محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب نے اپنے سیاسی کرئیر کے عروج سے ہی سوشل میڈیا کا پوٹینشل بھانپ لیا تھا اور سازش یا مداخلت یا اپنے پیاروں سے ناراضگی کے بعد وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد انھوں نے سوشل میڈیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔
وہ لوگوں کے دلوں میں تو رہتے ہی ہیں اس کے علاوہ وہ ٹوئٹر سپیس اور پوڈ کاسٹ میں بھی پائے جاتے ہیں، سارے ٹی وی چینلز ان کے خطاب کو لائیو دکھاتے ہیں لیکن وہ سوشل میڈیا پر جا کر کہتے ہیں کہ مجھ پر پابندیاں ہیں اور سوشل میڈیا کا جادو یہ ہے کہ ان کے دیوانے ٹی وی پر دیکھتے ہوئے بھی کہے جاتے ہیں کہ دیکھو سارا میڈیا سازش کا حصہ ہے۔
عمران خان نے کم از کم تین نسلوں کو سیاست کا چسکا لگایا ہے۔ ان کے ناقدین کہیں گے کہ سیاست کم سکھائی ہے اور چسکا لینا زیادہ زیادہ سکھایا ہے لیکن خان صاحب نے یہ بات دریافت کر لی ہے کہ سوشل میڈیا پر آدھا جہاد ہوتا ہے اور آدھی تماش بینی۔ خان صاحب کا پیغام ایک ٹویٹ میں آسانی سے فٹ آ جاتا ہے۔
ہم مسلمان غیرت مند لوگ ہیں اور اللہ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھکتے، امریکہ سے آزدای لے کر رہیں گے اور اگر میرے بارے میں کوئی گندی ویڈیو آ جائے تو وہ جعلی ہے۔ کوئی ہے مائی کا لال جو مذہب، عالمی سیاست اور ہماری جبلتی چسکے کی تلاش کو ایک پیغام میں اتنی مہارت سے سمو سکے۔
خان صاحب نے معزولی سے پہلے ہی کہا تھا کہ ان کی بیگم کی ایک دوست کے بارے میں سکینڈل بنائے جائیں گے۔ اس وقت تک فرح گوگی صاحبہ کا کسی نے نام تک نہیں سنا تھا۔
جب سے وہ گئے ہیں ہمارے چہیتے صحافیوں نے ان کی کسی پرائیویٹ جہاز میں بیٹھے دو تصویریں پکڑ لی ہیں، کچھ جائیدادوں کے کاغذ ہاتھ آئیں ہیں، ان کے پرس اور جوتوں کی قیمت کا بل پتا لگا لیا گیا ہے۔
ماہر معاشیات کہہ رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے، تاریخ پر نظر رکھنے والے بزرگ فرماتے ہیں کہ ملک سول وار کے دھانے پر ہے، تازہ تازہ فارغ ہوئے دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سنو انڈیا کا آرمی چیف کیا کہہ رہا ہے (یہ بھی اچھا ہے کہ اس کو گالی دینے سے پہلے سوشل میڈیا والوں کو گوگل کر کے نام ڈھونڈنا پڑتا ہے، پاکستان میں آپ کوئی مسئلہ نہیں بنے۔ مارخور کی ڈی پی لگانے والے بھی باجوہ صاحب کے خلاف ٹرینڈ کا حصہ بن سکتے ہیں) لیکن ہمارے صحافی بھائی قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے یہی پوچھتے ہیں کہ گوگی صاحبہ کو دبئی سے کب واپس لایا جائے گا اور یہ لیں ان کی جہاز میں بیٹھی تصویر ایک بار پھر دیکھ لیں۔
فرح گوگی کو ہمارے سیاسی بحران کا آئٹم نمبر بنا دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مریم نواز شریف صاحبہ کے ساتھ بھی یہ ہی کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
یوں لگتا ہے کہ اس علیم خانوں، ملک ریاضوں،ترینوں کے ملک میں اگر کسی نے لوٹا ہے تو وہ فرح گوگی ہیں۔ باقی سب تو غریبوں کے لیے گھر بناتے ہیں، اپنی جیب کاٹ کر سستی چینی پہنچاتے ہیں اور اگر ان کے پاس اپنے پرائیویٹ جہاز ہیں تو وہ سب حلال کی کمائی سے بنائے گئے ہیں۔
باقی رہ گئی پاکستان کی ویڈیو گیم تو اس میں بھی خان صاحب نے پہلا اور کاری وار کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ آج تک کس ویڈیو کی وجہ سے پاکستان میں کسی مرد سیاستدان، جج یا بیوروکریٹ کو نقصان پہنچا؟ نیب کے سربراہ، مسنگ پرسنز کمیشن کے سربراہ، اسامہ بن لادن کمیشن کے سربراہ (جی ہاں یہ ایک ہی شخص ہیں) ان کی ویڈیو ٹی وی پر بھی چل گئی اور اب وہ فرح گوگی صاحبہ کی تفتیش بھی کریں گے۔
تو عمران خان صاحب نے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف ایک نئی سیاست سکھائی ہے بلکہ قوم کے مرجھائے ہوئے دلوں کے تار بھی چھیڑے ہیں۔
اب ان کے مخالف بھی، چاہنے والے بھی، قوم کا دیوالیہ ہونے کے خبر دینے والے، خانہ جنگی سے خبردار کرنے والے، نمازی پرہیزگار صحافی جنھوں نے زندگی میں کبھی گندی ویڈیو نہیں دیکھی، وہ بھی جنھوں نے کبھی غلطی سے دیکھ لی تو اولاد کو منع کیا کہ یہ کام کبھی نہیں کرنا، وہ بھی جو کہتے ہیں کہ لوگوں کی ذاتی زندگی کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور یقیناً کئی پردہ دار عورتیں بھی، چھپ چھپ کر سوشل میڈیا کو چیک کرتے ہیں کہ وہ ایک بدبخت جعلی ویڈیو آنی تھی، اس کا کیا ہوا۔
یہ ہوتا ہے لیڈر، یہ ہوتا ہے لیڈر کا حسن اور یہ ہوتا ہے اس کا ویژن۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر