رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افطاری کے بعد پریس کلب میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک پچپن سالہ انصافی ٹائپ صحافی آیا، ہاتھ میں آئی فون تھا، بولا کہ جس کو خدا رسوا کرنا چاہتا ہو تو چاہے وہ مسجد نبوی میں جائے یا خانہ کعبہ میں، اس نے رسوا ہونا ہی ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پچپن سالہ انصافی ٹائپ صحافی کے خیالات میں اس کے ادارے (ٹی وی چینل) کی پالیسی بھی چھلک رہی تھی۔ بہرحال یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ جہاں سے کسی انسان کی روزی روٹی آتی ہو وہ اس کی ٹوہ لیتا ہے کیونکہ ننانوے فیصد لوگ دھارے کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔
آج مسجد نبوی میں انصافیوں کی طرف سے انجام دیے گئے شرمناک واقعہ کے حوالے سے بلاشبہ اس پچپن سالہ انصافی ٹائپ صحافی کا کہنا تھا کہ اس میں بھی اذن ربی شامل تھا، مجھے یہ بات سن کر کافی حیرت ہوئی اور اس کہاوت کی صداقت مجھ پر دو چند ہو گئی کہ انسان کا دماغ ایک ایسی مشین ہے کہ وہ ہر بات کا کوئی نہ کوئی جواز گھڑ ہی لیتا ہے۔ یہ کہاوت ہمیشہ درست ثابت ہوتی آئی ہے اور ہمیشہ بھی درست ثابت رہے گی، کیونکہ یہ نا قابل تردید حقیقت ہے کہ انسان کوئی بھی کام کرتا ہی اس وقت ہے جب وہ اس کو درست سمجھ رہا ہو۔ مثال کے طور پر جو لوگ جرائم پیشہ ہوتے ہیں ان کے پاس بھی جرم کو انجام دینے کا کوئی نہ کوئی جواز موجود ہوتا ہے، اسی طرح منشیات کے عادی افراد بھی اپنے پاس منشیات کے استعمال کا کوئی نہ کوئی جواز رکھتے ہوتے ہیں یا پھر دہشت گرد اور خود کش بمبار بھی ایک جواز لے کر چل رہے ہوتے ہیں۔ عالمگیر سچائی یہی ہے اگر کوئی انسان کسی کام کو اپنے شعور و لا شعور میں غلط سمجھتا ہو تو پھر اس کو کیونکر انجام دے گا۔
تاہم آج کا مسجد نبوی میں ہونے والا واقعہ جس میں ایک مخصوص سوچ رکھنے والے کچھ لوگوں نے سب کی نظروں کے سامنے مسجد نبوی کی بے ادبی کی اور اتنی متبرک جگہ کے تقدس کا بھی لحاظ نہیں کیا، اگر یہ کچھ ”کرپٹ“ لوگوں کو رسوا کرنے کے لئے اذن ربی ہو سکتا ہے تو پھر کیا مساجد و امام بارگاہوں اور اولیا اللہ کی مزارات پر خود کش حملوں کو بھی اذن ربی سمجھا جائے گا؟ حالانکہ اتنے سارے معصوم لوگوں کے بے رحمانہ قتل کو اذن ربی کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے، جو اس کی عبادت کے لئے اکٹھے ہوئے۔
لیکن اگر مساجد، امام بارگاہوں اور اولیا کرام کی مزارات پر حملہ ایک گھناؤنا جرم ہے تو مسجد نبوی میں کسی کی عزت نفس پر حملہ بھی اتنا ہی بڑا جرم کہلائے گا جتنا بڑا جرم نمازیوں کو خود کش حملے کا نشانہ بنانا ہے۔
مگر یہ کیا، مسجد تو اللہ کا گھر ہے اور جائے امان کہلاتی ہے۔ جبھی تو ہمارے گاؤں گوٹھوں میں کوئی شخص مسجد میں پناہ لے لے (چاہے اس نے کتنا ہی بڑا جرم کیوں نہ کیا ہو) ، لوگ اسے مارنے کے لئے مسجد کی دہلیز پار نہیں کرتے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا وہ ان پڑھ لوگ ہوتے ہیں جو کہ مسجد میں پناہ لینے والے مجرم کو وہیں چھوڑ کے چلے جاتے ہیں، ان کے پاس مہنگی یونیورسٹیوں کی بڑی بڑی ڈگریاں نہیں ہوتی، لیکن ان کے دلوں میں خدا کے گھر کا ایک احترام ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اگر کوئی اپرادھی مندر میں پناہ لے لے تب بھی لوگ مندر کی ڈیوڑھی پار کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس حوالے سے اسلامی تاریخی کا یہ واقعہ بھی موجود ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو پیغمبر اسلام حضرت محمد (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ جو لوگ خانہ کعبہ میں پناہ لیں گے ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔
ٹھیک اسی طرح مسجد بھی تو خانہ خدا ہے جبکہ مسجد نبوی کا تو رتبہ ہی سب سے بلند ہے، مگر یہ کون لوگ ہیں کہاں سے آئے اور کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو بندوں اور خدا کے بیچ رکاوٹ بن کے آج کے دن کو یوم حساب بنانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں ایک لبرل سیکولر سوچ کا حامل انسان ہوں لیکن میرے نزدیک کسی کی بھی عبادت گاہ کی ایک حرمت ہے اور عبادت گاہوں کی حرمت کا لحاظ سب کے لئے ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔
حالانکہ جب کوئی عورت یا مرد خانہ خدا میں جاتا ہے تو اس کا مقصد خدا کے حضور سر بسجود ہوکے اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا خدا معاف کرنے والا اور نہایت ہی رحیم ہے۔ مگر یہ کون لوگ ہیں خدا بن کے یہیں سزا و جزا کا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے جو سزا و جزا کے مالک و مختار بن بیٹھے ہیں ان کا حساب کون کرے گا اور ان کو کون سزا و جزا دے گا؟
چلو ان لوگوں سے پوچھتے ہیں جو آج مسجد نبوی کا تقدس پامال کرتے ہوئے وفاقی وزرا مریم اورنگزیب اور شاہ زین بگٹی کو چور چور، غدار غدار کہہ کر خانہ خدا میں ان کی عزت کا فالودہ بنا رہے تھے، نیابت تو ان کی بھی ملی تھی، چار سال کے لئے سہی مگر ملی تو تھی۔ پھر ان پونے چار سالوں میں انہوں نے کیا کیا، کون سا کارنامہ انجام دیا جس پر آج یہ اتنا اترا رہے ہیں۔ مخلوق خدا کے لئے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں نکالیں کہ حکومت جانے پہ اتنے پھرے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی پونے چار سالہ حکومت نے عوام کا خون نچوڑنے کے علاوہ ایسا کوئی کام کیا ہی نہیں جو لائق تذکرہ ہو، ان کی مسلط کردہ مہنگائی بلکہ لوٹ مار نے عام آدمی کا کچومر نکال کے رکھ دیا مگر پھر بھی یہ لوگ ڈھیٹ پنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ دعویدار ہیں کہ دوبارہ انتخابات ہوں تو پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ حالانکہ عوام تو ان کا نام گالی کے بغیر لیتے نہیں، پھر کیا فرشتے ان کو ووٹ ڈالنے کے لئے آسمان سے زمین پہ اتریں گے یا پھر الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں کرشمہ دکھائیں گی۔
آخر میں صرف اتنی گزارش کہ ایک مسجد ہی تھی جو انسان کے شر سے محفوظ قرار دی گئی تھی، بہتر ہو گا کہ اب بھی خانہ خدا کو جائے اماں رہنے دیا جائے!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر