امتیاز عالم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاری جان بلوچ کے ”فدائی حملے“ کے بعد نامور صحافی انور ساجدی نے روزنامہ انتخاب (کوئٹہ) میں ”بلوچ پیش مرگہ“ کے عنوان سے بلوچوں کے لیے دو راستوں یعنی جمہوری و پرمن یا مسلح بغاوت کو بیان کرتے ہوئے بلوچ نوجوان خواتین کے فدائی دستے کے ترانے کا ذکر کیا ہے کہ ”خواتین کی بڑی تعداد نے کرد خواتین کی طرز پر بلوچ پیش مرگہ تشکیل دیا ہے اور غالباً سینکڑوں نوجوان خواتین اپنی جان دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان فدائی خواتین کا ترانہ براہوئی زبان میں ہے۔ جس میں وہ بلوچ سرزمین کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کے لیے تیار ہیں۔“ پھر بلوچ مسئلے پر سوچوں کا فرق بیان کرتے ہوئے انور ساجدی رقمطراز ہیں کہ ”اس کا اندازہ گودی شاری بلوچ کے واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف آرا سے لگایا جاسکتا ہے۔ پنجاب سے آنے والی آوازوں میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا خود کش حملہ پاگل پن ہے اور دشمن نے نوجوانوں کو برین واش کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے اعادہ کیا ہے۔ لیکن دنیا بھر سے بلوچوں نے زیادہ مختلف ردعمل دیا ہے۔ ان کے نزدیک شاری نے نئی تاریخ رقم کردی ہے کہ اس کی قربانی ہمیشہ یاد رہے گی۔ لوگوں نے ایک طرف دکھ اور دوسری جانب خوشی کا اظہار کیا ہے۔ راتوں رات ایک بڑا لٹریچر وجود میں آ رہا ہے۔ لوگوں نے شاری کی شان میں ہزاروں اشعار لکھے ہیں۔“ اس طرح کے دو متحارب ردعمل ہم 1970 میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ مغربی پاکستان میں ”محبت کے زمزموں کا ذکر تھا یا پھر بیرونی ہاتھ تھا۔“ تو مشرقی پاکستان میں آزادی کے رزمیوں کی تاریخ لکھی جا رہی تھی۔ لیکن بلوچوں کی بیرونی حملہ آوروں اور نوآبادیاتی غلبوں کے خلاف قومی آزادی کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود بلوچستان۔
بلوچستان دنیا کی قدیم ترین آبادی ہے جہاں قدیم ترین انسان کے آثار آج بھی ملتے ہیں۔ قدیم حجری دور ( 7000 BCE) سے کانسی کے دور ( 2500 BCE) اور اس کے بعد تک بلوچستان ہڑپہ کے ثقافتی مدار کا حصہ ہوتے ہوئے سندھ تاس کی آبادیوں کی تعمیر میں اس کی معدنیات اور کاریگری نے بڑا ہی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ان کی زبان انڈوایریئن نہیں تھی بلکہ درواڑی نسل کی برا ہوئی زبان تھی۔ یونانیوں کے طویل حملوں، ماریاؤں کی یونانیوں پر فتح کے بعد چندرگپت موریا، سیلوس نے 303۔ BCE میں بلوچ مزاحمت سے امن کیا۔ بعد ازاں ایرانی، افغانی، عرب، مغل اور دھلی کی سلطنت کے قبضے اور ان سے جھگڑے رہے۔ بالآخر قلات کی ریاست ( 1666۔ 1948 ) وجود میں آئی۔ انیسویں صدی میں قوم پرستوں نے ایرانی قبضہ کے خلاف بغاوت کردی۔ بیسویں صدی میں بہرام خان نے کنٹرول سنبھالا جسے برطانوی راج نے تسلیم کر لیا۔ پھر میر دوست خان شاہ بلوچستان بنا جسے برطانیہ کی مدد سے ایران کے رضا شاہ نے شکست دی اور ایران میں تختہ دار پہ چڑھادیا۔ 1839 میں انگریزوں نے حملہ کیا اور مہراب خان کو قتل کر دیا گیا۔ 1877 میں انگریزوں نے بلوچستان ایجنسی کی بنیاد رکھی۔ آج کا بلوچستان وہیں کھڑا ہے جہاں کرنل سر رابرٹ گروز بنڈیمن نے اسے نوآبادیاتی تقاضوں کے مطابق ”ترقی“ دی تھی۔ 1928 میں پہلی بار بلوچستان کے لیے جمہوری اصلاحات کی تجویز محمد علی جناحؒ نے دی۔ جبکہ 1932 یوسف مگسی نے پہلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد میں منعقد کی۔ اس کے بعد قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی بنی۔ اور انجمن وطن جنگ آزادی میں کانگرس کی اتحادی بنی۔ مسلم لیگ کے حوالے سے قاضی محمد عیسیٰ نے بڑا کردار ادا کیا اور 1943 میں جناح کا کوئٹہ میں بڑا استقبال ہوا۔
بلوچستان میں چیف کمشنر کا صوبہ تھا اور پرنسلی ریاستیں جن میں قلات، مکران، لسبیلہ، خاران وغیرہ شامل تھے۔ 3 جون 1947 کے برٹش پلان کے تحت بلوچستان کے علاقوں کو پاکستان یا بھارت کا حصہ بننا تھا۔ برطانیہ نے قلات کو ایک غیر ہندوستانی ریاست نہیں مانا تھا۔ لیکن خان آف قلات کی کنفیڈرل نظام کی تجویز کو مانتے ہوئے جناح نے دوسری شاہی ریاستوں کی طرح پاکستان سے الحاق کی بات کی۔ صوبے کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی کے اراکین نے 29 جون 1947 ءکو الحاق کا اعلان کیا تو خان آف قلات اور ان کے دیگر ساتھی شاہی جرگہ سے علیحدہ ہو گئے اور 15 اگست کو قلات ریاست کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ لیکن 27 مارچ 1948 میں کرنل گلزار نے جی او سی جنرل اکبر خان کی ہدایت پر قلات پر قبضہ کر لیا۔ 28 مارچ کو قلات کو پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا گیا جس کی منظوری جناح صاحب نے 31 مارچ 1948 کو دے دی۔
پاکستان سے ”الحاق“ کے بعد بلوچ مسلسل اپنی قومی خود مختاری کے لیے لڑتے رہے۔ پہلی مزاحمت پرنس عبدالکریم خان نے خان آف قلات کی الحاق کی حمایت کے خلاف کی۔ لشکر کشی کی لیکن ناکام رہا۔ 1955 میں صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنا دیا گیا، جس کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔ دوسری مزاحمت نواب نوروز خان نے 1958۔ 59 میں گوریلا جنگ شروع کر کے کی۔ وہ گرفتار ہوئے اور ان کے پاچ بیٹوں اور بھتیجوں کو پھانسی پہ چڑھا دیا گیا۔ تیسری مزاحمت شیر محمد بجرانی مری کی قیادت میں بی ایل ایف نے شروع کی جو 1963 سے 1969 تک جاری رہی تاآنکہ ون یونٹ ختم ہوا اور فائر بندی ہو گئی۔ چوتھی مزاحمت صدر بھٹو کے بلوچستان میں نیپ کی حکومت توڑنے کے خلاف 1973 میں میر ہزار خان بجرانی مری کے بی ایل ایف نے شروع کی جو کہیں جاکر 1977 کے آخر میں ختم ہوئی۔ پانچویں مزاحمت کا آغاز خیر بخش مری کی گرفتاری پر 2001 میں ہوا اور 2004 میں گوادر میں تین چینی انجینئر ماردیے گئے۔ میر بالاچ مری اور اکبر بگٹی نے 15 نکاتی مطالبات پیش کیے۔ کچھ نہ ہوا اور اکبر بگٹی کو 2006 میں شہید کر دیا گیا جس سے مزاحمت کی آگ پھیل گئی اور اب اس مزاحمت اور فوج کشی کو تقریباً دو دہائیاں ہو چکی ہیں اور اس کے ختم ہونے کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔ 12 اگست 2009 کو خان آف قلات میر داؤد سلیمان نے آزادی کا اعلان کیا اور کونسل آف انڈیپینڈنٹ بلوچستان بنائی جس میں ایرانی سیستان بھی شامل ہے۔
بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 40 فیصد ہے جسے بزور طاقت مقبوضہ علاقہ بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کی آبادی کل آبادی کا چھ فیصد اور بلوچ اس کا 52 فیصد ہیں جو ایک ایسی مجتمع قوت نہیں بن سکے ہیں کہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کر لیں۔ البتہ بلوچستان میں مزاحمت کو کچلنا ناممکن ہے اور بلوچستان کی مزاحمت کا بوجھ اٹھانا پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات میں مشکل تر ہوتا جائے گا۔ بلوچ مزاحمت پسندوں کو بلوچ نوجوانوں اور آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے اور ایک وسیع و عریض سنگلاخ علاقہ ان کی گوریلا جنگ کے لیے نہایت موزوں ہے۔ بلوچستان پرمسلط جدید نوآبادی نظام فرسودہ ہے اور عوام دشمن ہے جس میں بلوچ عوام کی جمہوری شرکت، مساوی ترقی اور سماجی پیش رفت ممکن نہیں۔ بلوچستان کے تمام تر معدنیاتی و قدرتی ذرائع اور ان سے حاصل آمدنی و فوائد بلوچستان اور اس کے عوام کے کام نہیں آتے جس میں سی پیک کے منصوبے اور گوادر کی بندرگاہ بھی شامل ہے۔ بلوچوں کی نسل کشی اور نسلی تعصب نوجوان نسل کو اور بیگانہ کرہاً ہے۔ بلوچستان پہ ایک جعلی سرداری اور گماشتہ نظام مسلط کیا گیا ہے جس کا وہاں کے عوام اور ان کی جمہوری و انسانی تمناؤں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس جدید نوآبادیاتی غلبے، قومی استحصال و نابرابری کے ہوتے ہوئے، بلوچستان کے مسئلے کا کوئی حل نکلنے والا نہیں۔ ریاست پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بلوچ عوام کی قومی منشاؤں کا احترام کرتے ہوئے قومی جبر کا خاتمہ کر کے بلوچوں کی ان کے تمام امور میں قومی شرکت کو یقینی بنائے یا پھر ایک بے نتیجہ جنگ میں خود کو اور بلوچوں کو تباہی سے دوچار رکھے۔ بس! رکیے بہت ہو گیا۔ بلوچوں کو ان کا جائز حق دو!
یہ بھی پڑھیے:
قضائے الٰہی اور انسانی گناہوں کی سزا۔۔۔امتیازعالم
بدلتا علاقائی منظر اور او آئی سی کا زوال۔۔۔امتیازعالم
امریکہ کی واپسی اور چین کے بدلتے تیور۔۔۔امتیازعالم
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر