شکیل نتکانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن لیگ چاہتی ہے تو شوق سے حکومت سے باہر ہو جائے اس کے ایسا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا الٹا اس کا اپنا نقصان ہو گا کیونکہ عمران خان ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بن جائے گا لیکن انتخابی اصلاحات کے بغیر نیا الیکشن کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اصلاحات کے بغیر والا الیکشن کسی صورت بھی ملکی و قومی مفاد میں نہیں، انتخابات میں دھاندلی ہمیشہ سے ن لیگ کے حق میں ہوتی آئی ہے لیکن پچھلی دفعہ پہلی بار ن لیگ کے علاؤہ کسی اور جماعت یعنی پی ٹی آئی کے حق میں ہوئی۔ اب پی ٹی آئی اس خوف کا شکار ہے کہ اس بار اس کے خلاف دھاندلی ہو گی سیاسی عمل کی خوبصورتی یہی ہے کہ جس قدر سیاسی عمل بڑھے گا نئے راستے کھلتے جائیں گے۔ وہ پی ٹی آئی جو فیض اور باجوہ کی گود سے اترنے کو تیار ہی نہیں تھی اپنے گاڈ فادرز کو برا بھلا کہ رہی ہے۔ ن لیگ اقتدار لے کر بھی خوف کا شکار ہے اگر کوئی جماعت بے خطر اور بے خوف ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے جسے دوسری دو بڑی جماعتوں کے مقابلے میں اقتدار سے زیادہ اس ملک اور قوم کی فکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ مشکلات دیکھ کر گھبرا گئی ہے اور بھاگنے کے چکر میں ہے اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ اس کے بھاگ جانے سے ملک و قوم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جسے ناصرف ملک کو درپیش مشکلات کا ادراک ہے بلکہ وہ بے لوث ہو کر پوری ایمانداری سے ان مسائل حل کا سوچ رہی ہے۔ ن لیگ بھلے بھاگ جائے اس سے فرق نہیں پڑنے والا کہ ن لیگ کی یہی سرشت ہے مشکل میں ان کے پسینے نہیں رکتے بھلے یہ اقتدار میں ہوں یا کہ اقتدار سے باہر۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری ان کی بے حوصلگی اور بزدلی ہے یہی وجہ ہے کہ سو پیاز بھی کھاتے ہیں اور سو جوتے بھی۔ ن لیگ یاد رکھے کہ جیسے پی ٹی آئی حکومت اسمبلیاں نہیں توڑ سکی ن لیگ الٹی بھی ہو جائے اسمبلیاں نہیں توڑ سکے گی بھلے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ان کا کیوں نہیں ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت ہمیشہ کی طرح پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں سوچ رہی ہے ن لیگ کو بھی یہی سوچنے کی ضرورت ہے لیکن لگ یہی رہا ہے کہ ن لیگ میں ایک مخصوص لابی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ن لیگ کو تباہی کے گڑھے کی طرف ہانک کر لے جائے گی اور یہ ایک بند گلی میں پہنچ جائیں گے جہاں نہ تو یہ اسمبلیاں توڑ سکیں گے اور نہ ہی استعے دے سکیں گے جس کا اعلان اس اسمبلی کے قیام کے ساتھ ہی یہ کرتے چلے آ رہے ہیں اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ دونوں نئے الیکشن کرا کر مطلق العنانیت کا سوچ رہے ہیں ن لیگ کی جلد بازی اور اکیلے اقتدار حاصل کرنے کی حرص پی ٹی آئی کو ایک بار پھر ان کے سینے پر مونگ دلنے کا موقع فراہم کرتی دکھائی دے رہی ہے دوسری جانب عمران خان بھی مطلق العنانیت کے چکر میں ہے اب تک کی صورتحال سے لگ یہی رہا ہے کہ شاید پی ٹی آئی بند گلی سے باہر نکلتی آ رہی ہے اور ن لیگ ایک بار پھر بند گلی میں گھسنے کو تیار ہے۔ زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی بہرحال اس پارٹی کے ساتھ ہوں گے جو بھلے مجبوراً بند گلی سے باہر نکل آئے گی اور ملک و قوم کی بہتری کے بارے سوچے گی کیونکہ اس وقت ملک کو اقتدار کی حریص سیاسی قیادت کی نہیں بلکہ دور اندیش قیادت کی ضرورت ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بھلے مجبوراً ان دو جماعتوں میں سے کونسی سیاسی جماعت ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ویژن کو آگے لیکر چلنے کو تیار ہوتی ہے اور خود کو بند گلی سے باہر نکال لاتی ہے امید تو یہی رکھنی چاہیے کہ ن لیگ خود کو بند گلی میں نہ لے جائے کیونکہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت بہرکیف دل سے یہی چاہتی ہے کہ پہلا موقع ن لیگ کو ملنا چاہیے فرض کرتے ہیں کہ اگر دونوں جماعتوں میں سے کسی کو بھی زرداری صاحب کی بات سمجھ نہیں آتی تو لکھ رکھیں دونوں جماعتیں دو دو حصوں دھڑوں میں تقسیم ہو جائیں گی
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور