، رشیا ویلکم’ کے نعرے بھی لگے۔ اور بائیں بازو والے یا جام ساقی کے ساتھی بھی ایک نعرہ یہ لگایا کرتے "چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان”۔ انہی دنوں کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ایک سائیکلو سٹائل پمفلٹ بھی شائع ہو کر تقسیم ہوا تھا جس کا عنوان تھا: "غاصبوں لٹیروں سے اقتدار چھین لو”۔ 1980 تک جنرل ضیا کی جاسوس ایجنسیوں نے کراچی سے جام ساقی کے دیگر ساتھی ان دنوں DSF کا چیئرمین اور معروف طالب علم رہنما نذیر عباسی، پروفیسر جمال نقوی، سہیل سانگی، بدر ابڑو، شبیر شر، احمد کمال وارثی اور حیدرآباد سے امر لال گرفتار کر لیے تھے۔ نذیر عباسی کی دوران تفتیش بذریعہ بہیمانہ تشدد موت واقع ہوئی جس کا اہم ذمہ دار نذیر عباسی کی بیوہ حمیدہ گھانگھرو اور اس کے ساتھیوں نے اس وقت سندھ میں آئی ایس آئی کے کرنل انچارج امتیاز بلا (بعد میں برگیڈیئر) کو قرار دیا (بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں نذیر عباسی کے قتل کی آیف آئی آر بھی سندھ پولیس نے برگیڈیئر امتیاز اور اس وقت کے کچھ اور اہلکاروں کے خلاف درج کر کے سیل کر دی تھی)۔
بہرحال دسمبر 1979 میں افغانستان میں روسی مداخلت اور افغان کمیونسٹ انقلاب کے خلاف افغان مزاحمت کے پس منظر میں جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نے اپنے فوجی آمرانہ اقتدار کو طوالت دینے کے لئے۔ پاکستان اور خطے میں کمیونسٹ خطرے کا ہوا کھڑا کیا اور جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سازش کا مقدمہ قائم کیا گیا کہ انہوں نے فوج اور عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے اور عوام میں فوج کے خلاف نفرت پھیلانے کی سازش افغانستان اور روس کی مدد سے تیار کی تھی۔ مارچ 1981میں جب پی آئی آے طیارہ اغوا ہوا جس کی ذمہ داری الذوالفقار تنظیم نے قبول کی تو ہائی جیکروں نے مسافروں جن میں دو امریکی اور ایک سوئیڈش شہری بھی شامل تھے کی رہائی کے عوض ملک بھر سے سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے ان کے پاس دمشق پہنچانے کو 54 افراد کی فہرست حکومت کو بھیجی۔ اس فہرست میں جام ساقی اور ان کے ساتھیوں کے نام بھی شامل تھے۔ جیل اور مارشل لا انتظامیہ نے جب ہائی جیکروں کے مطالبے پر فہرست میں شامل سیاسی قیدیوں کو زبردستی جیل سے نکال کر دمشق لے جانا چاہا تو جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے زبردست سختیوں کے باوجود مزاحمت کرتے ہوئے جانے سے انکار کر دیا۔ جام ساقی نے جیل و مارشل لا انتظامیہ کو کہا "یہ ہمارا ملک ہے۔ ہم اپنا ملک کیوں چھوڑ کر جائیں؟ پھر اس کی جیل ہی سہی۔ ضیا الحق کو ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت ہے۔ اسے دمشق بھیجو۔”
جہاں ضیا حکومت نے کمیونسٹ خطرے کا ہوا کھڑا کیا وہاں ان کمیونسٹوں نے اپنے خلاف چلنے والے اس سازش کیس اور اس کو چلانے والی خاص فوجی عدالت کو ایک سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر خوب استعمال کیا اور پاکستانی تاریخ کا یہ مشہور مقدمہ بن گیا۔ اس عدالت کے ایک رکن میجر جلیس تھے جو معروف صحافی اور ادیب ابراہیم جلیس کے بیٹے تھے۔
جام ساقی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے دفاع کے گواہان کے طور پر بینظیر بھٹو سمیت ملک کے پائے کے سیاستدان، شاعر، ادیب و صحافی اس خاص فوجی عدالت میں بلوائے جن میں بینظیر بھٹو (بینظیر بھٹو نے اس کیس اور اس میں اپنی گواہی کا ذکر اپنی آپ بیتی ‘دختر مشرق’ یا ‘Daughter of the East’ میں بھی کیا ہے)، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، معراج محمد خان، مولانا شاہ محمد امروٹی، فہمیدہ ریاض، صحافی شیخ عزیز اور منہاج برنا شامل تھے۔ دوران ان کی گواہی تمام سیاسی رہنمائوں سے جام ساقی نے ‘نظریہ پاکستان’ کی تشریح کرنے کو بھی کہا تھا۔
جام ساقی نے تو اپنے دفاع کے گواہ کے طور پر خود ضیاالحق کو خصوصی فوجی عدالت میں طلب کرنے کی درخواست دی تھی جو ظاہر ہے کہ رد کر دی گئی۔
ملزمان کے دفاعی وکلا میں یوسف لغاری، شفیع محمدی، بیرسٹر ودود، اختر حسین اور رشید رضوی شامل تھے۔ ملزمان نے اپنے اپنے دفاعی تحریری بیانات بھی خصوصی فوجی عدالت میں داخل کیے تھے جو خود اچھا خاصا سیاسی ادب ہے۔ جام ساقی کیس کے سابق ملزمان کے بیانات پر مشتمل کتاب ‘ضمیر کے قیدی’ اور اس کے علاوہ بدر ابڑو اور شبیر شر کی جیل کی ڈائریاں، نزہت عباس اور احمد سلیم کی لکھی جام ساقی کی سوانح عمری، اور حال ہی میں اسلم خواجہ کی جام ساقی کیس پر کتاب شائع ہوئی ہیں۔
جونیجو حکومت نے جام ساقی ٹربیونل ختم کر کے تمام ملزمان کو رہا کر دیا۔ ان کی رہائی سے نہ فقط ‘کمیونسٹ خطرہ’ بلکہ ملک میں کمیونسٹوں کے بارے میں myth بھی ٹوٹی اور کچھ ہی عرصے میں کمیونسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کیا (جس پر سرکاری طور پر بندش راولپنڈی سازش کیس کے فوراً بعد 1953 سے لے کر 1989 تک رہی لیکن یہ پارٹی زیر زمین کام کرتی رہی تھی) خود سابقہ سوویت یونین اور اس سے ملحقہ کمونسٹ بلاک ہی ٹوٹ گیا۔
اٹک سازش کیس 1984
1983 ضیاالحق آمریت کے خلاف باقی ملک بھر میں عموماً اور سندھ میں خاص طور پر جمہوریت کی بحالی کی تحریک MRD زوروں پر تھی تو اس سمے لاہور میں کچھ فوجی افسر گرفتار کیے گئے۔ ان کی نشاندہی پر کئی مقامات سے گرفتاریاں ہوئی لیکن یہ گرفتاریاں 1984 میں ظاہر کی گئیں۔ ان گرفتار شدگان میں چودہ افراد کا تعلق افواج پاکستان سے اور دو پولیس انسپیکٹر اور ایک معروف وکیل، لکھاری اور بائیں بازو کا دانشور و کارکن رضا کاظم بھی شامل تھے۔ بعد ازاں ان تمام افراد پر اٹک کے تاریخی قلعے میں ناکام فوجی بغاوت کا مقدمہ ضیاالحق حکومت کے خلاف جنگ کی سازش کا چلایا گیا۔ فرد جرم میں بتایا گیا کہ ان افراد نے حکومت کے خلاف ایک ملک کی مدد سے مسلح جنگ کی سازش کی اور اس کے لئے ملزمان میں سے کچھ لوگ بیرون ملک خود ساختہ جلاوطن سیاستدانوں جام صادق علی اور غلام مصطفیٰ کھر وغیرہ سے بھی جا کر ملے۔ ان ملزمان میں میجر آفتاب چودھری (جو بعد میں مرتضیٰ بھٹو کی پی پی پی شہید بھٹو میں شامل ہوئے)، میجر نثار حسن بخاری، میجر صادق، سکواڈرن لیڈر ثاقب مقصود اور کپیٹن سبطین بھی شامل تھے۔
ان دنوں ملک میں سنسرشپ نافذ تھی لیکن اٹک قلعے میں چلنے والے اس مقدمے اور اسیروں اور ان کے خاندان کی روداد لندن سے اظہار آزادی پر شائع ہونے والے اخبار ‘انڈیکس آن سنسرشپ’ کسی طرح چھاپا کرتا تھا۔ ان دنوں انڈیکس آن سنسرشپ کی رپورٹ کے مطابق ان اسیروں کے خاندانوں کو بھی گھروں پر نظربند رکھ کر تفتیش کے لئے ان کے گھروں کو بھی دو ماہ تک سب جیل قرار دیا گیا تھا اور خود اٹک سازش کیس کے ملزمان کی بھی ایک سال تک ان کے خاندان والوں کو ان کے متعلق بے خبری اور بے رابطگی ہی رہی تھی۔ اٹک سازش کیس کے اسیروں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا تھا۔ کچھ کو قید تنہائی اور بہیمانہ تشدد سے گزارا گیا تھا۔
رضا کاظم سمیت بارہ سابق ملزمان کو مقدمے سے بری کر دیا گیا تھا جب کہ میجر آفتاب سمیت چار فوجی افسروں کو عمر قید سنائی گئی تھی۔
میجر آفتاب نے اپنی اس اسیری کے دنوں پر ایک کتاب ‘اٹک قلعے سے’ لکھی تھی جو ان کی اردو میں نثر نگاری کا نادر نمونہ ہے۔
اس کے علاوہ اٹک سازش کیس پر رضا کاظم نے بھی کتاب لکھی ہے۔ اپنی اس کتاب میں رضا کاظم نے لکھا ہے کہ جنرل ضیا کو اس ‘منصوبے’ کی اطلاع بھارتی انٹیلیجنس را نے دی تھی، نیز یہ بھی کہ سندھ میں MRD تحریک کا زور کمزور کرنے کو MRD کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو ٹھٹھہ کے پاس گھارو ریسٹ ہائوس میں نظربند رکھا گیا تھا جہاں ان کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ MRD تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کریں وگرنہ ان کو اور ان کے بیٹے غلام مرتضیٰ جتوئی کو ‘اٹک سازش کیس’ میں شامل کیا جائے گا۔ رضا کاظم کی اس بات کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ اٹک سازش کیس کے استغاثہ کے مطابق ‘اٹک سازش’ کے ملزمان جنرل ضیا کا تختہ الٹ کر ملک کا اقتدار انتخابات کا انعقاد کروا کر منتخب نمائندوں کو سونپنا چاہتے تھے۔ جس کے لئے تب وزارات عظمیٰ کا خواہشمند غلام مصطفیٰ جتوئی تھا جس کا حامی غلام مصطفیٰ کھر بھی تھا جن سے ملزمان میں سے کچھ نے بیرونِ ملک ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
ایک بڑے ڈرامائی انداز میں اٹک سازش کیس کو تب ‘پریس نوٹ’ میں بیان کیا گیا تھا کہ "لاہور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کچھ مسلح شرپسندوں کی مسلح جھڑپ ہوئی۔ آخر کار چند تخریب کاروں کو گرفتار کیا گیا جن سے انتہائی خطرناک جدید غیر ملکی اسلحہ، کرنسی، سونا چاندی اور تخریبی مواد (لٹریچر) برآمد ہوئے”۔ اس تخریبی مواد کے لئے استغاثہ کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ فوج کے جونئر افسروں میں تقسیم ہوا کرتا تھا۔
انڈیکس آن سنسرشپ کے مطابق پہلے سے گرفتار دو افسران ایک فضائیہ کا سکواڈرن لیڈر اور ایک کپتان کا خفیہ طور پر سرسری فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر دو دن میں ہی سزائیں دی گئی تھیں اور بعد میں وہی دونوں افسران باقی ملزمان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بنے تھے۔
قرآنی نسخے کا تحفہ یا بوٹی ٹریپ
فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے جو 90 دن کے اندر ملک میں عام انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا وہ اس نے 1981 میں پورا کرنے کے بجائے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور ملک میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر مزید بندش لگاتے ہوئے مارشل لا ضابطوں اور کارروائیوں کو مزید سخت ترین بنایا۔ یہ سب ان بہانوں کیا کہ ملک میں اس کا اسلامائیزیشن کا عمل پورا نہیں ہوا اور دوسری طرف تخریبی و ملک دشمن کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ ان بہانوں میں ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ بھٹو برادران (مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو) کی سازش سے جنرل ضیا کو قرآنی نسخہ بھیجا گیا تھا لیکن اس نسخہ قرآن میں بم فٹ کیا گیا تھا۔ بڑی تعداد میں مارشل لا مخالف سیاسی کارکن و رہنما گرفتار کیے گئے اور اس مارشل لا کو ‘سپر مارشل لا’ کہا جاتا ہے۔ گرفتار شدگان مین خواجہ خیرالدین، پرویز علی شاہ اور پیار علی الانا، وزیر لاکھو اور سلیم جہانگیر بھی شامل تھے۔
لیبیا سازش کیس
اسلام آباد میں 1980 میں مصروف کاروباری علاقوں اور تعلیمی اداروں میں ضیاالحق کی فوجی آمرانہ حکومت کے خلاف پمفلٹ پائے جاتے۔ لیکن بہت دنوں تک حکومتی و ریاستی ایجینسیاں یہ کھوج نہ لگا سکیں کہ لائبریریوں اور مسٹر بکس سمیت کتابوں کی دکانوں پر اخبارات اور کتابوں کے بیچ میں پراسرار طور یہ پمفلٹ کیسے ملتے ہیں! آخرکار مزکورہ پمفلٹ کیس کے سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو کا ایک ہمدرد یا حامی افراد پر مشتمل گروپ گرفتار ہوا۔ یہ افراد تھے ذوالفقار علی بھٹو کے دوست اور ڈینٹسٹ ڈاکٹر ظفر نیازی، اپنے دور کا مشہور طالب علم رہنما صفدر ہمدانی المعروف چاچا ہمدانی (یہ چاچا ہمدانی ہی تھے جنہوں نے ناہید خان کو بینظیر بھٹو سے متعارف کروایا تھا)، کامران رضوی (اس وقت نوجوان سیاسی کارکن اور اب انسانی حقوق کا معروف کارکن) اور اسلم ساغر۔ لیکن کچھ دنوں بعد کامران رضوی سمیت ایک اور کیس ضیا مارشل لا حکومت ‘لیبیا سازش کیس’ منظر عام پر لائی۔ لیبیا سازش کیس میں سابق برگیڈیئر عثمان خالد (اسلام آباد یونیورسٹی کی سابق وائس چانلسر کنیز یوسف کے بھائی)، طارق خورشید، پنجابی اور اردو کی شاعرہ افضل توصیف، فرخندہ بخاری، کامران رضوی، آغا ندیم و دیگران ملزمان بتائے گئے تھے۔
ان پر الزامات تھے کہ لیبیا کے اس وقت کے صدر معمرالقذافی کی مدد سے ان لوگوں نے ضیاالحق حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی۔ طارق خورشید اور کامران رضوی اور خواتین فرخندہ بخاری، افضل توصیف و دیگران اور ان کے اہالیان خانہ پر کئی ماہ و سال تک بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا۔ کامران رضوی کہتے ہیں کہ وہ آٹھ برس قید میں کوٹ لکھپت اور پھر راولپنڈی میں زیادہ عرصہ بیڑیاں پہنائے رکھے گئے تھے۔ کامران رضوی و دیگران لیبیا سازش کیس کے اکثر اسیر بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں آزاد ہو گئے تھے۔ کامران رضوی کو بینظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں انسانی حقوق کا مشیر بھی بنایا تھا۔ کامران رضوی آج کل امریکہ میں آباد ہیں۔
آپریشن مڈنائٹ جیکال
1989 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے برگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کی سرکردگی میں حکمران پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں جن میں ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی بھی نمایاں تھے کی وفاداریاں توڑ کر حزب مخالف کے حق میں بدلوا کر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی وفاق میں حکومت گرانا مقصود تھا۔ اور اس مقصد کے لئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی ایما پر بہت رقوم بھی خرچ کی گئی تھیں۔ بینظیر بھٹو کی پارٹی یا وفاداریاں بدلنے والے ارکان قومی اسمبلی میں بھاری رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔ اس تمام ‘لین دین’ جس کی نگرانی ان دنوں انٹیلیجنس ایجنسی (غالباً آئی ایس آئی) کا میجر عامر کر رہا تھا، اس کی خفیہ آڈیو ریکارڈنگ ہوئی تھی جو پھر لیک ہوئی۔ یہ غالباً بینظیر بھٹو کے تحت کام کرنے والے انٹیلیجنس بیورو نے ریکارڈ کی تھی جس کے اس وقت سربراہ مسعود شریف تھے۔
نیز اس منصوبہ یا سازش کو ‘مڈنائٹ جیکال’ کا نام دیا گیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے اسے اپنی حکومت کے خلاف ‘پارلیمانی کو دیتا’ کا نام دیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے کو اس وقت افغانستان میں پناہ لیے اسامہ بن لادن نے اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف کو ایک ملین ڈالر کی رقم دی تھی کیونکہ اسے عورت کی حکومت منظور نہیں تھی۔ نواز شریف اور اس کی پارٹی آج تک اس کی تردید نہیں کر سکے۔
بینظیر بھٹو کے خلاف ناکام بنیاد پرست فوجی بغاوت
بینظیر بھٹو دوسری بار 1993 کے عام انتخابات میں وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ اکتوبر 1995 میں ان کے خلاف فوجی بغاوت کی سازش پکڑی گئی جس کے سرغنہ میجر جرنل ظہیر الاسلام عباسی تھے۔ اس منصوبے کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد میں اس وقت کی فوجی اور سیاسی قیادت کو منظر سے ہٹا کر ملک میں اسلامی خلافت مقرر کرنا تھی۔ اس سازش کے دیگر ملزمان برگیڈیئر مصتنصر باللہ ، چکوال کے مولانا اکرم اعوان اور قاری سیف اللہ تھے۔ قاری سیف اللہ بعد میں بینظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر کارساز کراچی حملے کے ماسٹر مائنڈ بھی بتایا گیا تھا۔
جنرل عباسی سمیت اس سازش کے گروہ کو ملٹری انٹیلیجنس نے گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر خفیہ طور مقدمہ چلایا گیا تھا۔
عبدالستار ایدھی پر عمران خان کے ذریعے دبائو اور دھمکیاں
اس سازش کے منصوبہ سازوں نے مبینہ طور پر عمران خان کو عبدالستار ایدھی کے پاس ان کے کراچی ایدھی سینٹر کے صدر دفتر میٹھا در ملاقات کو بھیجا تھا۔ اس ملاقات میں عمران خان نے عبدالستار ایدھی کو ملک میں ریٹائرڈ فوجی عملداروں جس کے سرغنہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل ہی بتائے گئے تھے کا ایک منصوبہ بتایا تھا جس کے مطابق ملک میں ایسی ‘تبدیلی’ لا کر ایدھی کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کا کہا گیا تھا اور عبدالستار ایدھی کے انکار کرنے پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ عبدالستار ایدھی نے اپنے ساتھ ہونے والی اس روداد کو اپنی آپ بیتی ‘اندھوں کے درمیان’ آئینہ میں بھی بیان کیا ہے جو ان کے لئے تہمینہ کھر نے لکھی ہے۔ نیز عبدالستار ایدھی مندرجہ بالا دھمکی کے بعد کچھ دنوں کے لئے برطانیہ چلے گئے تھے۔ لیکن ملک چھوڑنے سے قبل انہوں نے پریس کانفرنس بھی کی تھی اور مذکورہ بالا نام لیے تھے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا اندازہ ہے اصل میں ایدھی کو عمران خان کی طرف سے دھمکیاں دینے کا تعلق اسی سازش سے تھا جو جنرل ظہیر الاسلام گروپ نے کی تھی۔
میمو گیٹ اور کالا کوٹ
مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں دنیا میں دہشتگری میں سب سے مطلوب ترین شخص اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی میرینز 6 کی طرف سے آپریشن میں اس کے مارے جانے کے بعد واشنگٹن میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر حسین حقانی پر امریکہ میں مقیم ایک شخص منصور اعجاز کی طرف سے پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط بھیجا گیا جس میں حسین حقانی پر یہ الزامات لگائے گئے کہ انہوں نے امریکی جنرل مولن کو ایک میمو یا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن میں تعاون کے بعد پاکستان میں اس وقت کے صدر زرداری کی حکومت اور جمہوریت کو فوج سے خطرہ لاحق ہے لہٰذا امریکہ میں اوبامہ انتظامیہ صدر زرداری کی حکومت اور جمہوریت کو برقرار رکھنے میں مدد کرے۔ بہرحال ان الزامات کی سفیر حسین حقانی اور پاکستان میں زرداری حکومت نے سختی سے تردید کی۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس خط کا نوٹس لیا اور دوسری طرف پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے زرداری حکومت پر انتہائی دبائو بڑھ گیا کہ ہر صورت حسین حقانی کو پاکستان لایا جائے اور ان کو ان کے عہدے سے بھی سبکدوش کیا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا جس کے سامنے سفیر پاکستان حسین حقانی کو اسلام آباد بلایا گیا۔ لیکن اصل میں انہیں اسلام آباد بلا کر ایک تو فارغ کر دیا گیا اور دوسرا غیر اعلانیہ طور پر انہیں وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد کی انیکسی میں رکھا گیا اور نقل و حرکت محدود کر دی گئی۔ بلکہ اس وقت کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل پاشا نے حسین حقانی سے طویل پوچھ گچھ کی۔ حسین حقانی نے ان تفتیش کاروں سے کہا تھا کہ انہیں وہ جتنا چاہے روک کر رکھیں لیکن جس وقت امریکہ سے بلاوا آیا وہ انہیں ایک منٹ بھی زیادہ نہیں رکھ سکیں گے۔
سپریم کورٹ میں حسین حقانی کی صفائی کی وکیل عاصمہ جہانگیر تھیں۔ جب کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف بہ نفس نفیس کالا کوٹ پہن کر میموگیٹ کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے حسین حقانی اور زرداری حکومت کے خلاف ‘دلائل دینے’ پہنچ گئے تھے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ وزیر اعظم ہاؤس میں ایک طرح کی ‘غیر اعلانیہ نظربندی’ کے دوران حسین حقانی سے ایک دن ملک ریاض ملنے آیا اور ان سے کہا کہ اس کی (ملک ریاض کی) اطلاع کے مطابق وہ امریکہ جا رہے ہیں۔ انہوں نے ملک ریاض سے کہا کہ ابھی تو انہوں نے سپریم کورٹ میں نہ ایسی درخواست دی ہے اور ان کا پاسپورٹ بھی لے لیا گیا ہے۔ ملک ریاض نے کہا کہ "نہیں۔ آپ جا رہے ہیں”۔ ملک ریاض چلا گیا اور دوسرے روز صبح حسین حقانی کا پاسپورٹ انیکسی ڈائننگ ٹیبل پر پڑا تھا۔ حسین حقانی یہ جا وہ جا۔ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ اس کہانی کی طرح کہیں پتھر کے نہ بن جائیں۔ اسی طرح کل ہم نے دیکھا کہ زرداری اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر راضی پا جی دودھ شکر ہو گئی لیکن حسین حقانی زرداری سے دس برسوں سے نہیں ملے۔
ڈان لیکس: اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرو
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور سیاسی و میڈیائی بھونچال آیا جب نواز شریف کی حکومت کے دنوں میں انگریزی اخبار ڈان کے ایک مقبول کالم نگار و لکھاری سرل المائیڈا نے ان دنوں پاکستان کا دورہ کرنے والے اعلیٰ امریکی وفد اور نواز شریف ملاقات کے حوالے سے لکھا کہ امریکی وفد نے وزیر اعظم نواز شریف کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شدت پسند عسکری گروہوں یعنی طالبان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کھینچنے اور اپنا ہائوس آرڈر میں رکھنے یعنی ‘اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے’ کا کہا ہے۔ اور نواز شریف نے ایسا پیغام اسٹیبلشمنٹ کو پہنچا دیا ہے۔ بس اسی پر سرل المائڈا اور ڈان کے مدیر ظفر عباس اور چیف ایگزیکٹو حمید ہارون ایک زبردست عتاب تلے آئے۔ عتاب کی شدت سرل المائیڈا پر زیادہ تھی کہ اس کا تعلق اقلیتی برادری سے تھا۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ یہ رپورٹ سرل کو خود نواز شریف یا شریف خاندان سے آئی ہے۔ قربانی کے دو بکرے اس میں سابق وزیر اطلاعات نشریات پرویز رشید اور سینیئر سفارتکار طارق فاطمی بنائے گئے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کو تو نواز شریف کا سر چاہیے تھا۔ اخبار ڈان آور ٹی وی چینل ڈان نیوز کی ترسیل و نشریات زبردست رخنے کا شکار ہوئی۔ ملک کی اعلیٰ عدالت میں ‘ڈان لیکس’ کا کیس چلایا گیا۔ ڈان پر عتاب مزید آیا جب ملتان میں 2018 والے انتخابات کی اپنی مہم میں نواز شریف دورے پر تھے اور اچانک یا ایک پروگرام تحت سرل المائڈا نے ان کا انٹرویو لیا جس میں من و عن نواز شریف نے سرل المائیڈ کی پہلے والی رپورٹ کی تصدیق کر دی۔ پہلے یہ انٹرویو ملتان ایئر پورٹ کے وی آئی پی لائونج میں ہونا تھا لیکن سرل جیسے ‘غیر پسندیدہ شخص’ کو اب ‘سکیورٹی رسک’ سمجھتے ہوئے اس پر ایئرپورٹ کی حدود ‘علاقہ ممنوع’ بناتے ہوئے اسے ایئرپورٹ کی حدود میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا اور پھر نواز شریف نے سرل کو یہ انٹرویو کسی اپنے دوست کے گھر پر ملتان شہر میں دیا۔
لیٹر گیٹ: وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
اور اب لیٹر گیٹ۔ وہ تو سب آپ کے سامنے ہے۔ جس کا نفس مضمون کہیں ترجمے میں کھو گیا ہوا لگتا ہے۔ یا ڈوبتے کو ایسے ‘خط’ کا سہارا۔
تو عزیزو، ثابت یہ ہوا کہ یہ سازشیں نازشیں بھی نظریۂ ضرورت کے تحت ہوتی ہیں۔ ضیاالحق کے دور میں جب سازشوں اور سروں کے کاٹنے کا موسم آیا ہوا تھا تو ان دنوں جام صادق علی اور غلام مصطفیٰ کھر کو بھی را ایجنٹ قرار دے دیا گیا تھا۔ پھر ایک دور میں کھر واپس آئے۔ اور پھر جب بینظیر کے مقابل لانا تھا تو کھر کو لندن سے بلا کر معافی، اور پھر وفاقی وزیر بھی بنا دیا گیا۔ جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلیٰ اور غلام مصطفیٰ جتوئی نگران وزیر اعظم۔
لیٹر گیٹ ملک کی قسمت، اور بدقسمت تاریخ کا سازشی تھیوریوں کے ان مقدمات سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا ۔۔۔۔۔ جمعہ خان، مارک ٹلی اور ٹکا خان ۔۔۔حسن مجتبیٰ
سان فرانسسکو کی ایک رات، سان فرانسسکو کا ایک دن ۔۔۔ حسن مجتبیٰ
لیاری کے ڈانز کی کہانی، دادل شیرل سے لیکر عزیر بلوچ تک (3) ۔۔۔ حسن مجتبیٰ
لیاری کے ڈانز کی کہانی: شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک (1) ۔۔۔ حسن مجتبیٰ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر