جون 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎جج ہی نہیں، ڈاکٹر بھی صاحب دل ہوتے ہیں||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

کسی کانفرنس میں گروپ کی صورت جانا ہوتا تو پروفیسر صاحب اپنی کار کی فرنٹ سیٹ سب سے خوبصورت لڑکی کو عطا کرتے ! ہم اور ہم جیسے کئی اور ویگن پہ جھولتے منزل پہ پہنچتے !

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رہ رہ کے تاؤ آ رہا ہے اپنے آپ پہ، بھلا اتنی جلد دنیا میں نازل ہونے کی ضرورت کیا تھی ؟

چالیس سال پہلے کی ہمارے بچپن کی دنیا!

اتنی بور کہ آج کے بچوں کا سانس بند ہو جائے! نہ انٹر نیٹ، نہ سوشل میڈیا، نہ سو پچاس چینل، نہ سمارٹ فون، نہ لیپ ٹاپ، نہ ٹویٹر، نہ واٹس ایپ، نہ فیس بک، نہ انسٹاگرام، نہ کچھ اور۔ ہمیں تو کمبختوں کے پوری طرح نام بھی نہیں آتے!

اب حیرت ہے کہ ہم آخر کرتے کیا تھے ؟ شاید کچھ بھی نہیں کرتے تھے تو پھر زندہ کیسے تھے؟ شاید ” بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے” والا معاملہ تھا .

سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اتنا تاؤ کیوں؟ اتنا محرومی زدہ غصہ کیوں؟

جب سے نیب کے چیئرمین صاحب کے نازبرداری والے آڈیو اور وڈیوز کا جلوہ ہوا ہے، دل بے طرح کچوکے لگا رہا ہے، مان کے ہی نہیں دے رہا کہ ہم سے کتنی بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں !

قصہ کچھ یوں ہے کہ راہ حیات میں بے شمار مقام آہ و فغاں ایسے آئے جہاں آج کی دنیا کے یہ سب آلات استعمال کیے جا سکتے تھے اور کافی رنگین داستانیں دنیا کو سنائی بھی جا سکتی تھیں اور دکھائی بھی، اور ہم نے یہ ہمت ہی نہ دکھائی۔

 پر ہمارے پھسڈی پن میں سارا قصور ہمارا نہ تھا بس زمانہ دغا دے گیا کہ سٹیو جابز اور بل گیٹس نے ابھی ایقان کی منزلیں نہ طے کی تھیں اور جہان ہفت ابھی روپوشی میں تھا!

ان سب داستانوں میں ہمارا رول ایک تماشائی کا سا رہا۔ اس کی وجہ قطعی یہ نہ تھی کہ ایک دفعہ آئینہ دیکھ کے دوسری دفعہ کی تمنا نہ ہوتی تھی۔

تماشائی رہنے اور بننے کی تین وجوہات تھیں۔ ایک تو ہماری زبان جو موقع دیکھتی تھی نہ محل، بس مشین گن کی طرح فائر کیے جاتی تھی سو لوگ پہلی ملاقات میں ہی خوفزدہ ہو جاتے اور شفقت نہیں فرماتے تھے۔ ( زبان کا اندازہ ہمارے قاری اب تک لگا ہی چکے ہوں گے)

دوسری وجہ ہماری غصہ آور گھوری والی شکل جسے پہلی دفعہ میں لوگ دیکھ کے ڈرتے، دوسری دفعہ میں مغرور سمجھتے، اور تیسری دفعہ دیکھنے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔ ( اب پتہ چلا آپ کو، ہم سب پہ ہماری پہلی تصویر کیوں بدلی گئی)

تیسری اور سب سے اہم وجہ تھی ہمارے میاں اور وہ بھی فوجی !

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

چلیے آپ کو کچھ قصے سناتے ہیں

ہم ایک بہت بڑے ہسپتال میں کام کر رہے تھے. ہمارے سینیر ڈاکٹرز میں بہت مرد شامل تھے۔ ان میں سے ایک، پچاس سے اوپر کا سن، خوب گھاگ، اور گھیرنے کا اپنا انداز!

ہر نئی آنے والی کو میرا بچہ کہہ کے مخاطب کرتے۔ اب اکثر لڑکیاں اتنے پروٹیکیٹڈ ماحول سے ہوتیں کہ انہیں اس شفیق انداز میں باپ کی شفقت نظر آنا شروع ہو جاتی اس سے آگے نظر ہی نہ جاتی۔

اب وہ ڈاکٹر صاحب پہلے کندھے پہ ہاتھ رکھتے، نا محسوس طریقے سے قریب کرتے اور پھر میرا بچہ میرا بچہ کہتے کہتے کمر پہ ہاتھ چلتا رہتا۔ نئى آنے والی کو قطعی سمجھ نہ آتا کہ کیا کرے ؟

ہاتھ جھٹکے تو شاید وہ برا مان کے کہیں کہ تمہارے دماغ کا فتور ہے میں تو شفیق سینیر کا رول ادا کر رہا ہوں اور اگر کچھ نہ کہیں تو کیا اپنے عورت ہونے کا تاوان دیں!

کاش نہ ہوا کیمرے والا فون اپنے ہاتھ میں!

انہیں آئس کریم کھانے کا بھی بہت شوق تھا اور وہ بھی کسی” میرا بچہ” کے ساتھ ایک کپ میں۔ ان کی بدقسمتی کہ کسی وارڈ میں آنے والے شرارتی صحافی نے سب دیکھا، ریکارڈنگ کی سہولت تو نہ تھی پر رپورٹ تو کیا جا سکتا تھا۔ اگلے دن چشم فلک نے اخبار میں ان کی حرکتوں کی تفصیل دیکھی، ویسے ہی جیسے نیب کے چیرمین کی دیکھی گئیں۔

اب چئرمین صاحب کا رد عمل تو ہمیں معلوم نہیں مگر ہمارے وارڈ میں قیامت آ چکی تھی۔ زخمی شیر چنگھاڑتا پھر رہا تھا، ان کا شک ان سب لوگوں پہ تھا جو ان کی مہربانیوں کے حلقے سے باہر تھے کہ ان میں سے کس موذی نے یہ خبر لیک کی ہے۔ خیر چور کو پکڑنے کے لئے قران پہ ہاتھ رکھوا کے سب سے پوچھا گیا۔ ہم اس وقت بہت نا سمجھ تھے، وارڈ کے گھاگ مردوں کے گروہ جو زندگی کی پچپن سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے تھے، سے کچھ نہ کہہ سکے۔

آج سوچتی ہوں کہ منہ کیوں نہ نوچ لیا جب قران پہ ہاتھ رکھوا کے پوچھا گیا !

ایک اور پروفیسر صاحب تھے جو ہر نئی آنے والی ڈاکٹر کو کمرہ بند کر کے پڑھانے کے بہت شوقین تھے، اب خدا جانے علم کی منزلیں طے ہوتی تھیں یا ٹھرک کے زینے!

کسی کانفرنس میں گروپ کی صورت جانا ہوتا تو پروفیسر صاحب اپنی کار کی فرنٹ سیٹ سب سے خوبصورت لڑکی کو عطا کرتے ! ہم اور ہم جیسے کئی اور ویگن پہ جھولتے منزل پہ پہنچتے !

جب ہم ذرا بڑے ہوئے، یعنی تھوڑے سے سینیر، تو کئی جگہ زیر عتاب آ جاتے کہ پروفیسر اور منظور نظر کے درمیان آنے کی غلطی کر بیٹھتے۔ کبھی کبھی کسی معمولی بات پہ تحریری جواب دہی طلب کر لی جاتی، زخم کھایا ہوا ہوس زدہ کچھ تو کرے گا نا!

کسی کسی جگہ تو باقاعدہ سزا کا سسٹم نافذ تھا. آپ پیش قدمی کا خیر مقدم کریں تو آپ کا سر گھی میں اور انگلیاں کڑاہی میں کہ سرجری بھی سکھائی جائے گی، مقام اعلی بھی مل جائے گا اور غلطیوں سے بھی چشم پوشی ہو گی۔

لیکن اگر لڑکی نے سوچ لیا کہ وہ اس کام میں حصہ دار نہیں بننا چاہتی تو پھر اس کی جگہ وہی جو ہسپتال کے خاکروب کی۔ آئیں، نچلے درجے کا کام کریں، کچھ بھی نہ سکھایا جائے اور وقت پورا ہونے پہ روانہ ہو جائیں۔

ڈاکٹر لڑکیوں کے مسائل اپنی جگہ، مریض لڑکیوں پہ بھی بدرجہ اتم شفقت برتی جاتی تھی۔ ہم ایک چھوٹی جگہ کے چھوٹے ہسپتال میں کام کر رہے تھے ہم نے راؤنڈ کے دوران ایک ڈاکٹر کو ایک لڑکی کا معائنہ کرتے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب بہت دیدہ دلیری سے نو گو ایریاز میں اپنے ہاتھ لے جا رہے تھے جہاں معائنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور کم سن مریضہ اس کو بھی معائنے کا حصہ سمجھ رہی تھی۔

اپنے مقام اور حثیت سے عورت کا فائدہ اٹھانا، دوسرے لفظوں میں گدھ کا روپ دھارنا، یہ وہ ناسور ہے جو صرف ہمارے معاشرے میں نہیں، دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ جو بات پہلے عورت کے لئے باعث شرم سمجھی جاتی تھی اور معاملہ رفع دفع کرنے کو ہی اچھا جانا جاتا تھا اب عورت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شرم حملہ آور کے نصیب میں آنی چاہیے، معاشرے میں تھو تھو اس کا حق ہے جو دست دراز ہے، اس کا نہیں جس کو مجبور جان کے کھلواڑ کیا گیا ہے۔

ہم بہت خوش ہیں اس انقلاب سے جو الیکٹرونک کی دنیا میں آیا اور جو عورت کے من میں آیا۔ اب عورت وہ کچھ دنیا کو دکھا سکتی ہے جو پہلے بند کمروں کے اندر تو تھا، باہر نہیں۔ اگر کوئی جیالی ہمت بھی کرتی تھی تو بری طرح جھٹلا دی جاتی تھی۔

اب سب دکھتا ہے اور سب بکتا بھی ہے !

کیا ہوا جو معاشرہ سنگ لے کے کھڑا ہے، جسم کے زخم ہیں بھر جائیں گے۔

روح کا کیا کریں گے جناب جسے معاشرے کے گدھ عرصے سے نوچ نوچ کے کھا رہے ہیں اور عورت ان دیکھے بوجھ تلے صدیوں سے سسک رہی ہے !

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: