محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے بدلتے موسموں کو قریب سے سمجھنے والے شائد کئی غلطیاں نکال لیں لیکن مجھے تو باجوہ ڈاکٹرائن میں صرف ایک سقم نظر آیا۔ اور نہیں یہ وہ غلطی نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
عمران خان جنرل باجوہ کی یہ ان کے زیر کمان ادارے کی غلطی نہیں ہیں۔ وہ ہماری 75 سال اجتماعی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔غلطی صرف اتنی ہے کہ اگر کسی فوج کے پاس جنگ کا کوئی منصوبہ ہوتا ہے، آنے والے سالوں کے لیے کوئی روڈ میپ ہوتا ہے تو عام طور پر اسے خفیہ رکھا جاتا ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
لیکن یہ کیسی ڈاکٹرائن تھی کہ جو میرے محترم صحافی سہیل وڑائچ سے لے کر میرے محلے کے ہر لونڈے کو پتہ تھی۔ پاکستان کے مستقبل قریب کے لیے بنائے گئے منصوبے کو زبان زدعام کرنا ہی شائد سب سے بڑی غلطی تھی۔ شاید اسی وجہ سے آئی ایس پی آر کے بنائے ہوئے گیت اب گالیوں میں بدل گئے ہیں۔
دشمن کے جن بچوں کو پڑھایا تھا اب وہ پڑھ لکھ کر استاد کے گلے پڑ رہے ہیں۔
جس فوٹو شاپ کی تربیت ادارے نے دی تھی وہ اب ادارے کے خلاف ہی استعمال ہو رہی ہے۔ ففتھ جنریشن وار اب سوشل میڈیا کی گوریلا جنگ میں بدل گئی ہے۔
جس بچے کے پاس فون ہے وہ دفاعی تجزیہ نگار بن چکا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ فلاں جنرل کو گھر بھیجو، اس والے کو سپہ سالار بناؤ، اور وہ جو دوسرا دبنگ لہجے والا تھا اس کو آئی ایس آئی کا سربراہ بناؤ۔ اگر یہ کرو گے تو فوج میری ہے ورنہ میں ابھی چوکیدار چور بن گئے والی میم دوبارہ شیئر کرنے لگا ہوں۔
جو باجوہ ڈاکٹرائن ہم تک پہنچی تھی اس کا فلسفیانہ حصہ تو سر سے گزر گیا لیکن یہ پتہ تھا کہ چھ سال تک جنرل باجوہ رہیں گے۔ جب ان کی نوٹیفیکشن کے وقت بکنے والوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تو سر باجوہ نے خود ہی بٹھا کر اپنی ایکسٹینشن کا حکم نامہ لکھوا لیا۔ اس ڈاکٹرائن میں انھوں نے اپنا ولی عہد بھی نامزد کر دیا تھا۔
اس ولی عہد نے کمان سنبھال کر یہ بات یقینی بنانی تھی کہ عمران خان آئندہ آنے والا الیکشن بھی جیتیں۔ یہ ڈاکٹرائن پورے ملک کو پتہ تھی اور تحریک انصاف والوں کو یہ اپنے نصیب کا لکھا لگتا تھا۔
ان کے ساتھ یہ ہوا کہ جیسے ابو نے عید پر نیا موبائل فون لے کر دینے کا وعدہ کیا ہو اور عید کے دن وہ پرانا بھی ضبط کر کے کہیں کہ تم اس پر صرف ٹوٹے دیکھتے ہو، میں نے تو تمھیں پڑھائی کے لیے لے کر دیا ہے۔
ہم جمہوریت پسند ٹائپ جمہوریت کے حسن کی تو بہت بات کرتے ہیں لیکن ادارے کے حسن کی بات نہیں کرتے۔ ادارے میں صلاحیت ہے کہ وہ اپنی غلطی مانے نہ مانے لیکن تھوڑا راستہ بدل کر آگے چل پڑتا ہے۔ سنہ 1972 میں ادارہ شکست خوردہ تھا، پانچ سال بعد ہی ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگا کر ہمیں نظام مصطفیٰ کے فوائد بتا رہا تھا۔
پی ٹی آئی کے جو سیاسی کارکن فوج میں اپنی پسند کی کمان چاہتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ فوج میں ترقیاں صرف میرٹ پر ہوتی ہیں۔
شہباز شریف اپنے بیٹے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگا رہے ہیں، شاہد خاقان اور سعد رفیق جیسے منھ پھٹ بھی بیعت کر لیں گے۔ جنرل باجوہ اپنے کسی بھانجے یا بھتیجے کو کورکمانڈر لگوانے کی کوشش کریں تو کیا ہو گا؟
ادارے کی سوچ اتنے آگے کی ہے کہ کسی جنرل کا بیٹا یا بھانجا آپ کو فوج میں ملے گا ہی نہیں۔ تو باجوہ ڈاکٹرائن میں واحد غلطی یہ تھی کہ جنرل باجوہ نے اپنا ولی عہد نامزد کر دیا، یا ولی عہد نے قوم کو یقین دلوا دیا کہ سپہ سالاری میرے نام لکھی جا چکی ہے۔
ایسے ماحول میں باقی درجنوں جنرل جو میرٹ پر اوپر آئے ہیں اس لیے نہیں کہ کسی شریف، کسی چوہدری، کسی بھٹو نے ان کی شفارش کی تھی۔ وہ ولی عہد کی نامزدگی کیوں مان لیں؟
کیا انھوں نے تیس سال تک محنت اس لیے کی ہے کہ سیلوٹ ماریں اور پھر اپنے حصے کے پلاٹ لے کر گھر بیٹھ جائیں۔
مغلوں سے بھی پہلے کی رسم ہے کہ بادشاہ جیسے ہی ولی عہد نامزد کرتا تھا تو اس کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی تھیں۔ اگر چھوٹی عمر کا ہوتا تو اس کے دودھ میں زہر ملانے کی کوشش ہوتی تھی۔ بالغ ہوتا تو اس کا جام بھرنے والے پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔
لیکن نہ ہمارا ادارہ بادشاہت ہے نہ جنرل فیض حمید کوئی مغل شہزادہ کہ باقی بھائیوں کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائی پھیر کر حج پر بھیج دیں۔ نہ ہی وہ کوئی پرنس محمد بن سلمان ہیں جو ابا کو کہے اب آپ آرام کریں میں اپنی بادشاہت کے لیے آپ کے انتقال پرملال کا انتظار کب تک کروں۔
تو چاہے آپ آئی ایس پی آر کے گیت گائیں یا گالیاں دے لیں، ایک دوسرے کو بوٹ پالشیاں کہہ لیں یا بچوں کی طرح مچل جائیں کہ مجھے تو وہ والا سپہ سالار ہی چاہیے۔ ادارے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ بوٹ کم، پالش زیادہ اور پالش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر