ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے دیکھا ہے بہت بار دیکھا ہے ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا ہے ان کوجو صبح کو تخت نشین تھے شام کو مجرم ٹھہرے زیر عتاب ہوئے پابند سلاسل ہوئے۔ یہ بھی تو المیہ ہے ہم جیسے ملکوں کا کہ جو جیسے اقتدار میں آتا ہے ویسے ہی نکالا جاتا ہے ۔جس شان سے تخت نشین ہوتا ہے اتنی ہی رسوائ اور زلت آمیز رویے کے ساتھ تخت شاہی سے اتارا جاتا ہے۔یہ سلسلہ اگر روکنا ہے اوراگر تخت نشین کو باعزت واپسی کا راستہ دینا ہے تو پھر مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے طریقہ کو تبدیل کرنا پڑے گا ۔وگرنہ میر ظفر اللہ جمالی نے کہا تھا کہ جو لاتے ہیں وہ گھر بھی بھیج دیتے ہیں۔واپسی کی زلت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کے کندھے پر سوار ہوکر اقتدار کے حصول سے انکار کرنا ہوگا۔
سیاست کی طاقت پر یقین رکھنے والے جمہوریت پسندوں کو جب سیاست کے نتیجے میں طاقت مل جاتی ہے تو پھر ان کو طاقت کی سیاست سے گریز کرنا ہوگا۔کیونکہ طاقت تو جادوئی چراغ کا وہ جن ہے جب آپ کے ہاتھ لگ گیا تو ہر چیز آپ کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہے مگر سوچنا ہوگا کہ اگر یہ جن کسی اور قابو میں آگیا تو پھر کیا ہوگا۔ اور یہی کچھ ہورہا ہے فی الوقت طاقت کا جن کل کی اپوزیشن جو آج کے حکمران ہیں کے ہاتھوں میں آ گیا ہے ۔نتیجہ یہ کہ آج کی اپوزیشن جو کل تک اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی سراپا احتجاج ہے ۔مگر اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہے بہت دیر ہوچکی ہے ۔یہ تو اس وقت سوچنا چاہیے تھا جب جنبش ابرو پر سزا و جزا کے فیصلے ہوتے تھے ۔
وطن عزیز کی سیاست میں جس قدر تیزی آگئی ہے اس کو بیان کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔پے درپے تبدیل ہونے والی سیاسی صورتحال نے گویا بھونچال پیدا کردیا ہے ۔وفاق کے بعد پنجاب بھی ہاتھ سے نکل گیا اور باپ کے بعد بیٹے نے حلف اٹھا کر گویا ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔طاقت اپنا کام کررہی ہے اپنے وجود کو منوا رہی ہے اپنی مرضی اور منشا سے سیاسی منظر نامے کے کینوس پر رنگ بھررہی ہے ۔احساس دلا رہی ہے کہ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے وہی وقت کا سکندر ہے ۔سمجھا رہی ہے کہ باادب بامراد اور بے ادب بے مراد۔اس آفاقی قانون سے کون واقف نہیں کہ طاقت کے ساتھ چلا جاتا ہے نا کہ طاقت کے مدمقابل رہ کر اپنی توانائیاں ضائع کی جاتی ہیں ۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا بلکہ ہم ہر تجربہ خود کرکے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ایک بار پھر طاقت کی مخالفت کا تجربہ کیا گیا اور حسب توقع یہ تجربہ بھی ماضی کے تجربات کی طرح ناکام ہوگیا۔تجربہ کرنے سے قبل ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری سیاسی قدوقامت کسی کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔اور اگر بالفرض نا بھی ہوتو بھی ہمارا قد کاٹھ اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ ہم کسی نظام کے سامنے کھڑے ہوجائیں اور آخری بازی ہمارے ہاتھ میں رہے ۔یہ کوئی ماضی کا میدان جنگ نہیں کہ جہاں لشکر مدمقابل ہوں اور شام تک ہارجیت کا فیصلہ ہوجائے ۔یہ تو عہد جدید کی مروجہ سیاست کا میدان جنگ ہے جہاں آہستہ آہستہ معاملات کو بہتر کیا جاتا ہے حالات کو اپنے حق میں کیا جاتا ہے مسائل پر قابوپایا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا مسلسل ارتقائی عمل ہے جہاں شام تک ہارجیت کا فیصلہ نہیں ہونا بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آہستہ آہستہ منزل کی جانب سفر جاری رکھنا ہوتا ہے
سیاسی سفر میں کھلے دل دماغ کے ساتھ منزل کی جانب بڑھنے والے کامیاب رہتے ہیں ۔غیر لچکدار رویے سیاسی تنہائی کا شکار بنا دیتے ہیں ناقابل قبول بنا دیتے ہیں سفر مشکل ہوجاتا ہے ۔عمران خان بھی اسی غیر لچکدار رویے کا شکار ہے جس چیز کو کپتان اپنی کامیابی سمجھ رہا ہے اصل میں یہ وہ بنیادی غلطی ہے جس اس سے قبل بہت سے سیاسی رہنما کرچکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں سیاسی منظر نامے سے ہٹ چکے ہیں۔ مقبول سیاسی نعروں سے وقتی طورپر مجمع کی ہمدردیاں اور حمایت تو حاصل کی جاسکتی ہے مگر اس سے امور مملکت نہیں چلائے جاسکتے ، مسائل حل نہیں کیئے جاسکتے ۔
مسائل کے حل کے لیے اور ملک وقوم کی بہتری کے لیے نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے اور نظام کے اندر رہ کر اس کی خامیوں کو دور کرکے بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ترقی کے عمل میں اپنا حصہ ڈالا جاتا ہے ۔اگر یہ طریقہ کار قبول نہیں تو کوئی بات نہیں دوسرا طریقہ انقلاب کا ہے جہاں سب کچھ ختم کرکے اپنی سوچ کے مطابق نئے نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔تو کیا اتنی سکت ہے کہ انقلاب لایا جاسکے ۔اور کیا اتنی قابلیت بھی ہے کہ ایک مکمل نیا نظام دیا جاسکے۔اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بعد از انقلاب جو نیانظام دیا جائے گا وہ کامیاب بھی ہوپائے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ کپتان مروجہ سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرئے ۔طویل اپوزیشن کے بعد مختصر اقتدار کے بعد ایک بار پھر لمبی اپوزیشن کا سامنا ہے کپتان کو۔تو کیا وہ وقت نہیں آیا کہ کپتان ایک بار رک کر اپنے سیاسی فلسفے پر پھر سے غور کرئے اپنے سیاسی طرز عمل کا جائزہ لے ۔جہاں جہاں کوئی غلطی ہوئی ہے اس کی نشاندہی کرکے اصلاح کی کوشش کرے ۔ ٹکراو کی سیاست کی بجائے مفاہمت کی سیاست کا آغاز کرئے ۔نظام کو چلنے دیا جائے اور نظام میں موجود خامیوں کو آہستہ آہستہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے ۔کپتان اور اس کے سپورٹرز کو سوچنا ہوگا۔آج نہیں تو کل لازمی سوچنا پڑے گا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔رہی بات موجودہ صورتحال کی تو عمران خان کے لیئے پہلی بار ایک مشکل اور طویل اپوزیشن کا دور شروع ہوگیا ہے اور یہ دور کپتان اور اسکے سپورٹرز کے صبر ، محنت ، جدوجہد اور ثابت قدم رہنے کے امتحان کا دور ہے۔
————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر