وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجدِ نبوی کے واقعے پر ہر کس و ناکس اپنی اپنی مذمتی و غیر مذمتی رائے دے رہا ہے۔ مگر تحریکِ لبیک اور مولانا فضل الرحمان نے اگر کوئی ردِعمل دیا بھی ہے تو وہ دیگر بیانات کے بوجھ تلے کہیں دب دبا گیا۔ حالانکہ ماضیِ قریب میں اس سے کم سنگین واقعات پر ہم نے دونوں کو آسمان سر پہ اٹھاتے دیکھا ہے۔
مگر اس کمی کو وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے شیخ رشید اور عمران خان سمیت آٹھ افراد کے خلاف ایک ’عام شہری‘ کی شکائیت پر اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں توہینِ مذہب اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی بریکنگ نیوز سے پورا کر دیا ہے۔
حالانکہ خود سعودی حکام اپنے قوانین کی روشنی میں پکڑ دھکڑ اور چھان پھٹک کر رہے ہیں۔ انھوں نے فی الحال حکومتِ پاکستان سے کسی اضافی قانونی مدد کی درخواست بھی نہیں کی۔ پھر بھی رانا ثنا اللہ نے سعودیوں کو رضاکارانہ صلاح دی ہے کہ جو جو اس واقعہ میں ملوث ہے اسے ڈی پورٹ کر کے وطن واپس بھیجا جائے تاکہ قرار واقعی سزا مل سکے۔ لگتا ہے رانا صاحب کو سعودی نظامِ انصاف سے تسلی نہیں ہے۔
اس پر پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری نے ’امپورٹڈ حکومت‘ پر مذہبی کارڈ کھیلنے کا الزام لگایا ہے ۔حالانکہ انہی شیریں مزاری نے چند دن پہلے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل پر امر بالمعروف کے تصور کا مذاق اڑانے کا الزام لگایا تھا۔
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی ( جون ایلیا )
گمان تھا کہ کم از کم عید کی تعطیلات میں سیاستدان اپنے اپنے اہلِ خانہ اور احباب کے ساتھ نجی مسرتوں کا آنند لیں گے۔ مگر یہ امید بھی خوش فہمی نکلی۔ اب پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے فرمان ہے کہ انھیں چاند رات میں قریہ قریہ پھیل کے عید کی شاپنگ میں مصروف لوگوں کو امپورٹڈ حکومت آنے کے قومی نقصانات بتانے ہیں اور عید کی نماز میں گلے ملتے وقت کان میں کہنا ہے ’آزادی، سی یو ان اسلام آباد‘۔
ادھر لاہور میں دھما چوکڑی کی دوسری قسط عید کے فوراً بعد دیکھنے کو ملے گی جب الیکشن کمیشن چھ مئی سے ان چھبیس پی ٹی آئی منحرفین کو نااہل قرار دینے کی درخواست سنے گا جن کے بل پر حمزہ شہباز کی نوزائیدہ حکومت ٹکی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس درخواست پر فیصلے کے لیے کم ازکم تیس دن درکار ہیں۔
ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم اور نامزد وزیرِ اعلی پنجاب کی منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت بھی چودہ مئی کو ختم ہو رہی ہے اور ان پر باقاعدہ فردِ جرم بھی عائد ہو سکتی ہے۔
ان ٹرمپ کارڈز کے ہوتے اگر پنجاب کے گورنر اور اسمبلی کے سپیکر گذشتہ ایک ماہ کے دوران ذہانت کے بجائے ذرا سی سیاسی کامن سننس دکھاتے ہوئے حمزہ سے کہتے کہ جا بچے تو بھی چار دن جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھنے کا شوق پورا کر لے تو بنا ہینگ اور پھٹکڑی کے چوکھا رنگ لگ سکتا تھا اور عزتِ سادات بھی ہاتھ میں رہتی۔
گورنر عمر چیمہ کی قانونی و سیاسی بصیرت کے بارے میں تو اتنا نہیں معلوم البتہ پرویز الہی کی شہرت یہ ہے کہ وہ سیاسی شطرنج کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ مگر پچھلے ایک ماہ میں انھوں نے جو ’پرفارمنس‘ دکھائی اس سے تو گمان ہوتا ہے کہ ان کا پینتالیس سالہ سیاسی تجربہ شائد ایک سال کا ہے جسے چوالیس برس سے دھرایا جا رہا ہے۔
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی (اقبال)
ایسے وقت جب مرکز میں شہباز سرکار محض دو ووٹوں کی اکثریت پر ٹکی ہوئی ہے اور جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ اور ان کے صاحبزادے کی پنجاب سرکار ہوا میں معلق ہے۔ جادوگر زرداری کا سندھ قلعہ بظاہر محفوظ ہے۔ ان سے یہ قلعہ کوئی سیاسی منگول ہی چھین سکتا ہے۔ مگر ہمیں جو منگول درپیش ہے وہ شمشیر زنی و نیزہ بازی کے کرتب دکھانے کے بجائے گھوڑے کے سموں سے دھول اڑانے کا ماہر زیادہ لگتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر