ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڈے لائن لگنا اچھی بات ہے یا بری بات ہے ؟ میرا خیال ہے کہ یہ نا تو اچھی بات ہے نا ہی بری بات ہے یہ طاقت واختیار ملنے پر پسند یا نا پسند کی بات ہے ۔عجیب طرز حکمرانی رہا ہے ہمارا جو بھی اقتدار میں آیا اس نے سب سے پہلے سابق حکمرانوں کے وفاداروں کی فہرستیں طلب کیں اور فہرست میں موجود ہر نام کو کھڈے لائن لگانے کے شاہی احکامات جاری کردئیے ۔ایک مدت سے یہی ریت چلی آرہی ہے اقتدار کی بستی کا یہی رسم ورواج رہا ہے ۔ہر نا پسندیدہ کھڈے لائن اور ہر من پسند کو پٹڑی پر چلا دیا جاتا ہے ۔کھڈے لائن لگنے والے افسر یا سرکاری ملازم کی حالت کسی ریلوئے اسٹٰیشن کے ایک کونے میں کھڑی اس اکیلی بوگی جیسی ہوتی ہے جس کو کہیں جانا نہیں ہوتا ۔وہ ہوتی تو بوگی ہی ہے مگر چونکہ کھڈے لائن لگی ہوتی ہے لہذا اس کا مصرف بھی کوئی نہیں ہوتا۔
زرداری نے اپنی پریس کانفرنس کے آخر میں سوال جواب کے سیشن کے دوران ایک سوال کے جواب میں کھڈے لائن کیا کہا کہ کپتان کے کھلاڑیوں نے سوشل میڈٰیا پر غم و غصے میں چوڑیاں توڑ ڈالیں ۔روندی پھرے یاراں نوں لے لے کے ناں بھراواں دا جیسے منافقت بھرے رویے کے ساتھ وہ آہ وبکا کی الامان الحفیظ ۔ہوسکتا ہے کہ ہمدردی حاصل کرنے کا طریقہ ہویا پھر یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ ہم تو نہر والی پل پر ہی کھڑے ہیں پتہ نہیں خورے ماہی کتھے رہ گیا ۔کوئی ان کو سمجھائے کہ بھولے بادشاہو ایک بات پر اتنا کیوں شور مچا رہے ہیں یہ ملک تو وہ جادوئی ملک ہے جہاں وقت کے وزیراعظم کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے اگر یقین نہیں ہے میری بات کا تو اپنے کپتان کا حال ہی دیکھ لوکہ کس طرح کھڈے لائن لگایا گیا ہے
اگر یہ مثال بری لگی ہے تو کوئی بات نہیں مثال وہی رکھتے ہیں مگر بندہ بدل دیتے ہیں چلیں سابق وزیراعظم نواز شریف کو دیکھ لیں کہ کس طرح کھڈے لائن لگایا گیا کہ ابھی تک پٹڑی پر چڑھنے کا سلسلہ نہیں بن پارہا۔کیوں سمجھ نہیں آ رہی کسی کو کہ جس کے پاس طاقت واختیار ہوتا ہے اس کی پسند ناپسند کو اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔جو مودب اور فرماں بردار نہیں ہے اور احکامات پر عمل درامد نہیں کرتا اس کو کھڈے لائن لگا کر اس کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جاتا ہے جو فرماں بردار بھی ہوتا ہے اور احکامات پر بلا چوں چراں سرجھکائے خدمات بھی سرانجام دیتا ہے ۔توپھر طے ہوگیا کہ کھڈے لائن لگنا اچھی یا بری بات نہیں پسند یا ناپسند کا معاملہ ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ اٹھا کردیکھ لیں اور وزرائے اعظم کی رخصتی کے طریقہ کار کو دیکھ لیں سب سمجھ میں آجائے گا۔کیونکہ دلہن وہ جو پیا من بھائے ۔
بات صرف سیاسی اشرافیہ یا طاقتور حلقوں کی نہیں ہے بحثیت قوم ہمارا عمومی مزاج ہی ایسا ہے کہ جب دل کرتا ہے کسی کو سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں جب دل کرتا ہے تمام تر تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھڈے لائن لگا دیتے ہیں ۔اعتدال ہم کو چھو کے نہیں گذرا۔جن کی خاطر دنیا بھر سے دشمنی مول لینے کوتیار ہوتے ہیں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہی کو مرتے دم تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے ۔میاں کیا پوچھتے ہو ہماری دریا دلی اور کٹھورپن کا کہ اگر کشمیر میں زلزلہ آجائے تو ہم ایثاروقربانی کی نئی مثالیں قائم کردیں اور اگر کٹھورپن پر آئیں تو میرج ہال کے ایک کونے میں پڑٰی ہوئی کسی غریب کی لاش سے بے خبر ہوکر خوب سیر ہوکر کھانا کھانے میں مصروف رہیں ۔
دریا بھپر کر کناروں سے ابل پڑیں تو کشتیوں میں سوار ہو کر دن رات کام کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ سیلاب میں گھرے افراد کو کھانا فراہم کرسکیں ان کو زندگیوں کو بچا سکیں اس سلسلے میں چاہے ہماری جان ہی کیوں نا چلی جائے اور من مائل نا ہو تو چولستان کے بھوکے پیاسے افراد کے پاس چل کر جانے کو تیار نہیں ہوتے ۔اگر غور کیا جائے تو بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ کھڈےلائن لگانا ہمارا قومی مشغلہ اور فریضہ ہے ۔جیسے ہی ہمارے پاس طاقت آتی ہے ہم اس قومی فریضے پر دل وجان سے عمل کرتے ہیں ۔اور احساس دلاتے ہیں کہ ہم ہیں زمین پر وہ نائب جو کسی کو بھی موقع ملنے پر کھڈے لائن لگا سکتے ہیں ۔
افراد کو چھوڑیں ہم نے وقت آنے پر ملک کے ایک حصے کو یہ کہتے ہوئے کھڈے لائن لگا دیا کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے اس لیئے ان کو الگ کردو اور بالآخر مشرقی حصے کو کھڈے لائن لگا کرہی سکھ کا سانس لیا۔ جب جب تماشے کی خواہش دل میں جاگی تو آئین کو ہی کھڈے لائن لگا دیا۔۔جب جب سر میں حکمرانی کا سودا سمایا تب تب جمہوریت کو کھڈے لائن لگا دیا۔جب کسی لاڈلے کو تخت نشین کرنا تھا تو عوامی مینڈیٹ کو ہی کھڈے لائن لگا دیا۔اس قدر بے راہ روی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لاڈلا مسند نشین ہوا اس نے وقت آنے پر سیاسی روایات کو کھڈے لائن لگا دیا۔جمہوری کلچر کو کھڈے لائن لگا دیا۔کس کس بات کا رونا رویا جائے کس کس تکلیف کا اظہار کیا جائے ۔ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور ماضی کے تلخ تجربات کو نظر انداز کرتے ہوئے نت نئے سیاسی تجربات کرکے اپنے مستقبل کو بھی کھڈے لائن لگا دیا ہے ۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ